عجب موسم ہے وطن کا، دھندلکا ہی دھندلکا ہے
آپ اگر کسی طے شدہ پروگرام کے مطابق کچھ رہے ہیں تو کوئی طے شدہ پروگرام خراب کردیتا ہے تو آپ کو شدید غصہ بھی آئے گا۔ آپ ناراض بھی ہوں گے۔ اگر خراب کرنے والا پھر بھی باز نہیں آتا ہے تو آپ لڑنے مرنے پر بھی اتر آئیں گے۔ بے شک وہ آپ کے طے کردہ پروگرام سے بہتر پروگرام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے۔ مگر کمبخت نے آپ کے پروگرام کو تو درہم برہم کر دیا ہے۔ پھر مزید غصہ بھی آئے گا۔
یہ سوفیصد سچ ہے کہ پاکستان میں سب کچھ چل رہا تھا۔ طے تھا کہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے اور نہ کوئی رشوت لئے بغیر کام کرے گا۔ والئی ریاست ہائے بحریہ ٹاؤن ہزہائینس ملک ریاض یہ بانگ دہل ٹی وی پر کہتے رہے ہیں کہ ان کی فائلیں نہیں رکتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی فائلوں کو پہیے لگاتے ہیں۔
یہ طے تھا کہ ہرکام میں کمیشن لینا ہے۔ خواہ حج اور عمرہ ہی کا کام کیوں نہ ہو۔ یہ طے تھا کہ اسمبلیوں میں جاکر قومی خزانے سے گرانٹ کے نام پر دولت کمانی ہے۔ بے شک وزارت مذہبی امور کی ہو۔ اوپر کی کمائی کا راستہ نکالنا ہی نکالنا ہے۔
یہ طے تھا کہ سیاسی جماعتوں کی طرز کی پرائیویٹ کمپنیاں بناکر سیاست کے نام پر کاروبار کرنا ہے۔ یہ طے تھا کہ اقتدار جمہوری ہو یا مارشل لا ہو حکومت کا حصہ رہنا ہے۔ یہ طے تھا کہ وطن عزیز میں لوٹی دولت سے دیار غیر جائیدادیں بنانی ہیں۔ قومی خزانے کو بے دریع لوٹنا ہے۔
طے ہے کہ بھارت اور اسرائیل سے نفرت کو فروغ دینا ہے تاکہ عوام کو جذباتیت میں مبتلا رکھ کر مسائل و مشکلات پر بولنے سے روکا جا سکے اور حکمران طبقات کی کرپشن اور بدعنوانیوں کا سلسلہ چلتا رہے اور عوام نفرت کی بنیاد پر حب الوطنی کا چورن کھاتے رہیں گے۔
مگر کیا کریں سوشل میڈیا نے انت مچا رکھی ہے۔ تھوڑی سی بھنک پڑتی ہے تو ڈھول بجا بجا کر عالم نشر کر دیا جاتا ہے ۔ عاصم باجوہ کا پیزا دنیا بھر میں اب زیادہ بکنے لگا ہے۔ نواز شریف کے ایون فیلڈ فلیٹ کی کھڑکیاں اب لاہور سے نظر آتی ہیں۔ سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ پرویز مشرف بھی اب ڈر تا پھرتا ہے۔
یہ کرامات ہمارے وزیراعظم عمران خان کی ہیں۔ جنہوں نے سب ایتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے او راب کچھ بھی سنبھل نہیں رہا ہے۔ خیرخواہ بھی ششدر ہیں۔ مخالفین بھی چڑھ دوڑے ہیں۔ عوام کشمکش میں ہیں۔ حکومت پر اعتماد کریں کہ اپوزیشن کی بات سنیں۔ تیسری قوت کو آواز دیتے تھے۔ تیسری قوت بھی اب کی بار طے شدہ معاملات سے آگے نکل گئی ہے۔
سیاست بطور خاص بکھر کر رہ گئی ہے۔ سوچیں منتشر ہیں۔ ہر طرف ملک میں دھندلکا ہے۔ حکومت کچھ دینے کی بجائے چھین رہی ہے۔ عام غریب عوام آہستہ آہستہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ جرائم کی شرح تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
مسیحا نے مسیحائی کیا کرنی تھی دلجوئی بھی نہیں کر سکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوام نے اب نئے مسیحا کی امید ختم کردی ہے۔ عوام کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن سے لاتعلقی اور خاموشی کسی نئے طوفان کا موجب بھی بن سکتی ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ انتشارکے بعد سکوت بھی آتا ہے۔ جنگ کے بعد امن بھی ہوتا ہے۔ زوال کے بعد عروج بھی ملتا ہے۔
پاکستان کی ہر سمت زوال پذیری کا شکار ہے مگر یہ جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے۔ اس سے عروج کی امید بھی ہے کہ نئی قیادت جنم لے گی اور ایک انقلاب آفرین عہد شروع ہوگا۔ ملک کا جو دھندلکا ہے یہ ضرور ختم ہوگا اور اک نیاسویر طلوع ہوگی۔
- عورتیں ہم جنس پسند کیوں ہوتی ہیں؟ - 01/02/2022
- عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے - 03/07/2021
- اسلامی نظام کیا ہے اور نفاذ کیسے ہوگا - 29/06/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).