کورونا وائرس کی دوسری لہر: ایبٹ آباد میں کورونا وائرس تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟


ایبٹ آباد
’چند ہفتے قبل جب میرا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تو میرے ساتھ میری اہلیہ بھی کورونا کا شکار ہو گئیں۔ ہمیں کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ مگر اب میرے والد کورونا آئی سی یو وارڈ میں داخل ہیں۔ میری والدہ کو بھی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں۔‘

یہ کہنا تھا صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں استاد کی خدمات انجام دینے والے محمد افضل خان کا۔ ان کی اہلیہ بھی ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہیں۔

’ہم دونوں کے بارے میں ڈاکٹروں کی واضح رائے ہے کہ ہم سکول سے کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ کئی استاد اور پھر ان کے گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ بہت احتیاط کرتے تھے، ہر وقت ماسک استعمال کرتے تھے، گھر کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ مگر ہم میاں بیوی اور تین بچے اپنے والدین کے ساتھ چار کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ اس صورتحال میں یہ عین ممکن ہے کہ وائرس ہم دونوں ہی سے ہمارے والدین کو منتقل ہوا ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

روس، امریکہ، چین، برطانیہ میں سے پاکستان کس ویکسین کو ترجیح دے گا؟

کیا پاکستان کو بر وقت کووڈ ویکسین مل سکے گی؟

برطانیہ ’کورونا ویکسین کی فراہمی کے لیے تیار‘، پاکستان کے نئی ویکسین پر تحفظات

یہ کہانی تو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک خاندان کی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ شہر پاکستان میں 40ویں نمبر پر آتا ہے۔

نجی سکولوں کی تنظیم کے رہنما فاریض احمد سواتی کے مطابق ایبٹ آباد کی معیشت کا پچاس فیصد دارومدار تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے۔

مگر کورونا سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق سیاحت سے بھی ہے۔ سیاحت کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق ایبٹ آباد کی معشیت کا 30 فیصد دارومدار سیاحت پر ہے۔

سوزوکی

سردار افضل اور ان کے بھائی سردار حبیب گلیات کے سیاحتی مقامات نتھیا گلی اور ڈونگا گلی کے دو مختلف ہوٹلوں میں ویٹر کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ بھی سیاحت سے وابستہ ہیں۔

سردار افضل کا کہنا تھا کہ ہم دونوں بھائی اور ہمارے قریبی رشتہ دار کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں اور کچھ تو ہلاک بھی ہو چکے ہیں اور ہمارے بہت سے جاننے والے جو کہ ہوٹلوں میں خدمات انجام دیتے ہیں وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

ایبٹ آباد سیاحت، تعلیمی اداروں، امن و امان کی بہتر صورتحال اور گلگت بلتستان و پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔

کورونا کی دوسری لہر کے دوران دسمبر کے مہینے میں تین مرتبہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اسلام آباد نے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ ایبٹ آباد کورونا کے پازیٹو کیسز کے حوالے سے ملک بھر میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے 28 دسمبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 15.95 فیصد پازیٹو کسیز کے ساتھ ایبٹ آباد پہلے جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی 14.81 فیصد کے ساتھ دوسرے اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد 14.47 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا تھا۔

ایبٹ آباد

اس سے چند دن قبل نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر نے ایبٹ آباد میں 40 فیصد اور 17 فیصد پازیٹو شرح کی بھی نشان دہی کی تھی۔

ایبٹ آباد کی صورتحال پر طبی ماہرین کی رائے

ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر احسن اورنگ کے مطابق ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد میں دس ماہ کے دوران 37261 ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ جس میں سے اب تک 4526 پازیٹو ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 28 دسمبر تک ایبٹ آباد میں کل مریضوں کی تعداد 11392 ہے۔ جس میں کئی مریض ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے علاوہ بھی دستیاب ٹیسٹنگ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 208,491 آبادی والے ضلع میں جس رفتار سے مریض پازیٹو ہوئے ہیں۔ اس سے تمام طبی عملے میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے خاص طور پر دوسری لہر کے دوران مریضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ایبٹ آباد کے دو بڑے ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ نجی حیثیت میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق ایبٹ آباد میں اگر ریکارڈ شدہ صورتحال تشویشناک سمجھی جا رہی ہے تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ مریضوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے جو ٹیسٹ کروانے کی تکلیف بھی نہیں کرتے بلکہ خفیہ رہ کر گھروں ہی میں علاج کرواتے ہیں۔ کچھ تو علاج اور احتیاط کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

ہسپتال

ڈاکٹر جنید سرور ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایمرجنسی سروسز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے شہریوں کی بڑی تعداد اس کو ابھی بھی سنجیدہ نہیں لے رہی ہے۔ ہسپتال آنے والے مریضوں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد جن کو اگر ہم بتائیں کہ مریض میں کورونا کی علامات ہیں تو وہ فوراً اپنے مریض کو لے کر ہسپتال سے غائب ہو جاتے ہیں۔

’میں ضلع ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں میں کلینک کرتا ہوں۔ وہاں پر میرے پاس اوسطاً پچاس مریض آتے ہیں۔ جن میں سات، آٹھ میں واضح علامات ہوتی ہیں۔ مگر ان میں صرف ایک آدھ ہی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ باقی ہم سے راز رکھنے کی گزارش کے ساتھ بغیر ٹیسٹ ہی کے گھروں ہی میں علاج کروانے کی درخواست کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میرے علم میں ہے کہ کورونا سے جڑی جھوٹی کہانیوں اور خوف کی بنا پر کئی مریض گھروں ہی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے لواحقین اپنے مریضوں کے مرض کو خوف اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر چھپاتے ہیں۔

ایبٹ آباد

سکول و کالج کے طالب علم کورونا پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ

ڈاکٹر احسن اورنگزیب نے ایبٹ آباد کے انتہائی متاثر ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ آباد کے مشہور زمانہ تعلیمی اداروں میں ملک بھر سے طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان طالب علموں کی بڑی اکثریت سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں یا نجی ہاسٹلوں میں رہائش رکھتی ہے۔

یہ طالب علم اور پھر ان کے والدین، قریبی عزیز و اقارب بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے ایبٹ آباد کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی بڑی تعداد ممکنہ طور پر اپنے ہمراہ وائرس لے کر پہنچتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا ہو گا۔ مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ جب کسی ایک مقام پر زیادہ تعداد میں بچے اکھٹے ہوتے ہیں تو ان سے ایس او پیز پر عمل درآمد کروانا اگر ناممکن نہیں تو تھوڑا مشکل ضرور ہے۔

ڈاکٹر احسن اورنگزیب کے مطابق شاید کلاس رومز میں تو فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے مگر یہ بچے صبح مختلف گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کے ذریعے سے سکول وکالج آتے جاتے ہیں۔ وہاں پر کس طرح ایس او پیز کا خیال رکھا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر جنید سرور کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسے کیسز تو سامنے نہیں آئے کہ جن میں بچے متاثر ہوئے ہوں یا ان میں علامات ظاہر ہوئی ہوں مگر بچے وائرس کی متنقلی کا باعث ضرور بنتے ہیں۔ میرے پاس کئی ایسے کیس آئے ہیں جو انتہائی احتیاط کرتے تھے۔ ان کے گھروں میں وائرس پہنچنے کی واحد وجہ صرف ان کے بچے ہی ہو سکتے تھے۔

ایبٹ آباد کے محکمہ تعلیم کے مطابق ایبٹ آباد میں نجی اور سرکاری سطح پر قائم تعلیمی اداروں کی تعداد آبادی اور حجم کے لحاظ سے پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہیں۔

