سرینگر: فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عسکریت پسند نہیں تھے، خاندان والوں کا دعویٰ


سرینگر
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں فوج اور پولیس نے بدھ کی صبح مشترکہ طور پر دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرینگر کے نواحی علاقے عمرآباد میں ایک رہائشی مکان میں چھپے تین مبینہ عسکریت پسندوں کو طویل جھڑپ کے بعد ہلاک کر دیا گیا ہے۔

فوج یا پولیس نے مارے گئے مبینہ عسکریت پسندوں کی شناخت یا تنظیمی وابستگی ظاہر نہیں کی ہے۔

تاہم اس دعوے کے فوراً بعد جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور شوپیان اضلاع سے مارے جانے والے اعجاز احمد گنائی، اطہر مشتاق وانی اور زبیر احمد لون کے لواحقین نے سرینگر آکر جموں کشمیر پولیس کے مرکزی کنٹرول روُم کے باہر دھرنا دیا اور الزام عائد کیا کہ تینوں کو ‘اغوا’ کر کے ’فرضی جھڑپ‘ میں ہلاک کیا گیا ہے۔

جھڑپ کے فوراً بعد پولیس اور فوج کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انڈین فوج کی ‘کِلو فورس’ کے جی او سی لیفٹنٹ جنرل ایچ ایس ساہی نے دعویٰ کیا کہ منگل کی شام عمرآباد کے قریب مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں خفیہ اطلاع موصول ہوئی تو فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ ٹیم نے ایک رہائشی مکان کا محاصرہ کیا۔

جنرل ساہی نے دعویٰ کیا کہ ’تینوں سرینگر میں فوجی تنصیبات پر بڑے حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔‘

مبینہ عسکریت پسندبں کے خاندان والوں کا احتجاج

تاہم اس اعلان کے فوراً بعد پلوامہ سے اعجاز گنائی اور اطہر وانی کے اہل خانہ جبکہ شوپیان سے زبیر لون کے والدین اور دیگر لواحقین نے سرینگر میں پولیس کنٹرول رُوم کے باہر اس واقعہ کو ’فرضی جھڑپ‘ اور مارے گئے نوجوانوں کو بے قصور قرار دیا۔

پلوامہ کے پُتری گام علاقے سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد کی بہن آسیہ نے بتایا ’کل صبح اُس نے گھر میں چائے پی، پھر یونیورسٹی میں داخلے کا فارم لینے سرینگر کے لیے روانہ ہوا۔ دن میں تین بجے بھی میری بات ہوئی بھائی سے، لیکن چند گھنٹوں بعد اُس کا فون بند تھا۔ یہ فرضی جھڑپ ہے، ہمیں انصاف چاہیے۔‘

سرینگر

مظاہرے میں اعجاز کے دادا بھی تھے، اُنھوں نے میڈیا کے سامنے اپنے کپڑے تار تار کردیے اور یہ کہتے ہوئے کہ ’میرا سہارا ختم ہوگیا‘، وہ بے ہوش ہوگئے۔ قابل ذکر ہے کہ اعجاز کے والد مقبول گنائی جموں کشمیر پولیس میں وابستہ کانسٹیبل ہیں۔

پلوامہ کے ہی بیلو گاوٴں کے رہنے والے اطہر مشتاق گیارہویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اُن کے چچیرے بھائیوں اور بہنوں نے بتایا کہ ’وہ ٹیوشن کے لیے سرینگر میں ہاسٹل ڈھونڈنے گیا تھا۔ منگل کی صبح گھر میں چائے پی اور دوپہر کو نکل پڑا۔‘

شوپیان کے ٹُکرو تروانکنگام کے رہنے والے زبیر لون کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ مزدوری کرتے تھے۔

یہ سبھی لواحقین نہ صرف اس تصادم کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ لاشوں کی بازیابی کے لیے سرینگر آئے تھے۔

عسکریت پسندوں کی لاشیں

قابل ذکر ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے مسلح جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی لاشیں لواحقین کے سپرد نہیں کی جاتیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی کورونا وائرس کی وبا کو دیکھتے ہوئے نافذ کی گئی ہے۔

تاہم نئی دلی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ‘دا ہندو’ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ جب سے یہ پالیسی نافذ ہے تب سب ‘شدت پسندی گلیمرائز نہیں ہو پائی’۔

سرینگر

ماضی کی ’فرضی جھڑپ‘

واضح رہے رواں سال جولائی میں شوپیان میں ایک مسلح جھڑپ میں راجوری کے رہنے والے 25 سالہ ابرار احمد، 20 سالہ امتیاز احمد اور 16 سالہ محمد اِبرار نامی تین نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں مسلح عسکریت پسند تھے اور جھڑپ میں مارے گئے۔

تاہم لواحقین کی طرف سے احتجاج کے بعد فوج نے اس معاملے کی تحقیات کی جسکے بعد یہ انکشاف ہوا کہ تینوں کو فرضی جھڑپ میں ‘ترقی اور اعزازات’ کی لالچ میں فوج کے ساتھ وابستہ ایک فوجی افسر نے بعض مقامی نوجوانوں کی مدد سے عسکریت پسند قرار دیا تھا۔ فوجی تحقیقات کے مطابق فوجی کیپٹین کو مقامی نوجوانوں نے ہی گمراہ کیا تھا۔ تاہم اس معاملے میں فوج نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ایک فرضی جھڑپ تھی۔

سرینگر

رواں سال جنوری سے دسمبر کے آخر تک کشمیر میں تشدد کی مختلف کارروائیوں میں 200 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں جن میں 180 عسکریت پسند تھے۔ پولیس کے مطابق 9 عسکریت پسندوں کو 'زندہ' گرفتار کیا گیا ہے۔

دریں اثنا اس سال کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں بدھ کو ہوئی جھڑپ سمیت تصادم کے دس تصادم اواقعات پیش آئے جن میں 22 عسکریت پسند مارے گئے۔

تاہم بدھ کو ہونے والی مبینہ مسلح جھڑپ میں ہوئی ہلاکتیں لواحقین کے احتجاج کے بعد اب متنازعہ بن گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp