بھنگ کا تیل: ’مرگی کا شکار اپنی بیٹی کو زندہ رکھنے کے لیے مجھے ہزاروں پاؤنڈ خرچ کرنے پڑے‘


انگلینڈ میں سنہ 2018 میں کچھ مریضوں کے لیے بھنگ کے میڈیکل فوائد کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے استعمال کے حوالے سے قوانین کو تبدیل کیا گیا تھا۔ بی بی سی نیوز نے شدید مرگی کا شکار تین بچوں کے اہل خانہ سے اس مشکل صورتحال کے بارے میں بات کی جس کا انھیں علاج کروانے کے لیے سامنا کرنا پڑا ہے۔

Short presentational grey line

ہمیں لگا کہ ہمیں قانون توڑنا پڑے گا

ٹینائن مونٹگمری کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو زندہ رکھنے کے لیے قانون توڑا اور 34 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔

کلیئر اِن سفوک سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ انڈی روز شدید مرگی کا شکار ہیں اور ایک ماہ میں انھیں بھنگ کے تیل کے بغیر 50 دورے پڑ سکتے ہیں۔

اس کے استعمال کو دو سال قبل قانونی شکل دی گئی تھی، اس لیے ابھی تک این ایچ ایس کی جانب سے چند نسخے ہی جاری کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قدیم زمانے کے لوگوں کی بھنگ سے آگاہی

اکھڑ مزاج بچے کو ڈاکٹر نے بھنگ تجویز کر دی

قدیم دور میں بنی اسرائیل بھنگ جلا کر عبادت کرتے تھے

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی

صحت اور سماجی نگہداشت کے محکمے کا کہنا ہے کہ اس کے باقاعدگی سے تجویز کیے جانے سے پہلے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مونٹگمری کا کہنا ہے کہ جب سے انھوں نے تین سال قبل میڈیکل بھنگ کا استعمال شروع کیا، تب سے ان کی بیٹی کی زندگی بدل گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’مستقل مرگی کے دوروں سے نمٹنے اور ہسپتال میں وقت گزارنے کے بجائے اب وہ ہر وقت خوش رہتی ہے اور سکول جاتی ہے۔‘

Indie-Rose and her parents Anthony and Tannine

مونٹگمری کا کہنا ہے کہ: ’ہم نے کبھی قانون کو توڑنا نہیں چاہا۔ ہمیں لگا کہ ہمیں انڈی روز کو زندہ رکھنا ہے، لیکن اس وقت تو ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں ہے‘

خصوصی لائسنس کے بغیر بھنگ کا تیل درآمد کرنا غیر قانونی ہے۔

مونٹگمری کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے برطانیہ سے ہالینڈ کا سفر کیا اور برطانوی ڈاکٹروں کے پرائیوٹ طور پر حاصل کردہ نسخے کا استعمال کرتے ہوئے ڈچ ڈاکٹر سے اسے خریدا کیونکہ این ایچ ایس نے اس کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔

اس پر انھیں ایک مہینے میں 1500 پاؤنڈ تک کی لاگت آرہی تھی اور اگر وہ لائسنس حاصل کرتے تو یہ رقم تین گنا ہوجاتی۔ ان کی درآمد کردہ دوائی کو گذشتہ سال ہوائی اڈے پر ضبط بھی کر لیا گیا تھا۔

کووڈ 19 کی پابندیوں کے باعث ان کا خاندان ہالینڈ کا سفر کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اب ان کے پاس تیل ختم ہوچکا ہے اور ان کی بیٹی کو دوبارہ شدید دورے پڑنے شروع ہو چکے ہیں۔

انھیں یہ بھی تشویش ہے کہ بریگزیٹ کے بعد اس تیل کو حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔


میڈیکل بھنگ کیا ہے؟

  • میڈیکل بھنگ ایک وسیع اصطلاح ہے جو ڈاکٹر علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں – جیسے گولیاں، تیل اور سپرے – جس میں بھنگ کے تفریحی استعمال سے ملتے جلتے اجزا ہوتے ہیں، لیکن یہ آپ پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
  • یہ مصنوعات ادویات ساز کمپنیوں کی جانب سے دیگر دوائیوں جیسے سخت کنٹرول میں بنائی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس اسے خریدنے کے لیے نسخہ موجود ہونا چاہیے
  • بھنگ پر مبنی کچھ دوائیں – جیسے کہ مرگی کے لیے ایپیڈولیکس کو این ایچ ایس کی جانب سے استعمال کے لیے منظور کیا گیا ہے
  • ایسی دوسری مصنوعات جو میڈیکل بھنگ ہونے کا دعوی کرسکتی ہیں، جیسے ’سی بی ڈی آئل‘ یا بھنگ کا تیل، قانونی طور پر ہیلتھ سٹورز سے فوڈ سپلیمنٹس کے طور پر خریدنے کے لیے دستیاب ہیں
  • اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ اچھے معیار کی ہیں یا صحت سے متعلق کوئی فوائد فراہم کرتی ہیں اور نئی دوا لینے سے پہلے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جانا چاہیے

مونٹگمری کا کہنا ہے کہ: ’ہم نے کبھی قانون کو توڑنا نہیں چاہا۔ ہمیں لگا کہ ہمیں انڈی روز کو زندہ رکھنا ہے، لیکن اس وقت تو ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں ہے۔‘

’میں سو نہیں پا رہی ہوں اور سخت پریشانی کا شکار ہوں۔‘

Short presentational grey line

’معیارِ زندگی واقعتاً بہتر ہوا ہے

جب میڈیکل بھنگ کو قانونی حیثیت دی گئی تھی، تو نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (نیس) نے این ایچ ایس کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شدید مرگی کے لیے بھنگ پر مبنی دوائیں تجویز کرنے کے لیے ثبوت کافی نہیں ہیں۔

نیس کے جانب سے ایپیڈویلیکس کی سفارش کی گئی ہے، لیکن بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ اس دوا سے ان کے بچوں کو مدد نہیں ملی۔

نورویچ سے تعلق رکھنے والی تین سالہ چارلی ہیوز کے والدین نیس کی جاری کردہ ہدایات کے خلاف پہلا قانونی چیلنج لا رہے ہیں۔

ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ چارلی کو ایک دن میں 120 سے زیادہ دورے پڑتے تھے جو بیڈروالائٹ لینے کے بعد کم ہو کر 20 رہ گئے، اور وہ اب زیادہ باتیں کرتا ہے، اپنے کھلونوں میں دلچسپی لیتا ہے اور خود کھانا کھانے لگا ہے۔

لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ نیس کے ہدایت نامے کی وجہ سے یہ تجویز نہیں کرسکتے ہیں۔

چارلی کا خاندان اب بیڈرولائٹ خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جس پر انھیں ماہانہ تین ہزار پاؤنڈ تک لاگت آ رہی تھی، لہذا وہ اسرائیل سے درآمد شدہ سیلیکسیر 20 نامی ایک سستے ورژن کو استعمال کرنے لگے، جس کی قیمت 600 پاؤنڈ فی مہینہ ہے۔

انھیں این ایچ ایس کی جانب سے ایپیڈولیکس کی پیش کش کی گئی تھی، لیکن دوسرے خاندانوں سے بات کرنے کے بعد وہ چارلی کو یہ دوا دینے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔

ان کے والد میٹ ہیوز کہتے ہیں ’گذشتہ ہفتے انھوں نے اپنی پہلی تصویر پینٹ کی، وہ بہتر حالت میں ہیں اور ان کے معیار زندگی میں واقعی بہتری آئی ہے۔ یہ بہت غیر منصفانہ ہے کہ مالی طور پر اس کا بوجھ ہم پر پڑ رہا ہے۔‘

Short presentational grey line

’الفئی کو مہینوں تک کوئی دورہ نہیں پڑا‘

الفئی ڈنگلے نے، جو مرگی کی ایک شدید اور نایاب حالت کا شکار ہیں، طبی بھنگ کو قانونی حیثیت دینے میں مدد کی۔

جون 2018 میں، کینیل ورتھ سے تعلق رکھنے والا یہ نو سالہ بچہ برطانیہ میں وہ پہلا مریض تھا جسے بیڈروالائٹ کے لیے لائسنس دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد صرف دو دیگر افراد کو اس کی منظوری ملی ہے۔

ان کی والدہ ہننا ڈیکن نے ایک مہم چلائی تھی، ان کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس کے نسخے نے ان کی زندگیاں بدل دیں۔

وہ کہتی ہیں: ’الفئ کو مہینوں تک کوئی دورا نہیں پڑتا۔۔۔ یہ کوئی علاج نہیں ہے، لیکن ہمیں ہر ہفتے جان لیوا ہنگامی صورتحال کا سامنا نہیں ہوتا۔

’وہ اس سے پہلے متشدد اور جارحانہ تھا اور اس کا کوئی معیار زندگی ہی نہیں تھا۔‘

’یہ دوا ہر ایک کو دستیاب ہونی چاہیے۔ اس سے مرگی کے شدید مریضوں کے ہسپتال میں وقت کو کم کیا جا سکتا ہے جس سے این ایچ ایس کو ہر سال لاکھوں پاؤنڈ کی بچت ہو گی۔‘

ڈیکن کا کہنا ہے کہ میڈیکل بھنگ کے خلاف ’خوف کی مہم‘ چلائی جارہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر اسے تجویز کرنے سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔

’ہم بہت خوش قسمت ہیں، لیکن ہم اس خوفناک صورتحال میں دوسرے کنبوں کے لیے بہت برا محسوس کرتے ہیں۔‘

’یہ سوچنا ہی بہت تکلیف دہ ہے کہ انھیں اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے کس حد تک جانا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے اس صورتحال میں دوسرے خاندانوں کی مدد کے لیے میٹ ہیوز کے ساتھ میڈکین سپورٹ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے۔

Short presentational grey line

محکمہ صحت نے کیا کہا ہے؟

ایک ترجمان نے کہا کہ ایپیڈولیکس کو این ایچ ایس کی جانب سے تجویز کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی ’حفاظت، طبی طور پر مؤثر ہونے اور مناسب قیمت‘ کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

انھوں نے ’مشکل حالات سے نمٹنے والے مریضوں‘ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ این ایچ ایس کی جانب سے دوسرے علاج تجویز کرنے اور فنڈز فراہم کرنے کے لیے ’مزید ثبوتوں‘ کی ضرورت ہے، ہم مزید تحقیق کی حمایت کرتے ہیں اور اس چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ان دواؤں کے اخراجات کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp