پاکستان میں استاد کی ناقدری کیوں؟


دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں استاد کی اہمیت اور قدر و منزلت آج بھی بدستور قائم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں استاد کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے فیصلوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ استاد چاہے سرکاری اداروں کا ہو یا نجی کا، سکول، کالج، یونیورسٹی کا ہو یا اسلامی مدرسے کا، استاد کا کام انسان کی کردارسازی، شخصیت سازی اور راہنمائی ہی تو ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا میں استاد سے بڑھ کر انقلاب برپا کرنے اور تبدیلی لانے کا کوئی اور محرک نہیں ہے۔

علماء اور مفکرین کی نظر میں ”استاد اس لیے انسانی معمار (Human Engineer) کہلانے کا حق دار ہے کیونکہ اللہ انسان کی تخلیق کرتا ہے اور استاد اسے بناتا ہے۔ ماہرین کی نظر میں انسانی کردار اور شخصیت سازی میں استاد ایک ہی وقت میں کئی کردار انجام دے کر تعمیل کر دیتا ہے، جن میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اداکاری و ہدایت کاری، رہنمائی و مشاورت، تعلمی انتظام وانصرام، معاونت و نظم، نگرانی و تنقیح اورجائزہ و پیمائش وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر بحیثیت مسلمان ایک استاد کے لیے اس سے زیادہ قابل تکریم و احترام اور کیا بات ہو سکتی ہے جو کہ اس کائنات کی عظیم شخصیت، خُلق عظیم کے مالک محمد ﷺ نے خود کو معلم پکار کر پیشۂ معلمی پر عظمت اوربزرگی کی مہر لگا دی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ میں سب سے زیادہ قدرومنزلت اور احترام استاد کے حصے میں آیا ہے۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ نے مشاورت کی غرض سے اپنے استاد محترم کو دربار میں آنے کی التجا کی۔ وہ بادشاہ کے دربار میں اس شرط پر حاضر ہونے پر رضا مند ہوا کہ بادشاہ اسے لینے کے لیے خود آئے گا۔ بادشاہ نے شرط مان لی اور اپنے استاد کو بڑی عزت کے ساتھ دربار لے آیا۔ اس واقعے کو بہت سارے لوگوں نے دیکھا اور ان کو استاد کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ استاد محترم نے دربار جا کے وضاحت کی کہ اس سے اس کا مطلب خودنمائی یا تکبر یا رعونت ہر گز نہیں تھا بلکہ لوگوں کو علم اور استاد کی قدر بتانا مقصود تھا۔

آئیے اپنے پاکستانی معاشرے کی کہانی سنیے! یہاں پر استاد کو وہ عظمت ومقام حاصل ہے نہ وہ قدرومنزلت، جس کا وہ مستحق ہے، بلکہ معاشرے میں سب سے زیادہ استاد کو کمزور اور مفلوک الحال سمجھا اور بنایا گیا ہے۔ آئے روز سوشل میڈیا پر اور دیگر نجی محافل میں لوگ اساتذہ کرام کی توہین کر کر کے تھکتے نہیں۔ اساتذہ کی اس گرتی ہوئی ساکھ کی کیا وجوہات ہیں؟ کیوں ہمارا پاکستانی معاشرہ استاد کے احترام سے عاری ہے؟ کیا اس کا ذمہ دار خود استاد ہے؟ یا پھر معاشرہ؟ یا پھر حکومت؟ آئیے کچھ تلخ حقائق زیربحث لاتے ہیں۔

