بنگالیوں سے اصل معافی کیسے مانگی جائے؟


آج مشرقی پاکستان کو بچھڑ کر بنگلہ دیش بنے پینتالیس سال ہوگئے ہیں۔ تاریخ کو پڑھیں تو سونار بنگلہ، بنگالی عوام کے دلوں میں کہیں پہلے وجود میں آچکا تھا، مگر ہم نے ہی اپنے ’مقبوضہ‘ علاقے کے عوام کے شعور کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔
فیض صاحب نے کہا تھا،

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

آج پینتالیس سال ہونے کو آئے ہیں اور خون کے دھبے مزید گہرے ہو چلے ہیں۔ ان پینتالیس برسوں میں کتنی ہی حکومتیں آئیں، کتنے ہی فوجی و جمہوری انقلاب آئے مگر یہ ’بے داغ سبزے کی بہار‘ آنے کا نام تک نہیں لیتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

بنگلہ عوام کے ساتھ بے داغ صبحوں کی باتیں کرنے والے آج بچے کھچے پاکستان میں بھی سویرے کی جھلک نہیں دکھا سکتے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ریاست پاکستان کے لیے غصہ اور ناراضی حیرت انگیز طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے اور اشرافیہ ہے کہ نیند سے جاگنے کا نام نہیں لیتی۔ متعدد کانفرنسوں میں میری ملاقات ایسے بہت سے دوستوں سے ہوتی رہتی ہے جن کا تعلق سندھ، بلوچستان، فاٹا، گلگت بلتستان اور سرائیکی خطے سے ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں سے گفتگو کریں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے حقوق غصب ہوئے ہیں اور وہ ریاست سے ناراض نظر آتے ہیں۔ وسائل کی ناانصافی پر مبنی تقسیم، ریاستی سرپرستی میں بڑھتی شدت پسندی، مبینہ طور پر ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ماورائے عدالت سیاسی کارکنان کا قتل، مادری زبان کی شناخت اور اپنے نمائندوں کے انتخاب کے حق سے محرومی چند اہم مسائل ہیں جن پر یہ دوست ناراض نظر آتے ہیں۔

ان چند مسائل پر غور فرمائیں اور سن 71 کے واقعات پر غور فرمائیں، آپ کو کتنے مسائل نئے نظر آئیں گے۔ جغرافیہ تبدیل ہوا ہے، اعتراض اور اختلافات کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے مگر جھگڑے وہی ہیں۔ یہ نہیں کہ یہ مسائل 71 سے پہلے موجود نہیں تھے۔ ہاں اب بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بالکل اسی رفتار سے، جس رفتار سے مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر لیجئے کہ درپیش قومی خطرات کو سمجھنے میں مقتدر قوتیں کس قدر سنجیدہ ہیں، حل کرنا تو دور کی بات ہے۔

دو سال پہلے کی بات ہے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے رکن پارلیمان ماروی میمن کی اس قرارداد پر بحث کرنے سے انکار دیا ہے جس میں پاکستان کی علاقائی زبانوں کو سرکاری طور پر قومی زبانیں تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ گلگت بلتستان کے عوام آئین میں تشخص مانگتے ہیں، ان کے سیاسی کارکنان کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ یہی حال فاٹا میں ایف سی آر کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ’گو ایف سی آر گو‘ تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے فاٹا سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے صدر شوکت عزیز کو ڈپٹی کمشنر پشاور نے گرفتار کر کے سنٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا ہے۔ گو ایف سی آر گو تحریک کیا ہے؟ محض یہی کہ عوام کو وکیل، جج اور قانونی معاونت کا حق چاہئے۔ پینتالیس برس پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کا غم منانے والے ہم وطنوں کو آج بھی یہ حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی میں سیاسی مہاجروں کی نمائندہ سیاسی جماعت سے جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ الگ باب ہے۔ شیخ مجیب کے چھے نکات کے مقابل اختر مینگل کے چھے نکات آکر بھلا بھی دیے گئے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان سے پچھلے پانچ برس میں ایک ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔

یہ وہ سحر تو نہیں کہ جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

قریب دو سال قبل لاہور لٹریچر فیسٹول کے موقعے پر دو بنگالی خواتین نے تقریب کے دوران ہنگامہ کے بعد یہ شکوہ کیا کہ نازیوں کے جرائم پر بھی معافی مانگی گئی، یہاں تو آج تک بنگالیوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر کوئی ندامت بھی نظر نہیں آتی۔ میں نے ان سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں آپ جرمنی سے نہیں ملا سکتے۔ وہاں نازیوں کو شکست ہوئی، انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، جنگی جرائم کے واقعات کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا، متاثرین کا کسی حد تک کتھارسس ہوا۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے اپنے حقوق کی لڑائی جیت لی۔ ہم جس اشرافیہ کے ہاتھوں قید تھے آج بھی وہ ہم پر مسلط ہے، کبھی براہ راست اور کبھی بلاواسطہ۔ کل کا عسکری آپریشن بھی عوامی جواب دہی سے مبرا تھا، آج بھی ایسی جواب دہی کا مطالبہ خطرے سے خالی نہیں۔ مگر مجھے خطرہ ہے کہ اگر چند سال بعد ان بنگالی خواتین کی جگہ پشتون، بلوچ یا مہاجر خواتین نے اپنے ہم وطنوں کو ایسے ہی شرم دلائی تو میرے پاس کہنے کو کیا ہوگا۔

میرے کہنے سے اگر فرق پڑتا ہے تو ایک عام پاکستانی ہونے کے ناطے سے تو میں عام بنگالیوں سے معافی مانگتا ہوں مگر یقین کیجیے، اکا دکا پاکستانیوں کے کہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، اس کے لیے ریاست کو اجتماعی معافی مانگنی ہوگی۔ مگر یہ بھی کس قدر ستم ظریفی ہوگی کہ ایک جانب مسخ لاشوں کا دھندا چالو ہو، جوان مہاجر جوانوں کو انکاؤنٹر میں ہلاک کیا جا رہا ہو، بابا جان اور شوکت عزیز جیل میں ہوں اور دوسری طرف ریاست پرانی غلطیوں پر معافی مانگ رہی ہو۔ حضرت کامیابی کی کنجی گزشتہ غلطیوں کو نہ دہرانے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments