”صحافت محنت طلب پیشہ ہے! “ نثار عثمانی


سنہ 1978 ء میں سرسری سماعت کی فوجی عدالت میں ایک میجر کے سامنے ان کا مقدمہ چلا۔ ان پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ”لیکن میں نے کہا کہ نہیں، میں تو ایک اخبار، مساوات، کی بحالی کا مطالبہ کر رہا تھا کہ ہمارے لوگ اپنی نوکریوں پر بحال ہو سکیں۔ ہاں ہم مارشل لاء کی مخالفت کرتے ہیں اور ہر سلجھے ہوئے پاکستانی کو یہی کرنا چاہیے۔ میں سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی سیاست میں مصروف ہے تو وہ آپ کا مربی، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، جنرل ضیاء الحق خود ہے۔ وہی ہے جو سیاسی بیانات جاری کر رہا ہے، سیاسی پارٹیوں کی حمایت تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔ سیاسی رہنماؤں سے مل کر انھیں اپنی حکومت میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میجر نے کہا کہ وہ مجھے یہ سب کہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن میں نے کہا کہ آپ کو میرا بیان ریکارڈ کرنا پڑے گا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ عدالت سے باہر نکل گئے۔ باقی کارکنان کو تو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی لیکن انھیں ایک سال کی قید بامشقت سنائی گئی۔ اب یہ سیاست تھی، آخر کو وہ میجر غلط کیونکر ہو سکتا تھا۔

ایک ایسی نسل جس نے اپنی صحافت کا آغاز ہی جمہوریت کی چھتر چھایا میں کیا ہو وہ ممکنہ طور پر یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتی کہ استبدادی مارشل لاء کے تحت کام کرنا کیا ہوتا ہے، بے روزگاری سہنا، جیل جانا یا فوجی عدالتوں سے سزائیں سننا جہاں ایک میجر، قاضی کی کرسی پر بیٹھا، ان لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتا تھا جنہوں نے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی مثالی نظریے کی پیروی کا انتخاب کیا تھا۔ نثار عثمانی اس سب کچھ کو جانتے تھے کہ وہ یہ سب دیکھ چکے تھے۔ درحقیقت وہ یہ سب کچھ جھیل چکے تھے۔

یہ لارنس روڈ پر ایک اکیلا دکیلا مکان ہے جہاں نثار عثمانی اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں۔ آپ کو ان کے گھر تک پہنچنے کے لیے ٹی ڈی سی پی بس سٹینڈ کے بھیڑ بھڑکے میں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد تو ان کا گھر مزید اونگھتا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ یقیناً اس گھر میں کوئی خاتون نہیں ہے (عثمانی صاحب کی بیوی تیرہ برس پہلے وفات پا گئیں تھیں، انھوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔)

سید سراوان، اتر پردیش کے ضلع الہ آباد میں پیدا ہونے والے عثمانی نے زندگی کے ابتدائی برس اسی جگہ پر بسر کیے۔ سترہ برس کی عمر میں، اپنے ایک ہم عمر کے ہمراہ، وہ الہ آباد سے کراچی آئے، 2500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے یہ لوگ اگست 1947 ء میں پاکستان کو وجود میں آتا ہوا دیکھنے آئے تھے۔ 14 اگست 1947 ء کے دن یہ لوگ لاہور ریلوے سٹیشن پر اور 15 اگست کو کراچی پولو گراؤنڈ میں موجود تھے، جہاں قائداعظم نے سلامی لی۔ یہ لوگ تین دن تک یہاں رکے اور اس کے بعد واپسی کی راہ اختیار کی، واپسی کے لیے یہ لوگ پنجاب سے نہیں گزرے، جو ان دنوں خون میں لت پت تھا، بلکہ بذریعہ میرپور خاص، کھوکھرا پار، اجمیر اور وہاں سے دہلی پہنچے۔

یہ بھی ان کے لڑکپن کا واقعہ ہی ہے کہ اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ انھوں نے دو میل تک ایک ٹرین کے پیچھے دوڑ لگائی کہ کسی طرح سے گاندھی جی کی ایک جھلک دیکھ پائیں۔ ٹرین جب اگلے سٹیشن پر رکی تو انھیں اجازت مل گئی کہ وہ ان کے کمپارٹمنٹ میں جھانک کر دیکھ لیں۔ ان دوستوں میں وہ واحد مسلمان تھے۔

1946 ء میں مسلم کالج کان پور کے طالب علم تھے جب مرکزی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے، انھوں نے مولانا حسرت موہانی کے لیے کام کیا۔ وہ مولانا کی شخصیت سے متاثر تھے، مولانا حسرت کی شخصیت میں ایک شاعر، ایک سیاست دان اور ایک درویش مجتمع تھا، ان کی یاد آج بھی عثمانی کے ذہن پر حاوی ہے۔ جب مولانا ایک ہاتھ میں چھتری تھامے چل رہے ہوتے تو عثمانی، حقیقتاً، میلوں تک ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے اور مولانا کو علم تک نہ ہونے دیتے کہ ایک نوجوان لڑکا ان کے پیچھے چلا آ رہا ہے۔

نومبر 1947 ء میں انھوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی، یہ ایسا واقعہ تھا جو انھیں آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ یہ لوگ بحری جہاز کے ذریعے بمبئی سے کراچی آئے۔ ان کے بھائی ریلوے میں ملازم تھے تو انھیں پہلے ملتان اور پھر بہاولنگر جانے کا پروانہ تھما دیا گیا۔ دسمبر کی کاٹ ڈالنے والی سردی میں ان لوگوں نے تین دن سمہ سٹہ ریلوے سٹیشن پر بسر کیے کہ اس زمانے میں بہاولنگر جانے والی ٹرین ہفتے میں صرف دو بار ہی چلتی تھی۔ نئے وطن پہنچنے کے ستر دن کے اندر اندر وہ اپنے خاندان کے تین لوگوں کو کھو چکے تھے، ان کے ابا، ان کی بھانجی اور ان کی ایک خالہ۔

ابا کی وفات کے بعد ان سے یہ توقع وابستہ تھی کہ، اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر، وہ اپنے خاندان کا سہارا بنیں۔ انھوں نے ایسے حالات میں بھی اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور بہاولنگر سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ ایک مڈل سکول میں استاد بھرتی ہو گئے اور بی اے کا امتحان پرائیویٹ طالب علم کے طور پر پاس کیا۔ 47 ء سے لے کر 51 ء تک انھوں نے یوم آزادی کے موقع پر پریڈ دیکھنے کے لیے کراچی کی اپنی سالانہ یاترا جاری رکھی۔ 1951 ء میں وہ ایم اے کرنے کے لیے لاہور چلے آئے اور اس شہر کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اس کے بعد کبھی اسے چھوڑ نہیں پائے۔

انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں ایم اے کیا۔ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ نجی کالجوں میں پڑھانے کا کام بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں کچھ عرصے کے لیے دیال سنگھ کالج میں جز وقتی استاد کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ 1956 ء میں انھوں نے آزمائشی عرصے کے لیے صحافت کے میدان میں چھلانگ لگائی اور یونائٹڈ پریس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی، انھوں نے یہاں دو برس تک کام کیا۔ پاکستان پریس انٹرنیشنل میں چند ماہ لگائے اور اس کے بعد 1959 ء میں ڈان میں شامل ہو گئے، وہ تادم تحریر اسی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اگرچہ 1991 ء میں بطور بیوروچیف انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی تاہم بطور نمائندہ خصوصی ان کی خدمات دوبارہ حاصل کرلی گئیں۔

کیرئیر کے آغاز سے ہی ان کا رجحان سیاسی رپورٹنگ کی جانب ہو گیا تھا۔ لاہور، متحدہ پاکستان میں بھی، سیاست کا دل تھا اور اس میدان میں کرنے کو بہت کچھ موجود تھا۔ لیکن دو برس بعد ہی ایوب خانی مارشل لاء نافذ ہو گیا اور ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگ گئی۔

سینتس برس تک صحافت کی وادیٔ پرخار میں آبلہ پائی کرنے والے نثار عثمانی کے خیال میں جہاں صحافت کے کچھ پہلوؤں میں بہتری آئی ہے وہیں کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو زوال کا شکار ہو گئے ہیں۔ ”اس میدان میں ایسے مرد و زن تھے جو بے حد ایمان دار تھے اور انھوں نے اس کی قیمت چکائی۔ انھوں نے بیروزگاری کا سامنا کیا، تنخواہوں میں بے قاعدگی تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے اسی میدان میں ہی رہنا پسند کیا۔ آج کل صحافت میں خصوصی موضوع پر تخصیص کا چلن ہے مثلاً معاشی امور وغیرہ وغیرہ۔ اخبارات عالمی مسائل، کھیل؛ وغیرہ کو زیادہ جگہ دیتے ہیں فوٹوگرافی اور صحافتی تکنیکوں میں آنے والی بہتری کی وجہ سے ان چیزوں کا معیار بہت بلند ہوا ہے۔ لیکن اب فلاں نے یہ کہا اور ایسا کہا جیسی فرسودہ باتوں پر بہت زور ہے اور اس حوالے سے ہونے والا واحد قابل قدر اضافہ یہ ہے کہ اب خواتین کی رائے کو بھی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ “

صحافتی نوکری میں پائی جانے والی بے یقینی نے انھیں مجبور کیا کہ وہ ٹریڈ یونین کے قیام میں دلچسپی لیں، اس کا سلسلہ 1966 ء میں شروع ہوا اور اس وقت سے لے کر وہ کسی نہ کسی صحافتی ٹریڈ یونین کا حصہ ضرور رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آج بھی وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر ہیں اور وہ واحد مثال ہیں کہ جو اس عہدے کے لیے تیسری بار منتخب کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کامیابی سے کئی ایسے ویج بورڈ تشکیل دیے ہیں جنھیں ایوارڈ کیا گیا۔

”مالکان کہتے ہیں کہ ان پر ادائیگیوں کا بہت بوجھ ہے خاص طور پر ایسے صحافیوں کو جو روبہ کار بھی نہیں ہیں اور یہ چیز قرین انصاف نہیں ہے۔ لیکن یہ لوگ اس بات کو بھلا دیتے ہیں کہ اخبار کی نوکری بہت محنت طلب ہے جہاں آپ کو مستقلاً گزرتے ہوئے وقت سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور یہ چیز بہت زیادہ دباؤ کی حامل ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی ملازمت کے حوالے سے چیزیں قابل اطمینان نہیں ہیں خاص طور پر کنٹریکٹ پر ملازمت تو ایک لعنت ہے۔ “

جب پوچھا گیا کہ پاکستان کی تاریخ میں صحافت کے لیے بدترین دور کون سا تھا تو نثار عثمانی کا جواب تھا کہ ایوب اور ضیاء دونوں کے مارشل لاء۔ ”ایوب کے زمانے نے ہمیں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس، نیشنل پریس ٹرسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان جیسے تحفے دیے۔ جب کہ ضیاء دور میں تیس ماہ تک سنسر شپ عائد رہا جو بالکل بلاجواز تھا کیونکہ اس وقت ملک کسی بھی طرح سے حالت جنگ میں نہیں تھا۔ تاہم چیزوں میں اس وقت بہتری نمودار ہونے لگی جب جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا، لیکن الیکٹرانک میڈیا حکومتی اختیار ہی میں رہا اور اب بھی یہ حکومت کے پاس ہی ہے۔ “

کہا جاتا ہے کہ صحافی ہمارے ملک کے کرپٹ ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ نثار عثمانی اس بات پر یقین نہیں رکھتے، تاہم وہ اس حوالے سے اپنے پیشے کا مکمل طور پر دفاع بھی نہیں کرتے۔ وہ اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ”لفافہ گروپ کا ظہور نوکری کا تحفظ نہ ہونے اور بدترین معاوضوں میں پوشیدہ ہے۔ صحافی کسی جزیرے میں تو الگ تھلگ زندگی تو بسر نہیں کرتے۔“ تاہم انھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ صحافی کو اپنے کالم کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس کے ذریعے ہزار ہا مردوزن کو گمراہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ”اس کے علاوہ مستقبل کے مؤرخ کے لیے گمراہ کن مواد بھی مہیا کرتا ہے۔“

وطن کی محبت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے عثمانی کا دل مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کرچی کرچی ہو گیا۔ وہ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ملک کے مشرقی بازو میں ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف ان لوگوں نے اتنے بھرپور طریقے سے آواز نہیں اٹھائی جتنے زور سے اٹھانی چاہیے تھی۔ ”جب خود ہمارے ہی بھائی بندوں کو مارا جا رہا تھا تو ہم نے ایمانداری سے خبر نہیں دی۔“ اگرچہ انھیں ملک میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے فسادات پر بھی تشویش ہے تاہم ان کے نزدیک سماجی سہولیات کی ضروریات کو نظر انداز کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ”غربت کے ساتھ ساتھ کم ترین شرح خواندگی اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی بہت بڑے مسائل ہیں۔ “

نثار عثمانی ساری زندگی نہایت ثابت قدمی کے ساتھ صاف ستھری صحافت پر کاربند رہے جو بجائے خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ انھیں صحافی ہونے پر فخر ہے اور اگر انھیں ایک زندگی اور دی جائے تب بھی وہ صحافی بننے کو ہی ترجیح دیں گے۔ وہ اس وقت اور جدوجہد پر اطمینان محسوس کرتے ہیں جو انھوں نے صحافت کی آزادی کے لیے خرچ کیا۔ انھوں نے آمروں کو مشکل میں ڈالے رکھا اور ہمیشہ وہیں ضرب لگائی جہاں سب سے زیادہ تکلیف پہنچ سکتی تھی، حتیٰ کہ جنرل ضیاء کو خاص طور پر یہ فرمان جاری کرنا پڑا کہ انھیں اس کی پریس کانفرنسوں میں مدعو نہ کیا جائے۔ تاہم اس انتہائی تناؤ نے ان کی زندگی سے خراج بھی وصول کیا: آج وہ دل اور شوگر جیسے امراض کا شکار ہیں، ان کی ایک آنکھ کی بینائی جا چکی ہے۔ ان کا بیٹا بھی متاثر ہوا کہ وہ اسے اتنی توجہ اور وقت نہ دے پائے جتنا اسے درکار تھا۔

وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اچھی موسیقی سنتے ہیں اور کتابیں پڑھتے ہیں۔ اب ان کا بیٹا باپ بن کر ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انھوں نے جلو کے نزدیک ایک چھوٹا سا پلاٹ خریدا ہے جہاں وہ ایک کچا گھر بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ کوئی بہت مہنگا منصوبہ نہیں اور وہ اپنے ویک اینڈ وہاں بسر کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے بچپن کی یادوں میں کھو سکیں۔

نثار عثمانی صاحب نے بتایا کہ “ان دنوں میں فرصت و فراغت کی عیاشی کا متحمل ہو سکتا ہوں کہ اب میں حقیقی معنوں میں رپورٹر نہیں رہا جو ساری زندگی رہا ہوں۔ یہ ایسا بھاگ دوڑ والا پیشہ ہے کہ آپ کو بہ مشکل ہی وقت مل پاتا ہے۔ اب چونکہ میں ایک نیم مصروف رپورٹر کی زندگی بسر کر رہا ہوں تو میرے پاس فراواں وقت ہے”۔