ان کی تعداد تقریباً 1500 ہو سکتی ہے۔ جس میں یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج، پروفیشنل ادارے اور ہائی سیکنڈریز شامل ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار کے قریب دوسرے شہروں سے آنے والے طالب علموں کے لیے ہاسٹل کی سہولت رکھتے ہیں۔

ایبٹ آباد

سیاحت سے وابستہ افراد بھی متاثر

ڈاکٹر جنید سرور کے مطابق کورونا کی دوسری لہر کے دوران سیاحت کی صنعت سے جڑا ہوا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ ہمارے پاس ہسپتال اور پھر کلینک میں آنے والے کورونا سے متاثرہ مریضوں میں سے 30 فیصد کا کوئی نہ کوئی تعلق سیاحت سے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا جب لاک ڈاون کے بعد سیاحت پر سے پابندی اٹھائی گئی تھی تو اس وقت تو ریکارڈ تعداد میں سیاح آئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے بلکہ چند دن قبل ہونے والی برفباری کا نظارہ کرنے لوگوں کی بڑی تعداد آئی تھی۔ جس کے سبب مری روڈ پر ٹریفک بلاک ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر اور پر فضا مقامات کی موجودگی کےباعث لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اب تو اس کو سب سے زیادہ کورونا پازیٹو کیسز والا شہر قرار دیا گیا ہے مگر اس کو پاکستان کا سب سے مہنگا شہر بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

اس شہر میں تقریباً پاکستان کے ہر بڑے اور امیر آدمی نے اپنے لیئے گھر بنا رکھا ہے۔ جب وبا پھیلی تو ان لوگوں کی بڑی تعداد نے بڑے شہروں سے آ کر ایبٹ آباد کے پرسکون علاقوں میں موجود اپنے گھروں میں رہائش اختیار کر لی تھی۔

ڈاکٹر جنید سرور کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد جہاں پر بذات خود ایک سیاحتی مقام ہے۔ وہاں پر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایبٹ آباد

ان علاقوں میں سفر کرنے والوں کی ایک بڑے تعداد ایک رات یا کچھ دیر کے لیے ایبٹ آباد میں قیام کرتی ہے۔ یہ لوگ مختلف بڑے شہروں سے آ رہے ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ یہاں سفر کرنے والے لوگ بھی ہیں۔

شہریوں کی بے احتیاطی

ڈاکٹر احسن اورنگ کا کہنا تھا کہ کبھی ایبٹ آباد شہر میں دسمبر کی شامیں سنسان ہوا کرتی تھیں۔ مگر اب تو انتہائی سردی کے باوجود رات گئے تک پلازے، دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ جہاں پر بہت کم لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہوتے ہیں۔

ایبٹ آباد کے بازاروں میں گھومیں تو صرف انگلیوں پر گنے جانے والے لوگوں نے ماسک کا استعمال کیا ہو گا ورنہ کوئی پراوہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر جنید سرور کے مطابق ایبٹ آباد کے مختلف علاقوں میں چلنے والی سوزوکی سروس بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔

‘اس سوزوکی سروس میں انتہائی کم جگہ میں کم سے کم دس لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھتے ہیں اور یہ انتہائی آسانی سے ایک دوسرے میں وائرس منتقل کر دیتے ہیں۔’

ڈاکٹر احسن اورنگ کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے مشاہدے کے مطابق ایبٹ آباد میں کورونا سے زیادہ متاثر غریب طبقے ہیں۔ جن میں ڈرائیور، سکولوں اور کالجوں میں چوکیداری کے فرائض انجام دینے والا سٹاف، ہوٹلوں میں کام کرنے والے، تاجر طبقہ جس میں ریڑھیاں لگانے والوں کی تعداد زیادہ سامنے آئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘سردی بھی کورونا کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ مقامی آبادیاں غریب لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ایک ایک کمرے میں تین، چار لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔

‘اب اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کسی بھی مقام سے متاثر ہوکر آتا ہے تو بہت آسانی سے وہ دوسرے کو متاثر کردیتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp