کیا آواز اونچی کرنے سے آپ اپنے موقف کو ثابت کر سکتے ہیں؟


جیو
'جہاں دلیل ختم ہو جاتی ہے وہاں عموماً آواز اونچی اور بد تمیزی اس لیے کی جاتی ہے تاکہ اختلاف کرنے والے شخص پر حاوی ہوا جا سکے۔ زیادہ تر یہ رویہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔'

یہ کہنا تھا سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا جب بی بی سی نے ان سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کے زیر بحث کلپ کے حوالے سے سوال کیا۔

یہ کلپ جیو چینل کے پروگرام ‘رپورٹ کارڈ’ کے پیر کی شام نشر ہونے والے پروگرام کی تھی جس میں اینکر علینہ فاروق کی جانب سے جب خاتون تجزیہ کار اور وکیل ریما عمر سے ان کی رائے پوچھی گئی تو پینل میں اختلاف رکھنے والے تجزیہ کار حسن نثار نے ان کی بات دوران انھیں بار بار ٹوکا۔ ریما عمر نے جب حسن نثار سے اختلاف کیا تو انھوں نے تلخ انداز میں اور غصے میں جواب دیا جو سوشل میڈیا کا موضوع بن گیا۔

‘میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے’

اس معاملے پر بی بی سی کی جانب سے تجزیہ کار حسن نثار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے ساتھ تھوڑا مسئلہ چل رہا ہے کہ میں اونچا سنتا ہوں اور جو اونچا سنتا ہے وہ بولتا بھی اونچا ہے۔’

ریما عمر کے ساتھ اختلاف رائے پر ان کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں ریما اپنی گفتگو میں ایسے بیان کرتی ہیں کہ اُس وقت بندہ کہتا ہے کہ یہ میری بات کو میرے ہی سامنے غلط انداز میں لے رہی ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اسی وقت ان باتوں کو درست کیا جائے۔

انھوں نے ریما عمر کے تجزیے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریما کا موقف تھا کہ پاکستان کے سیاست دانوں نے قربانیاں دی ہی جبکہ میرے خیال میں 73 سال میں ملک برباد ہو گیا ہے۔

انھوں نے مزيد کہا کہ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے۔

‘میں یہ نہیں کہتا کہ ریما جان کر اکثر اوقات چیزوں کو بگاڑ کر پیش کرتی ہیں، بلکہ ان کو سمجھ نہیں ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہیں لیکن اس ملک کے زمینی حقائق مختلف ہیں۔ یہ ایک مخصوص کلاس ہے جنھیں ان باتوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔’

تاہم انھوں نے اپنے تلخ رویے اور انداز گفتگو کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہر بندے کا بات کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے اور وہ مزاج کے مطابق بات کرتا ہے۔

‘کیونکہ کچھ چیزیں ایسی میں نے اپنی زندگی میں اس ملک میں دیکھی ہیں کہ جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مجھے غصہ آ جاتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ریما عمر نے تعلیمی اداروں میں جو پڑھا ہے وہ ہم نے بھی پڑھا ہے لیکن جو ہمارا تجربہ ہے وہ ان کا نہیں ہے۔

‘ہمیں اخلاقیات کے ساتھ اختلاف کرنے کی تربیت نہیں ہے’

جب بی بی سی نے اس نوعیت کے رویوں کے حوالے سے سوال کیا تو سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ یہ رویہ عموماً اس وقت دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں ہوتی ہے۔

‘ایسا شخص اپنی آواز بھی اونچی کرتا ہے ہے اور بد تمیزی پر بھی اتر آتا ہے۔ ویسے تو دلیل کے بغیر اختلاف رکھنے والا ہر شخص یہی کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے ہے کہ عورتوں کے ساتھ یہ رویہ زیادہ اپنایا جاتا ہے۔’

‘مردوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پہلے کی عورت ایسے رویے خآموشی سے برداشت کر لیتی تھی لیکن آج کی خواتین چپ نہیں رہتی ہیں۔ وہ اپنے شعور اور عقل کے مطابق اختلاف رائے بھی رکھتی ہیں اور یہی بات ہمیں بطور معاشرہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم عقل کُل نہیں ہیں اور ہماری رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔’

انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پاکستانی معاشرے میں نوجوان نسل اور پرانی نسل کے درمیان ‘جینریشن گیپ’ موجود ہے اور ہمارے پاس ایسی تربیت نہیں ہے کہ اخلاقیات کے ساتھ کسی سے اختلاف کیسے کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

اس کلپ کے وائرل ہو جانے کے بعد سوشل میڈیا ردعمل کے مطابق زیادہ تر صارفین کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا جا ریا ہے کہ لوگ اپنے اپ کو درست ثابت کرنے کے لیے کیوں اونچی آواز اور بدتمیزی کا سہارا لیتے ہیں۔

بیشتر صارفین کی جانب سے ریما عمر کے رویے کو سراہا گیا اور انھوں نے کہا کہ انھوں نے تمیز سے حسن نثار کے غلط رویے کی نشاندہی کی۔

صارف لئیق ہاشمی نے لکھا کہ حسن نثار کے پاس دلائل نہ ہونے کی وجہ کی وجہ سے وہ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اور میں ریما عمر کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے حسن نثار کو یہ کرنے سے روکا۔

صارف ماہین عثمان نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ حسن نثار ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح گفتگو کرنی ہے۔

دوسری جانب حسن نثار کے حق میں بات کرتے ہوئے کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ حسن نثار ایک مخصوص انداز میں بات کرتے ہیں اور انھوں نے ویسے ہی بات کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp