بزدلی کے پلنگ تلے میں اکیلا نہیں تھا


بزدلی کوئی خامی نہیں بلکہ بہت بڑی خوبی ہے جو اکثر اوقات ہاتھ پیروں کے ساتھ ساتھ آبرو کی بھی سلامتی کی ضامن ہے۔ ایک شوہر نے شیخی بگھارتے ہوئے اپنے دوستوں میں دعوٰی کیا ’میں اپنی بیوی کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر دیتاہوں‘ ۔ ’ہم نہیں مانتے‘ ایک دوست نے کہا۔ ’یہ تو تقریباً روز کا معمول ہے‘ شوہر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ جب بھی وہ مجھے مارنے لگتی ہے میں پلنگ کے نیچے گھس جاتا ہوں اور وہ گھٹنوں کے بل جھک کر کہتی ہے، بزدل کہیں کے۔ باہر آؤ۔

ہم سب کو کبھی نہ کبھی بے بسی کے پلنگ کے نیچے چھپنا پڑتا ہے اور انسانیت جھک کر کہتی ہے کہ بزدل! باہر آؤ۔ لیکن عافیت و سلامتی چھپے رہنے ہی میں ہے۔ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ کچھ دن پہلے چار پولیس والوں نے ایک نوجوان کو سرعام چوک میں لٹا کر اس کی پیٹھ پر چھترول کی۔ پھر اس کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر بازوؤں کو شرقاً غرباً کھینچا۔ جب درد سے بے حال ہو کر اس لتر رسیدہ جوان  نے چیخیں مارتے ہوئے اپنی ماں کو آوازیں دیں تب بھی گھبرا کر میں اسی بے بسی کے پلنگ کے نیچے گھس گیا تھا۔ یہ دیکھ کر بڑا اطمینان ہوا کہ میں وہاں اکیلا نہ تھا، آدھا محلہ اندر موجود تھا۔

دنیا میں اگر بزدلوں کا مقابلہ کرایا جائے تو وننگ ٹرافی اپنی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ہر جگہ بزدل ہیں۔ جہاں یقین ہو جائے کہ مدمقابل اپنے سے بھی زیادہ کمزور اور ڈرپوک ہے ہم فوراً اپنے خول سے باہر نکل آتے ہیں اور اس کی روح تک کی اچھی طرح چھترول کرتے ہوئے، عزت نفس پر پاؤں رکھ کر اس کی انا کو شرقاً غرباًکھینچ کھانچ کر اپنی خودی بلند کر لیتے ہیں۔

آفس میں اکثر اپنے ماتحتوں کو سب کام سونپ کر خود کرسی پر جھولتے ہوئے میں کافی دیر سستا لیتا ہوں۔ بیچ میں سو بھی جاتا ہوں۔ لیکن اگر اپنے ماتحتوں کو فارغ بیٹھا یا کھڑادیکھ لوں تو بس! میرے اندر کا گیڈر بزدلی جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ وہ بے نقط و بے ربط سناتا ہوں جیسے یہ سب میری کرسی کھینچنے کے چکر میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کورونائی اور بے روزگاری کے دور میں ان کے پاس میری پھٹکار سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لہٰذا بیگم کات مام غصہ، بڑے افسر سے کروائی گئی بے عزتی اور اپنی خوبصورت سیکرٹری کی بے اعتنائی۔ یہ تمام آتش فشاں کمینگی، خباثت اور ذلالت کے لاوے سمیت ان کے سروں پر پھٹتا ہے۔ جس کی دھمک ان کے گھروں تک جاتی ہے۔

لیکن کئی بار ہمیں ایسے لوگوں سے بھی ڈرنا پڑتا ہے جن سے ڈرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ پچھلے ہی دنوں گھر میں راج مزدور لگوائے تھے، باتھ روم کا فلش ٹوٹ چکا تھا اور نیا لگوانا تھا۔ یقیں مانیے ان کے کام کی رفتار دیکھ کر مجھے کچھوے کی سست رفتاری صرف ایک تہمت زدہ افسانہ لگی۔ اتنا نازک مزاج راج کہ ایک اینٹ اٹھانے پربھی کلائی سو سو بل کھائے۔ اتنے سے کام کے لیے اس نے تین اسسٹنٹ ساتھ رکھے تھے جن کی چائے، سگریٹ، کھانے اور ہڈ حرامی کا جرمانہ بھی مجھے ہی بھرنا تھا۔

