خوابوں کی راہ پر چھائی دھند چھٹ سکتی ہے!


ملک کی سیاسی صورت حال روز بروز تبدیل ہو رہی ہے جس سے سیاسی و معاشی مسائل کے گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کو چلتا کرنے کی ضد پر قائم ہے اور وزیراعظم عمران خان اسے این آر او نہ دینے کا بار بار اعلان کر رہے ہیں جبکہ دانشور حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی کو این آر او دے سکیں؟

عوام کی حالت دیدنی ہے وہ کبھی حزب اختلاف اور کبھی حزب اقتدار کو دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر ذاتی مقاصد کے لیے آپس میں الجھے ہوئے ہیں، انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں جو برس ہا برس سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ابھی تک انہیں کہیں سے بھی کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی۔

یہ کیسی عجیب بات ہے حکومت اڑھائی برس کے بعد بھی سمجھنے سمجھانے میں لگی ہوئی ہے۔ ان برسوں کے دوران جو حالت غریب لوگوں کی ہو چکی ہے شاید حکومتی عہدیداروں کو علم نہیں ہو گا اگر ہو بھی تو انہیں کیا؟ وہ تو موجیں کر رہے ہیں۔ ذاتی تجوریاں بھرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اخبارات میں ان کے بارے میں مال بناؤ سے متعلق خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ آٹا اور چینی سکینڈل سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی تبدیلی نہیں آئی مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پچھلے حکمران عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہاتے تھے۔ انہوں نے عوام کا دل جیتنے کے لیے آسائشوں، آسانیوں اور انصاف کی فراہمی کے لیے محنت کی ہوتی تو یہ حکومت وجود میں نہ آتی؟

خیر اس وقت اندھیر نگری چوپٹ راج ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ کوئی کسی کا نہیں سویلین ادارے عوامی مشکلات کم کرنے میں ناکام بتائے جاتے ہیں۔ مہنگائی مافیا نے ات مچا رکھا ہے۔ حکومت بھی کبھی گیس، کبھی بجلی اور کبھی پٹرول کی قیمتیں بڑھا رہی ہے۔

ادھر قبضہ گروپوں نے دھڑلے سے اپنا دھندا جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک سی سی پی او لاہور اگر ان کے راستے کی دیوار بنے ہیں تو اس سے پورا ملک تو ٹھیک نہیں ہو سکتا مگر یقیناً ایسے پولیس افسر ہوں گے جو ان کی طرح مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہ رہے ہوں گے لہٰذا حکومت اگر اب بھی عوام کی حالت پر ترس کھالے تو بلند حوصلہ اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے افسران اعلیٰ و بالا کو میدان میں اتارے اس سے کافی حد تک بہتری آئے گی۔ صرف محکمہ پولیس ہی نہیں دوسرے اداروں میں بھی ایسا ہی کیا جائے۔ میڈیا بھی ان کا ساتھ دے۔ اب جب سی سی پی او عمر شیخ نے خوفناک قبضہ گروپوں سے یتیموں، کمزوروں اور بیواؤں کی جائیدادیں مکانات اور پلاٹس پر قبضے چھڑوائے ہیں تو اس کا ذکر خصوصی طور سے ہونا چاہیے۔

بہر حال چند روز پہلے عمران خان نے اپنی کمزوریوں کا اعتراف واضح الفاظ میں کیا ہے۔ اس طرح کی بات میاں نواز شریف بھی اپنے دور اقتدار میں کر چکے ہیں کہ جب انہیں کچھ سمجھ آنے لگتی ہے تو پانچ برس پورے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں لینی چاہیے کہ واقعتاً انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں یہ وقت گزرنے کے احساس سے متعلق کہا جاتا ہے مگر ہمارے بعض تجزیہ نگار ایسی باتوں کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے عوام کے اندر مایوسی جنم لیتی ہے جبکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلخ صورت حال میں دلاسا دیا جائے، حوصلہ دیا جائے کہ یہ دن ایسے ہی نہیں رہیں گے۔

ادھر سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں مودی کے سر پر جنگ کا جنون سوار ہے جبکہ اسے اپنے غریب عوام کے لیے تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔ تعلیم و صحت کے لیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص کرنا چاہیے مگر وہ آتش و آہن کے کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتا ہے اس منظر نامہ کے تناظر میں بیدار دماغ اپنا کردار ادا کریں تا کہ متحد و یکسو ہو کر حالات کا مقابلہ کیا جا سکے!

