پردیس کا پہلا موسم سرما


صبح سگریٹ لینے کی لیے قریب کے گیس سٹیشن جانا پڑا تو سوچا گاڑی کی بجائے پیدل سفر کیا جائے۔ کرسمس کی رات سے ہی ٹورنٹو میں برف باری کا آغاز ہو چکا تھا اور رات بھر میں سارا منظر سفید لباس پہن کر کرسمس کی خوشیاں منانے میں شامل جسے یہاں وائٹ کرسمس بولا جاتا ہے۔ اس سال موسم نے البتہ اتنا رحم کیا کہ پچھلے سال کی نسبت اب تک سردی اور برف باری کی لہر کچھ ایک مہینہ دیر سے آئی۔ چند قدم چلتے ہی پچھلی سردیوں کی کتنی ہی یادیں کتنے ہی منظر لاشعور سے دوڑتے بھاگتے نکلے اور قدم قدم ساتھ چلنے لگے۔

2019 میں جب بال بچوں سمیت پاکستان سے کینیڈا کا رخ کیا تو کچھ اندازہ تو تھا کہ یہاں نیا آغاز اتنا آسان نا ہو گا، مگر پہلی سردی اور نئی نوکری نے مل کر شروع کے سال کو خوب یادگار بنا ڈالا۔ شدید سردی کے موسم میں جب درجہ حرارت اکثر منفی 10 سے منفی 20 کے درمیان پایا جاتا ہر روز کام پر جانے کے لیے کوئی تین گھنٹے پہلے اٹھنا پڑتا کہ جن دو جگہ پر نوکریاں ملی دونوں پر جانے کا سفر ہی گھر سے قریب 2 گھنٹے کا تھا۔

یہاں آ کر ڈرائیونگ لائسنس تو پہلی ہی کوشش میں حاصل کر لیا مگر گاڑی میرٹ پر نہیں پیسے سے ملتی تھی اور جیب قریباً خالی تھی۔ ایک نوکری جہاں اب گاڑی پر عموماً پندرہ منٹ میں پہنچ جاتا ہوں وہاں جانے کے لیے دو بسیں اور دو مختلف سب ویز پر دو ہی گھنٹوں میں پہنچتے۔ ہفتے میں ایک دو بار دیری کی بنا پر پہلی بس آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی اور اگلی بس پکڑنے کے لیے قریب ایک میل پیدل ”برف دوڑ“ لگانا پڑتی جس دوران پھسلنے کا خطرہ الگ رہتا۔

امتحان یہیں ختم نہیں ہوتا کہ ابھی ایک بڑی دشواری اگلی بس کے واسطے سٹاپ پر انتظار ہوتا ہے جب یخ بستہ ہوائیں کپڑوں کی ہر تہہ کو چیر کر انسان سے مرغا بنا ڈالتی ہیں۔ دوسری نوکری کے لیے صرف انہی دو بسوں کا سفر درکار تھا مگر آخری سٹاپ سے آفس تک کوئی ایک کلو میٹر تک پیدل مارچ۔ ہر روز، ہر گزرتی گاڑی کو حسرت سے تکتے اور سوچتے کہ یہ نعمت ہمیں دوبارہ جانے کب نصیب ہو گی۔ نوکری سے فراغت پا کر، دو ہی گھنٹوں کی مزید بھاگ دوڑ کے بعد جب گھر لوٹتے تو غالب کے مصرے میں مرنا کو چلنا سے بدل دیتے کہ وزن بھی قائم رہے اور مدعا بھی بیان ہو جائے،

مجھے کیا برا تھا چلنا، اگر ایک بار ہوتا۔

سودا سلف لینے کی باری آتی تو اکثر ایک مہربان نجم بھائی فرشتہ بن کر آتے اور ہم ان کی گاڑی میں ہفتہ بھر کا سامان بھر لاتے۔ مگر جب وہ میسر نا ہوتے تو چار چار تھیلے اٹھائے گراسری سٹور سے بسوں کا انتظار صبر کا ایک اور امتحان ٹھہرتا یا پھر شدید موسم میں اوبر ٹیکسی۔ پھر ایک بار جمعہ پڑھنے کے بعد یونہی ایک رینٹ اے کار پر جا پہنچے تو پتا لگا کہ ان کی دکان تو بروز ہفتہ 12 بجے بند ہو جاتی اس لیے گاڑی لے جائیے اور اگلے دن واپس ان کی پارکنگ میں کھڑی کر کے چابی ایک بکسے میں ڈال دیں۔

اپنی پاکستانی حس فوراً بیدار ہوئی اور مینیجر سے پوچھا کہ اچھا بھائی آپ کیمرے سے چیک کریں گے کہ گاڑی واپس کب آئی تو شاید اسے بھی میری نیت کا اندازہ ہو گیا، جواب ملا کہ یہ ہم نہیں دیکھتے بس جب سوموار کی صبح دکان کھلے تو گاڑی اس سے پہلے کھڑی ملے۔ بس پھر فوری جمع ضرب کر کے حساب لگایا کہ اگر ہر جمعہ کی دوپہر کو گاڑی لی جائے اور ہفتہ کی بجائے اتوار کی رات تک کو واپس کھڑی کر دیں تو کچھ ایسا نقصان بھی نہیں۔ بس ہر ہفتے نئی کار یا جیپ کے فراٹے بھرتے اور باقی دن بسوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران گاڑی کی اہمیت پر غور و فکر کرتے۔ آخر کار دو تین ماہ کی تلاش کے بعد ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی کی تلاش میں کامیابی ملی۔ یہ الگ بات کہ اس بعد آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کا احوال اگلی بار سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).