باغبانی اب تقریباً میری کمزوری بن چکی ہے۔ گزرے برسوں میں میرے پاس اس کے لیے وقت نہ تھا لیکن اب ایک جزوقتی باغبان کی رہنمائی اور مدد سے میں اس میدان میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ میں نے جلو سفاری پارک کے نزدیک ایک چھوٹے سے قطعہ زمین بہت سے درخت لگائے ہیں جہاں میں اپنا فرصت کا وقت گزارنا چاہتا ہوں، میں اس جگہ پر ایک چھوٹی سی کٹیا بنانا چاہتا ہوں جس کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں اپنے درختوں کو نمو پاتا دیکھنے کے لیے اکثر جلو جاتا ہوں۔ مجھے باغبانی کے فن یا سائنس کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں ہے لیکن میں اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ مجھے یہ رجحان اپنے ابا سے ملا ہے جنہوں نے اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی نرسری بنا رکھی تھی۔

اس سے ہٹ کر میں میں زیادہ وقت ہلکی پھلکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سننے میں لگاتا ہوں۔ نورجہاں جوانی سے ہی میری پسندیدہ گلوکارہ رہی ہیں۔ میں اقبال بانو، نیرہ نور، غلام علی اور مہدی حسن کی گائی غزلوں کا شائق ہوں۔ پنکج ملک اور سہگل میرے پسندیدہ گلوکار ہیں۔ موسیقی میں میری کوئی خاص ترجیح نہیں۔ اردو شاعری میرا پہلا پیار ہے خاص طور پر غالب اور فیض، اقبال کے چند حصے اور میرو مصحفی جیسے کلاسیکی شعراء کی غزلیات۔

ایک اور شے جو مجھے بھاتی ہے وہ انگریزی اردو کا ہلکا پھلکا فکشن ہے۔ مجھے سمرسمٹ ماہم اور ہارڈی پسند ہیں۔ کالج کے زمانے میں میں انگریزی فکشن سے لطف اندوز ہوتا تھا، اب میں نے اردو فکشن کے لیے رغبت پیدا کرلی ہے۔ مزاح کے میدان میں عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء مجھے پسند ہیں۔ دیوان غالب کے نصف درجن کے قریب ایڈیشن میرے پاس موجود ہیں۔ میں جالب کو پڑھ کر مزہ لیتا ہوں جو نہایت عمدہ دوست تھا اور میں اسے لکھنے پر اکساتا اور حوصلہ دیتا تھا۔

جدید شاعروں میں مجھے ناصر کاظمی، فراز، منیر نیازی پسند ہیں اور میں امجد اسلام امجد کو بھی پڑھتا ہوں۔ میں دس برس کی عمر تک ہی کلاسیکی اردو ادب کا بڑا حصہ چاٹ چکا تھا، بارہ برس کی عمر میں میں نے فارسی شعراء نظیری، عرفی، خیام اور سعدی کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اردو میں مجھے ولی، مصحفی، انشاء، میر اور غالب کے علاوہ میراثی انیس پسند ہیں۔ طویل عرصے تک فارسی میرا پسندیدہ مضمون رہا اور بی اے کے امتحانات میں یہ میرا ایک مضمون تھا۔

اب میں نے ایک نیا مشغلہ پیدا کر لیا ہے۔ چونکہ میں گھر میں اکیلا ہوتا ہوں اور میرا بیٹا زیادہ تر باہر ہوتا ہے تو کتابوں، رسائل اور اخبارات کے علاوہ ٹیلی فونی گفتگو میری بہترین دوست ہے۔ میں دن میں اپنے دوستوں سے دو دو یا تین بار بات کرتا ہوں۔ پاکستان میں ایسے دوست موجود ہیں جن کے پاس میری ہی طرح بہت سا وقت موجود ہے تو یہ کالیں کافی طویل ہوتی ہیں۔ عموماً ہماری گفتگوئیں ہلکے پھلکے موضوعات پر ہوتی ہیں۔

ان دنوں چونکہ میں فلم دیکھنے نہیں جاسکتا تو میں ٹیلی وژن پر اردو ڈرامے دیکھ کر ان سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

(انگریزی سے ترجمہ: ثقلین شوکت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).