نو ماہ میں 18 ہزار سے زائد حملے، 99 فی صد میں طالبان ملوث تھے: افغان حکام کا دعویٰ


افغانستان کے خفیہ ادارے ‘نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی’ (این ڈی ایس) کے سربراہ احمد ضیا سراج کا کہنا ہے کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران طالبان اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں نے افغانستان میں 18 ہزار 200 حملے کیے ہیں۔

افغانستان کی سینیٹ کو آگاہ کرتے ہوئے احمد ضیا سراج کا کہنا تھا کہ گزشتہ نو ماہ میں افغانستان میں ہونے والے 99 فی صد حملوں میں طالبان ملوث ہیں۔ طالبان نے کارروائیوں میں سیکیورٹی اداروں کی چوکیوں کو نشانہ بنایا، مختلف صوبوں اور شہروں میں خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی۔

این ڈی ایس کے سربراہ نے مزید کہا کہ سیکیورٹی اداروں نے اسی عرصے کے دوران 6100 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 3600 ملزمان دہشت گردی کے حملوں میں ملوث تھے جب کہ 270 افراد ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔

چین کے شہریوں کی گرفتاری کا معاملہ

خفیہ ادارے کے سربراہ نے افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں چین کے شہریوں کی گرفتاری کی تردید نہیں کی۔ البتہ احمد ضیا سراج نے کہا کہ چین کے شہریوں کی گرفتاری سے متعلق رپورٹس درست نہیں ہیں۔ اس سے متعلق تفصیلات مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔

افغان امن مذاکرات، کیا ساری رکاوٹیں دور ہو گئیں؟

واضح رہے کہ چار روز قبل بھارت کے اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ نے ایک رپورٹ دی تھی کہ افغانستان کے سیکیورٹی اداروں نے دارالحکومت کابل سے چین کے 10 شہریوں گرفتار کیا ہے۔ یہ افراد مبینہ طور پر افغانستان میں چین کا جاسوسی کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔

‘طالبان کا کاروانِ ابو عبیدہ کے نام سے نیا نیٹ ورک’

دوسری جانب سینیٹ کو افغانستان کے وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی نے آگاہ کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں امن معاہدے کے بعد طالبان نے ‘کاروانِ ابو عبیدہ’ کے نام سے ایک نیٹ ورک تشکیل دیا ہے جس کا مقصد سرکاری حکام، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ قبل ‘این ڈی ایس’ نے اس نیٹ ورک کے متعدد ارکان کو گرفتار کیا تھا جنہوں نے حملوں کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا۔

واضح رہے کہ افغانستان کی معاونت کے لیے اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں شہریوں کو انتہائی پریشان کن رفتار سے ہدف بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے مہلک حملوں کا ہدف عموماً ان افراد کو بنایا جاتا ہے جو ایک آزاد معاشرے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

افغان وزیرِ داخلہ اور خفیہ ادارے کے سربراہ کے بیانات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب بین الافغان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ پانچ جنوری سے شروع ہونے جا رہا ہے۔

نئی امریکی حکومت کی افغان پالیسی کیا ہوگی؟

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے ترجمان فریدون خوازون نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث افغان امن مذاکرات کا دوسرا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہو گا۔

دو روز قبل اتوار کو قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی جس میں بین الافغان مذاکرات کے آئندہ دور کے مقام کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔ ملاقات کے بعد افغان صدر کے دفتر نے بتایا تھا کہ اشرف غنی نے افغان حکومت کی طرف سے بات چیت کے دوسرے مرحلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

دو ہفتے قبل امریکہ کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں اور کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقاتیں کی تھیں۔ جنرل مارک ملی نے بھی افغانستان میں تشدد میں کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جنرل مارک ملی نے طالبان کے نمائندوں سے لگ بھگ دو گھنٹوں تک ملاقات کی تھی۔

امریکی حکام کہہ چکے ہیں کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت آئندہ برس 15 جنوری تک افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کی تعداد گھٹا کر 2500 تک کر دی جائے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa