فیض صاحب کے ساتھ ایک سفر


سنہ 1966 کی بات ہے۔ کراچی آئے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ ملازمت کی تلاش جاری تھی۔ سندھ کے شہر نواب شاہ میں میرے بہنوئی ایم ایم فرشوری سرکاری ملازمت کے علاوہ مقامی رائٹرز گلڈ کے سیکریٹری بھی تھے اور اچھے مقامی شعرا میں شمار ہوتا تھا۔ ان کا فون آیا کہ میں فوری طور پر فیض صاحب سے رابطہ کروں اور مقررہ تاریخ پر مشاعرہ میں شرکت کے لیے نواب شاہ لے کر آؤں اس خبر نے میرے اندر کئی طرح کی لہریں دوڑا دیں اور زیادہ وقت اس میں لگا کہ پہلی ملاقات کے موقع پر اپنے آپ کو کیسے پیش کرنا ہے۔ گر لرزہ طاری ہو تو اظہار کیسے روکنا ہے۔ متاثر کرنے کے لیے رسمی جملے کیا ہوں گے اور اگر وہ کچھ دریافت کریں تو بغیر ہکلاہٹ کے جواب کیوں کر ممکن ہو۔

پھر دن بھر اس کی مشق کرتا رہا اور دوسرے دن فون کرنے کے لیے نئے کپڑے پہن لیے اور وقت مقررہ پر فون ملایا دوسری طرف سے نسوانی آواز آئی تو میں نے یاد کیے ہوئے انگریزی جملوں میں سے کہہ دیا دوسری طرف سے آواز آئی آپ اردو میں بات کر سکتے ہیں، میں ان کی وائف بول رہی ہوں۔

میرے اعصاب بحال ہونے لگے مختصر یہ کہ انہیں فیض صاحب سے ملنے کا مقصد بتایا اور دوسرے دن وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچ گیا بیگم فیض نے انتہائی سلیس اردو میں گفتگو کی مگر اس وقت تک عزت سادات جا چکی تھی۔

تھوڑی دیر بعد ہی اندازہ ہو گیا کہ فیض صاحب سے ملاقات اور گفتگو کی حسرت دل میں رہ جائے گی اور سارا پروگرام بیگم فیض کے ساتھ طے پا گیا جس کے مطابق ہمیں تین دن بعد تیزگام سے روانہ ہونا تھا لیکن یہ سفر پہلے مرحلے میں حیدرآباد پہنچ کر ختم ہونا تھا۔ جہان سابق گورنر میر رسول بخش تالپور کے گھر کھانا کھانے کے بعد بذریعہ سڑک نواب شاہ پہنچنا تھا۔ ٹرین جب حیدرآباد پہنچی تو اسٹیشن پر بڑی تعداد میں لوگ سندھی ٹوپی اور اجرک کا مخصوص لباس پہنے رسول بخش صاحب کی قیادت میں موجود تھے۔

صورتحال کو دیکھتے ہی میرا وزن خودبخود بڑھنا شروع ہو گیا مصنوعی اعتماد کے ساتھ فیض اور ایلس فیض کے ساتھ استقبال کے لیے آنے والوں کو ہاتھ ہلاتا رہا بعد اذان کاروں کے ایک جلوس میں ہم میر صاحب کے گھر پہنچے جہاں انواع اقسام کے کھانوں سے سجا دستر خوان پہلے ہی لگ چکا تھا۔ یہاں بھی میر صاحب فیض اور ایلس فیض سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے اور میرے حصے میں دو ایسے لوگ آئے جو ہر پانچ منٹ کے بعد جملہ دہراتے تھے کہ آپ کے یہاں سب خیریت ہے؟ والدین ٹھیک ہیں؟ گھر کے افراد ٹھیک ہیں؟ سب کی صحت ٹھیک ہے؟ اور جواب میں میں ہر بار دہراتا رہا کے سب ٹھیک ہے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ ہر مہمان کے ساتھ استقبالیہ جملے ہوتے ہیں اور ابھی تو انہوں نے آپ کے گھر میں پلے ہوئے جانوروں کی خیریت نہیں معلوم کی قبل اس کے کہ ٹھیک ہے۔ غلط ہے۔ میں تبدیل ہو جاتا کھانے کا دورانیہ ختم ہوا اور ہمارا قافلہ باقی ماندہ سفر یعنی نواب شاہ کے لیے ایک کشادہ اور نئی جیپ میں روانہ ہوا فیض صاحب اور ایلس عقبی نشست اور میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے۔

شہر کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے مکمل خاموشی رہی لیکن ہائی وے شروع ہوتے ہی ڈرائیور نے بتایا کہ اب دو گھنٹے کا سفر باقی ہے۔ فیض صاحب کچھ نا بولے بیگم نے کہا اس سفر میں کون سے شہر آئیں گے۔ میں نے فنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کھتیان روڈ ڈیتھا اللہ ڈینو سانڈ ٹنڈو آدم شہداد پور اور پھر نواب شاہ اس کے علاوہ چند چھوٹے شہر اور بھی ہیں۔ انہوں نے کہا بس بس کافی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب کھیت کھلیان تیار ہوتی فصلیں اور ان میں کا کرتے ہوئے کسان اور ان کے لیے کھانا لے جانے والی عورتیں سروں پر مٹکا اور ہاتھ میں کھانا اٹھائے رواں دواں تھیں دونوں مہمان ان مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور جب ویران علاقہ شروع ہوا تو میں نے اپنی قوت گویائی کو جمع کیا اور ان سے پوچھا سر آپ کو یہ مناظر اچھے لگتے ہیں۔

اس پر فیض صاحب نے کہا کیا آپ کو اچھے نہیں لگتے اس جواب نے ساری جمع کی ہوئی قوت کو پاؤں کے ذریعے باہر نکال دیا اور اگلے آدھے گھنٹے صرف بنجر زمین اور بجلی کے کھمبے دیکھتا رہا پھر آہستہ آہستہ خشک زبان کو تر کیا دوبارہ ہمت آزمائی اور اس یقین کے ساتھ کہ اب تو ضرور بولیں گے۔ میں نے کہا سر ایک شاعر ہیں جو اتنے مشہور تو نہیں لیکن شاعری بہت اچھی ہے۔ بولے سناؤ میں نے اختر سکندردی کے دو شعر پڑھے۔

زیر پا چاند ستاروں کی ردا ہو جیسے
حسن اس شان سے چلتا ہے، خدا ہو جیسے

یہ اضطراب یہ ذوق بلند پروازی
چراغ لیکے کہیں اڑ نہ جائیں پروانے

بولے شاعر کون ہے۔ میں نے کہا اختر سکندردی وہ خاموش ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ان کی معلومات شعراء کے بارے میں مجھ سے کم ہیں پھر یہ دیکھ کر کہ وہ پہلا شعر ہونٹوں میں دہرا رہے ہیں۔ اندازہ ہوا کہ انہیں پسند آیا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ مزید اچھے شعر سناؤں مگر زبان خشک ہو کر تالو سے چپک جاتی تھی اور چھڑانا مشکل ہوتا اس طرح پھر میں خاموش ہو کر بیٹھا رہا سفر کے آخری مرحلے پر تھے کہ ڈرائیور راستہ بھول گیا اور ایک پیٹرول پمپ پر رک کر پوچھنا چاہا۔ فیض صاحب چھ گھنٹے میں دوسرا جملہ بولے یہ آدمی بہت بے وقوف لگتا ہے۔

اس وقت مجھے لگا کہ ان کے دونوں جملے دو بے وقوف لوگوں کے لیے تھے۔ یعنی ڈرائیور اور میں راستہ معلوم ہونے کے بعد ہماری گاڑی ایک سجے ہوئے روشن سبزہ زار پر کھڑی تھی اور استقبال کے لیے ایک گورا چٹا خوبصورت جوان رنگیں ڈیزائن کی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس آگے بڑھا جس کو فیض صاحب غالباً پہلے سے جانتے تھے۔

رسمی جملوں کے بعد فیض صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ برخوردار ہمیں لے کر آئے ہیں۔ خوبرو جوان نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور بتایا کہ میں احمد مقصود حمیدی ہوں نواب شاہ کا ڈپٹی کمشنر۔ یہ یادگار سفر تھا جو میں نے اس صدی کے عظیم نامور اور اردو شاعری کو نیا اسلوب اور آہنگ دینے والے شاعر کے ساتھ کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی برس بعد جب میں روزنامہ مساوات میں بطور صحافی کام کر رہا تھا تو فیض صاحب کے انٹرویو کے لیے لیاری جانا ہوا جہاں وہ کالج کے پرنسپل تھے۔ دوران گفتگو میں نے اس تاریخی سفر کی یاد دلائی اور بتایا کہ آپ نے چھ گھنٹے کے سفر میں ایک جملہ میری بے وقوفی کے سوال پر بولا تھا۔ وہ آج تک میرے دل میں اعزاز کے طور پر دھڑکتا ہے۔ جملہ جو بھی ہو تھا تو فیض کا۔ انٹرویو کے اختتام پر میں نے اتنا وقت نکالنے کے لیے شکریہ ادا کیا تو بولے ”اب تم بڑے ہو گئے ہو نا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).