قانون سازی سے جنسی تشدد ختم ہو سکتا ہے؟


صنف پر مبنی امتیاز آج کل ہر جگہ ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے. خواتین کے خلاف مردوں کے تشدد کو ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی ایسے واقعات کی اطلاع درج کرانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جس سے متاثرہ فرد خوف و تشدد کا شکار اور کرنے والا بے خوف ہو جاتا ہے۔

میں کوئی قانون دان نہیں جو قانون کی باریکیوں پر بات کروں مگر معاشرے میں جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات کی وجوہات کو کریدنے کی سعی کرتی رہتی ہوں۔ سبط حسن کی کتاب ”ماضی کے مزار“ میں حجری دور کے آخری دنوں کا ذکر ہے جب انسان نے لکڑی اور پتھر کی مدد سے پھل توڑنے اور جڑیں کھودنے کا ہنر حاصل کر لیا تھا۔ ثمر یابی کے اس دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں مگر ایک وحدت کے تصور پر یقین رکھتا تھا جہاں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جہاں عورت کو مرد پر پھل پھول جمع کرنے اور بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فوقیت حاصل تھی۔ یعنی قبیلے کے وجود اور افزائش کی واحد ذمہ دار عورت کو مانا جاتا تھا۔

اسی طرح زراعت کے ابتدائی دور میں عراق میں بھی اموی نظام رائج تھا جہاں کھیتی باڑی عورتیں کرتی تھیں اور اس کی رسموں میں حاملہ عورت کو بڑی اہمیت حاصل تھی کیونکہ تحلیقی عمل اور زمین کی زرخیزی کا آپس میں گہرا تعلق مانا جاتا ، حاملہ عورتوں کی مورتیں اسی خیال کا مظہر تھیں۔ مگر بعد ازاں انسان نے بھاری ہل ایجاد کیے تو اموی نظام کے لیے اجل کا پیغام ثابت ہوا کیونکہ ہل اور بیل کی مدد سے کاشت کاری کے لیے جس جسمانی قوت کی ضرورت تھی وہ فقط مردوں کو حاصل تھی۔ اس سے جہاں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا وہیں فاضل پیداوار کی خرید و فروخت کا رواج پڑا۔ پیداوار اور تجارتی لین دین میں اضافے سے اموی نظام کی جگہ ابوی نظام نے لے لی۔ مرد نے نہ صرف معیشت پر قبضہ کر لیا بلکہ اسے اپنی طاقت کا ادراک بھی ہوا ، بھر معاشرتی طور پر طاقت کا سرچشمہ مرد کو سمجھا جانے لگا جس سے عورت کی حیثیت ضمنی ہو گئی۔

موجودہ دور میں جہاں انسانوں کی جگہ مشینوں اور ربورٹس کے آ جانے سے مرد کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہی جو ماضی میں شکار کرنے اور بھاری بھر کم کام کرنے کی وجہ سے عورت سے برتر سمجھا جاتا تھا تو مردانگی کا مظاہرہ کرنے اور اپنی دھاک بٹھانے کے لیے مردوں نے جنگوں کا آغاز کر دیا جس کا مقصد ایک دوسرے کی زمینوں، جائیداوں اور ملکوں پر قبضہ تھا۔ جنگوں کے دوران عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جانے لگا۔ خوبصورت اور جوان عورتیں یا لڑکیاں حرم خانوں کی زینت بننے لگی جبکہ عمر رسیدہ یا معمولی شکل و صورت کی حامل خواتین خدمت پر مامور، زخمیوں کی دیکھ بھال یا پھر مردوں کی جنسی تسکین کا سامان سمجھی جانے لگیں۔

گو کہ برصغیر پاک و ہند میں کچھ خواتین نے خود کو جنگجو کے طور پر بھی منوایا جن میں رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی قابل ذکر ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اسی دور میں راجپوت قوم اگر جنگ ہار رہے ہوتے تو ان کی عورتیں خود کو آگ میں جھونک دیتیں لیکن قیدی بننا قبول نہ کرتیں کیونکہ عزت کی خاطر خود کو قربان کرنا ان پر واجب تھا۔

اب بات کرتے ہیں پاکستان بننے کی جس میں عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں حصہ لیا جن میں سرفہر ست محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی، فاطمہ صغراں، شوکت آرا، کلثوم رحمان (جنہوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال کی) اور بہت سی دیگر خواتین۔ ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت کرتے وقت، عورتوں کو بہت اذیت سہنا پڑی ( اغوا، قتل اور عصمت دری یا پھر خودکشی) ۔

عورتوں نے ہر دور میں ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی خواہ وہ ضیا دور ہو جس میں خواتین محاذ عمل کا حدود آرڈینس جیسے قوانین کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنا اور ان پر پولیس کا لاٹھی چارج اور قید جیسی تکلیفیں یا پھر ”میرا جسم میری مرضی۔“ اور ”می ٹو“ جیسی مہم اور نعرے کے تحت عورتوں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد ۔ اسی طرح تقسیم ہند سے قبل لکھاری اور شاعر خواتین جن میں نمایاں نام کامنی رائے، امرتا پریتم، کرشنا صوبتی، عصمت چغتائی جبکہ بعد میں نمایاں ناموں میں رضیہ بٹ، قدسیہ بانو، فاطمہ ثریا بجیا وغیرہ سرفہرست ہیں۔

عورتوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے ہنر کا لوہا منوایا مگر معاشرے میں عورتوں اور بچوں کے خلاف بڑھتے جرائم اس بات کے غمازی کرتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں جبھی تو رات کے وقت اکیلے نکلنے یا زیادتی کا شکار ہونے پر عورت کو ہی الزام دیتے ہیں۔ جس کی ایک مثال باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنا، ان کی کارکردگی اور ترقی کو بہانہ بنا کر استحصال کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بچیوں کو پاس کرنے کے لیے ذہنی و جسمانی تشدد کا سامنا۔ گو کہ حکومتی سطح پر اس کے خلاف ایک قانون بھی پاس کیا گیا اور مختلف اداروں نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دی مگر ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

آئیے اب تشدد کے محرکات جاننے کی کوشش کرتے ہیں

تشدد کی کئی اقسام ہیں مثلاً گھریلو تشدد، ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشی تشدد وغیرہ جن کا مقصد عورتیں اور بچے ( جو کہ معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ مانا جاتا ہے،  پر اپنی دھاک اور دھونس جمانے اور عورت کو (خاص طور پر) اس کی ’اوقات‘ میں رکھنے کے لیے تشدد بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ متاثرہ شخص کی حیثیت کو کم کر کے اپنی طاقت دکھانا مقصود ہوتا ہے ۔ جہاں ایک طرف غیرت کے نام پر عورتیں ونی، کالی کا نام دے کر قتل کر دی جاتی ہیں وہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مرد عورت کا نام گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عورت کی بے حیائی سے ناگہانی آفات کو جوڑا جاتا ہے اور اس کے لباس یا گھر سے باہر نکلنے کو زیادتی کا موجب قرار دیا جاتا ہے۔

بچپن سے ہی لڑکیوں پر لڑکوں کو فوقیت ملتی ہے اور لڑکیوں کو دھیما بولنے کی تاکید ، گھر سے اکیلے نکلنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور حق بات کہنے والی عورت کو آوارہ، بد چلن کے القابات سے نوازا جاتا ہے اور خاموش، گونگی (جو اپنے حق کے لیے نہ بولے ) سہمی ہوئی کو شریف۔ یہ الزامات مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی لگاتی ہیں، اس میں ان کا قصور نہیں کیونکہ انہوں نے پچپن سے خاموشی کا کلچر سیکھا ہوتا ہے۔ اسے مزید تقویت ہمارے ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈرامے دیتے ہیں۔ جن میں ہر دوسری عورت اپنی بہن یا دوست کے میاں پر ڈورے ڈال رہی ہے یا پھر عورت ہی عورت کے خلاف سازشیں کرتی نظر آتی ہے مثلاً فطرت، جلن، میں اگر چپ ہوں، کنیز وغیرہ۔

دراصل خواتین کے خلاف تشدد ایک ایسی حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے جو مرد کے زیر اثر معاشرتی نظام میں مردوں کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ خواتین کی کم تر حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے اور انہیں مرد سے آگے بڑھنے سے روکا جائے جس کے لیے سب سے بہترین حکمت عملی تشدد اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو پیچھے دھکیلنا اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کی ایک مثال سیاست میں نے والی خواتین کی کردار کشی سے لگایا جا سکتا ہے۔

تشدد کی ایک قسم کم عمری کی شادیاں بھی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران کم عمری کی شادیوں میں 21 تا 28 فیصد تک اضافہ ہوا۔ اسی طرح جبراً تبدیلی مذہب اور جبری نکاح جس میں اقلیتی عورتیں دوہری اذیت کا شکار ہوتی ہیں ، ایک جانب تو وہ اقلیت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پہلے ہی معاشرتی ترقی میں پیچھے ہیں ، اس پر ان کا اغوا، زیادتی اور تبدیلی مذہب جیسے معاملات انہیں مزید مشکلات کا شکار کر رہے ہیں۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی حالیہ رپورٹSilance of the lamb IIکے مطابق 2013 تا 2020 کے دوران جبری تبدیلی مذہب کے 162 واقعات کا جائزہ لیا گیا۔ جس میں 52 %واقعات صوبہ پنجاب، 44 %سندھ، 1.23 % وفاق اور خیبر پختون خواہ اور 0.62 %بلوچستان میں رونما ہوئے۔ متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں (جن میں سے 46.3 % کی عمریں 11 تا 15 سال کے درمیان تھیں ) کا تعلق ہندو برادری ( 54.3 %) مسیحی 44.44 %، جبکہ 0.62 %کا تعلق کیلاش اور سکھ برادری سے تھا۔

ہر واقعہ کو الگ الگ دیکھنے کی بجائے مجموعی طور پر ایک بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو دہرے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک جانب قانونی اور معاشرتی اصولوں کا فقدان اس مکروہ فعل کو روکنے یا سمجھنے میں ناکام رہتا ہے دوسرا متاثرہ شخص کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اور رپورٹ درج کرانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں سبکی سے بچا جائے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی اصل مدعا تو دسمبر میں حکومت کی جانب سے پاس ہونے والے انسداد عصمت دری کے قانون کی خبر تھی جو ایک خوش آئند اور قابل ستائش قدم ہے۔ ہم سب میں چھپنے والے سید علی ظفر کے مضمون۔ ’انسداد عصمت دری قانون‘ میں تفصیل سے اس قانون کے بارے میں لکھا گیا ہے جو خود اس کا حصہ تھے لہذا اس پربات کر نے کی میری حیثیت نہیں لیکن میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً کیا اس قانون پر عمل درآمد تب بھی ہو گا جب اس میں پولیس یا کوئی اثر و رسوخ رکھنے والا شخص ملوث پایا جائے گا؟ کیا یہ قانون غریب اور امیر کے لیے یکساں ہو گا؟

مان لیں کہ عمل درآمد ہو بھی گیا تو کیا معاشرے سے تشدد کو ختم کرنے اور خواتین کی برابر کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عزت و تکریم ملے گی؟ کیا اس آرڈننس سے جنسی زیادتی جیسے واقعات پرمجرم کو قرار واقعی سزا ملے گی یا پھر یہ کاغذوں کی حد تک ہی رہے گا؟ اس قانون میں درج ہے کہ مجرم کو نامرد بنا دیا جائے گا ، کیا ایسا مرد معاشرے کے لیے خونخوار نہیں بن جائے گا اور مزید تشدد نہیں بڑھے گا؟ تواس کے سدباب کے لیے حکومت نے کیا حکمت عملی سوچی ہے؟

صنفی تشدد ہمارے معاشرے کا ایک سنجیدہ اور توجہ طلب مسئلہ ہے جو صرف قانون بنا کر حل نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لیے ہمیں معاشرے میں برداشت، انسانی حقوق کا احترام بلاتفریق و امتیاز پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلانی ہوگی۔ جس کا آغاز سکول، کالجز اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ سوشل میڈیا ، ٹی وی اور اخبارات کا مثبت اور بامعنی استعمال کر کے لوگوں تک اس قانون بارے معلومات پہنچائی جائیں تاکہ متاثرہ شخص کو بنا شناخت کرائے انصاف مل سکے۔

امید ہے آنے والا سال عورتوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کا موجب بنے اور ہمارے معاشرے سے نفرت اور تشدد کی جگہ بھائی چارہ، انسانی احترام بلا رنگ و نسل کے امتیاز کے ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).