سب سے پہلے استاد کی اس گرتی ہوئی ساکھ اور توہین کا ذمہ دار خود استاد ہے۔ اگرچہ اساتذہ کرام میں بڑے بزرگ اور متقی اولیاء اللہ بھی ہیں لیکن ان میں اخلاقی معیار سے گرا ایک ایسا کرپٹ ٹولہ بھی موجود ہے جن کو اپنے احترام کا پاس ہوتا ہے نہ دوسروں کے۔ ایسے افراد معلمی کے مقدس پیشے پر بدنما داغ ہیں۔ ان میں خودی ہوتی ہے نہ عزت نفس۔ چاہے پڑھائی ہو یا امتحان میں ڈیوٹی، سکول کی سرگرمیاں ہوں یا معاشرتی تعلقات اور روزگار،ان کا کردار کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ اساتذہ کرام اپنے اندرسے ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور بے اتفاقی کا شکار ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں اور بے شمار تنظیموں میں بٹ چکے ہیں۔ ان میں سے اکثر تینظیمیں اساتذہ کے حقوق کے دعوے تو کر رہی ہیں لیکن پس پردہ سیاسی پارٹیز کے مقاصد پورے کرنے پر عمل پیرا ہیں۔ بعض تنظیمی عہدیداران تو صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں۔ اورسرکاری مراعات کے علاوہ مختلف پراجکٹس، بورڈز یا دیگر محکموں میں اچھے اچھے عہدوں پر ڈیپوٹیشن لینے کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ ہی ان کا مقصد خاص ہے۔ بعض برائے نام لیڈروں کو تو اعلیٰ افسران کی چاپلوسی اور خوشامد سے فرصت نہیں ملتی۔ کچھ تو یونین بازی کی آڑ میں پریشرگروپ کا حصہ اس لیے بنتے ہیں تاکہ ان کا کوئی ڈیوٹی میں گڑبڑی کی صورت میں بال بیکا نہ کر سکے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اساتذہ کو قدر اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ برائے نام ”سلام ٹیچر ڈے“ منانا، ”پولیس سے سلام“ کروانا اور حکومتی دعوے اور کھوکھلی نعرہ بازی اپنی جگہ لیکن چاہے حکومتی ارکان ہوں یا غیر حکومتی، اکثر ان سے اساتذہ کی تحقیر و توہین سرزد ہوتی رہی ہے۔ حکومت کی استاد دشمن پالیسیوں نے تو اساتذہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ پولیو ڈیوٹی ہو یا مردم شماری، خانہ شماری ہو یا الیکشن ڈیوٹی، احساس پروگرام ہو یا ووٹر لسٹ، سیلاب ایمرجنسی ہو یا آئی ڈی پیز کی دیکھ بال، پڑھائی ہو یا امتحانی ڈیوٹی، بے شمار اس طرح کی ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ اب اساتذہ کو گھر گھر جا کر بچوں کو سکول زبردستی لانا ہے ورنہ بچوں کے سکول نہ آنے کی صورت میں ان کو سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اے ایس ڈی اوز، ایس ڈی اوز، ڈی ڈی اوز، ڈی ای اوز، ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کے ساتھ ساتھ آئی ایم یو ورکرز، رضا کاراور ٹائیگر فورس کو بھی استاد جواب دہ ہوگا جس کا صاف یہ مطلب ہے کہ معاشرہ میں سب سے ”بڑا مجرم“ صرف اور صرف استاد ہی تو ہے۔

چوتھا سبب والدین کا منفی رویہ ہے۔ اکثر والدین گھروں میں بچوں کے سامنے ان کے اساتذہ کو برے القاب سے نوازتے رہتے ہیں جس سے بچوں کی نظروں میں اساتذہ کی رہی سہی عزت بھی جاتی رہتی ہے۔ ان میں سے اکثر استاد کو ایک عام نوکر سے بھی کم تر خیال کرتے ہیں جس کا منفی اثر ان کے بچوں کے رویوں پر بھی پڑتا ہے اور استاد ہار جاتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کی طرف سے عدم دلچسپی اور عدم تعاون کا بھی استاد کی گرتی ہوئی ساکھ میں بڑا عمل دخل ہے۔

پانچواں سبب یہ کہ اکثر افسران بالا، سکول سربراہان، تعلیمی منتظمین اوردیگر متعلقین بھی استاد کی عزت نفس اور پریشانیوں کا لحاظ کیے بغیر اساتذہ سے برا سلوک اور غیرتسلی بخش رویہ روا رکھتے ہیں جس سے ان کا احساس کمتری مزید بڑھ جاتا ہے اور نفسیاتی لحاظ سے وہ مفلوج ہو جاتے ہیں۔

چھٹا سبب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کا اساتذہ کے ساتھ بہیمانہ رویہ ہے۔ ان نجی اداروں میں استاد کو محض ایک ذاتی نوکر خیال کیا جاتا ہے۔ ان کو اتنی تں خواہیں دیتے ہیں جو کہ ایک عام مزدور کی دیہاڑی سے بھی کم ہوتی ہیں۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کو سب سے کم دیہاڑی ملتی ہے اور ساتھ ساتھ جنسی ہراسانی اور درندگی سے بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ اکثر ان اداروں میں تعلیمی قابلیت کی جگہ جسمانی خوبصورتی کو تقرری اور تنخواہ کا معیار مقرر ہوتا ہے۔

ساتواں سبب محکمہ تعلیم کے دفاتر ہیں جہاں پر استاد کے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جن اساتذہ میں تھوڑا بہت اپنی عزت کا پاس ہوتا ہے وہ ان دفاتر میں جانے سے کتراتے ہیں۔ خواتین دفاتر میں میں تو حالات اتنے خراب ہیں کہ اکثر والدین اپنی بچیوں کے لیے یہ دفاتر سب سے زیادہ غیر محفوظ مقامات خیال کرتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).