ایک مزدور تو ایسا ناہنجار کہ اس کے بھینگے پن اور آوارہ نظر کی وجہ سے مجھے اس پڑوسی سے بھی معافیاں مانگنی پڑی جس نے پچھلے ہفتے میری دور مار نگاہوں کو (جو سیدھی اس کے ٹی وی لاؤنج تک جاتی تھیں ) مزید برداشت نہ کرتے ہوئے سامنے کھڑے ہو کر ناقابل اشاعت دشنام طرازی کی تھی اور جواباً میں نے اسے اپنے کتے سے کٹوایا تھا۔ یقین کریں مجھے اتنا غصہ تھا کہ کتا نہ کاٹتا تو میں خود ہی یہ کار خیر انجام دے لیتا۔ کام کی رفتار دیکھ کر ایک دفعہ تو دل چاہا اس راج کا ٹینٹوا ہی دبا دوں یا کم سے کم اس مزدور کی آؤٹ آف فوکس آنکھ ہی ضبط کر لوں۔ لیکن مصلحت کوشی آڑے آئی کہ اتنی منتوں سے ایک مستری کام کرنے کو آمادہ ہوا ہے۔ یہ بھی بھاگ گیا تو بنا کموڈ کے باتھ روم کس کام کا۔ اور ہم نیفہ پکڑے کہاں گھومتے پھریں گے۔ قریب کوئی خالی پلاٹ یا کھیت بھی تو نہیں۔

میں پھر کہتا ہوں کہ بزدلی کوئی خامی نہیں، بہت بڑی خوبی ہے۔ اپنی اسی بزدلی کی وجہ سے ہم جیسوں کی اکثریت محلے میں انتہائی شریف گردانی جاتی ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دلوں کا حال اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ لیکن ڈریں اس وقت سے جب کسی سائئنسدان  نے سوچ پڑھنے کا آلہ بھی ایجاد کر لیا۔ لوگ ایک دوسرے کے پیچھے سوچ پیما آلہ لیے گھومتے پھریں گے اور جگہ جگہ پٹیں  گے۔

لاہور میں کئی چوراہوں پر خواتیں دودھ پیتے بچے اٹھا کر بھیک مانگتی پھرتی ہیں۔ ان میں سے کسی بچے کے سر پر پٹی بندھی ہوتی ہے اور کسی کے بازو پر۔ تمام بچے تقریباً بے ہوش رہتے ہیں۔ شاید انہیں کوئی نشہ آور دوا پلائی جاتی ہے۔ میں جس چوراہے سے روز گزرتا ہوں، وہاں روزانہ ایک کریہہ شکل آدمی دو کم عمر بچوں کوگودمیں لیے کھڑا بھیک مانگتا ہے۔ دونوں بچوں کی عمریں پانچ یا چھ سال کے لگ بھگ ہوں گی۔ چہرے پر اتنی معصومیت، خوف اور مظلومیت کہ جیسے کہہ رہے ہوں ”امی پاس جانا ہے“ ۔

میں ایک بار انہیں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہوں کیونکہ دوسری بار دیکھنے کی ہمت نہیں پاتا۔ یہ دونوں بچے پولیو کا شکار ہیں اور چلنا پھرنا تو دور کی بات، کھڑے ہونے سے بھی معذور۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بچے یاد آ جاتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی میرے بچوں کو چوراہے پر لیے بھیک مانگ رہا ہے۔ دماغ میں شدید ابال اٹھتا ہے۔ شریانوں میں خون ٹھوکریں مارنے لگتا ہے۔ غصے سے مٹھیاں بھینچنے لگتا ہوں۔

جی چاہتا ہے کہ ابھی اس مکروہ شکل انسان کو پکڑ کے اس کا گلا دبا دوں یا ا س کی ٹانگیں توڑ دوں۔ تاکہ یہ بھی بے بسی اور بے کسی کا مزہ چکھے۔ کچھ نہیں تو کم از کم ادارہ تحفظ بچگان کو ہی اطلاع کر دوں کہ وہ آ کر اس کی خبر لیں۔ اتنے میں اشارہ کھلتا ہے اور میں گاڑی آگے بڑھا دیتا ہوں کیونکہ میں ازلی بزدل ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).