تہتر برس ہو گئے آس کا دیا جلائے مگر ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی اب بھی اگر ہمارے اہل اقتدار و اختیار مل بیٹھیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے صرف سیاسی ماحول میں موجود تناؤ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو جائیں مگر عوام کی خواہش کو کون ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوا اب بھی ایسا ہی ہے۔

مگر نام عوام ہی کا لیا جاتا ہے۔ ساری سیاست ان کی آڑ میں کی جاتی ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ منتخب حکومتیں ہوں یا آمرانہ سب اقتدار کی بھوکی ہوتی ہیں پیسے کے لیے اقتدار میں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ دھوکا ہے یہ نظام حکومت جو مسلسل دیا جا رہا ہے۔ لوگ دواؤں کے بغیر مر رہے ہیں۔ ظلم کی داستانیں ہر سمت بکھری پڑی ہیں، تھانے اور پٹوار خانے بے بس لوگوں پر ستم ڈھا رہے ہیں مگر اہل اقتدار خاموش ہیں انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں پھر جب وہ انہیں گھورتے ہیں تو زیر عتاب آ جاتے ہیں وگرنہ عوام کو جتنا چاہیں اذیت پہنچائیں ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی!

لگ یہ رہا ہے کہ سیاسی منظر کی تبدیلی ہونے جا رہی ہے اگرچہ حکومت پر اعتماد ہے مگر جب وہ کہتی ہے کہ ہم نے تیاری نہیں کی تھی ایک برس تو اس نظام کو سمجھنے میں گزر گیا تو اس سے تجزیہ نگار یہ مرارد لیتے ہیں کہ حکمران ذہنی طور سے منتشر ہیں جس کا مطلب ہے وہ اقتدار کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتے؟

سوال یہ ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں رہتے تو پھر کون ہے جو آ کر ہر نوع کے بحرانوں پر قابو پا لے گا؟ ہمارے دوست جاوید خیالوی کا کہنا ہے کہ اب ایک قومی حکومت کے قیام کا وقت ہے جو سنجیدہ فہم سیاستدانوں یا بیورو کریٹوں اور ماہرین پر مشتمل ہونی چاہیے کہ وہ خارجہ پالیسی سے لے کر معاشی پالیسی تک کو اچھی طرح سے سمجھ سکتی ہو۔ پھر انصاف اور احتساب کا عمل شروع کر کے بے چین اور بے بس عوام کو مایوسی کے بھنور سے باہر نکال سکے۔

بالکل اس کی یہ تجاویز قابل عمل ہیں اب مزید دیکھنے دکھانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ ان تلوں میں تیل نہیں سب کچھ رک رک کر چل رہا ہے قانون کا دور دور تک نام و نشان نہیں جو کوئی انفرادی طور سے اس پر عمل درآمد کروا سکتا ہے وہ کروا لے تو کروا لے۔ وگرنہ حالت دگر گوں ہے لہٰذا جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچا جائے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم آگے بڑھ کر خوشحالیوں کے چراغ روشن کر لیں کیونکہ دو بڑی طاقتیں دنیا میں تجارت کرنے کے لیے ہمارے راستے پر چل کر جانا چاہتی ہیں جس سے ایک منظم اور تجربہ کار حکومت ہی فائدہ اٹھا سکتی ہے پھر برسوں سے خوابوں کی راہ پر چھائی دھند بھی چھٹ سکتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).