خواجہ آصف کی گرفتاری: کیا ’آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ کا قانون سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟


خواجہ آصف
نیب کا کہنا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے متعلق خواجہ آصف کی طرف سے دی جانی والی وضاحت غلط اور قابلِ قبول نہیں تھی
پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب نے منگل کو حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی اور سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو گرفتار کیا تھا۔

نیب کی طرف سے جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات اور ان کی وجہ سے مبینہ کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔

نیب کے مطابق سنہ 1991 میں سرکاری عہدہ حاصل کرنے کے بعد سے خواجہ آصف کے اثاثہ جات پانچ ملین روپے سے بڑھ کر سنہ 2018 تک 221 ملین روپے ہو چکے تھے۔ نیب کا کہنا ہے کہ ‘خواجہ آصف یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ان کی اثاثہ جات ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں۔’

نیب کے بیان کے مطابق خواجہ آصف کی طرف سے دی جانی والی یہ وضاحت مبینہ طور پر غلط تھی اور قابلِ قبول نہیں تھی کہ اس میں 130 ملین روپے انھیں اس نوکری سے تنخواہ کی مد میں ملے جو وہ متحدہ عرب امارات میں ایک کمپنی کے ساتھ کرتے رہے تھے۔

نیب کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث تھے۔

یہ بھی پڑھیے

مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف کون ہیں؟

خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم

اپوزیشن کا حکومت مخالف اتحاد کتنا مضبوط اور دیرپا ہوگا؟

تاہم خواجہ آصف وہ پہلے سیاستدان یا سرکاری عہدیدار نہیں ہیں جو نیب کے قانون ’آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ کی بنا پر کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہوئے ہوں۔

حال ہی میں ان ہی کی جماعت کے کئی دیگر رہنما ان ہی الزامات میں گرفتار ہوئے۔ ان میں سے کچھ کے خلاف احتساب عدالتوں میں ریفرنس دائر کیے گئے تاہم بہت سے مقدمات تاحال ریفرنس تک بھی نہیں پہنچ پائے۔

ایسے سیاستدانوں کے خلاف نیب اب تک آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزامات نہ تو عدالت میں ثابت کر پایا اور نہ ہی مبینہ کرپشن سے کمائی جانے والی رقم برآمد کر کے سرکاری خزانے میں ڈالی جا سکی۔

نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس کے مطابق ’سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں دی جانے والی سزا کے علاوہ کسی سرکاری عہدیدار یا سیاستدان کو تاحال اس قانون کے تحت سزا نہیں ہو پائی۔‘’

سیاسی جماعتوں کی طرف سے نیب کو اس قانون کے حوالے سے ’حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف جانبدارانہ کارروائی کے لیے استعمال کیے جانے’ یا پھر ‘غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیے جانے‘ کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ تاہم ادارہ ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

تو کیا واقعی ’آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ کا قانون اتنا مبہم ہے کہ اسے نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین یا غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

کیا نیب اس کی طرف سے دی جانے والی وضاحت کی چھان بین کر کے یہ پتہ چلاتا ہے کہ وہ رقم کہاں سے آئی اور کس نوعیت کی کرپشن کی گئی؟

اگر ایسا نہیں تو کسی سرکاری عہدیدار کے پاس ایسی رقم کی موجودگی پر یہ مان لینا درست ہو گا کہ وہ رقم اس نے لازماً کرپشن سے حاصل کی ہے؟ اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟

الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا کتنا آسان یا مشکل ہوتا ہے اور ثابت کرنے سے پہلے ملزم کو گرفتار کیوں کر لیا جاتا ہے؟ ان کے جوابات جاننے سے پہلے ’آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ کے قانون پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

آمدن سے زائد اثاثہ جات کیا ہوتے ہیں؟

سابق پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس کے مطابق اس قانون کی گرفت میں کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے والا شخص، اس کے بچے اور اس کے بے نامی اکاؤنٹ آتے ہیں۔

‘سادہ الفاظ میں قانون یہ ہے کہ اگر ایسے کسی عہدیدار کے اثاثہ جات اس کی آمدن سے زیادہ ہیں جس کے ذرائع معلوم نہیں تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ اس نے یہ رقم کرپشن سے حاصل کی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اپنے ذرائع آمدن کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر عائد ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کے اثاثہ جات ایک کروڑ روپے کے ہیں جبکہ اس کی آمدن کے ذرائع سے ملنے والی رقم 60 لاکھ ہے تو باقی کے 40 لاکھ کن ذرائع سے آئے اسے ان کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہ وضاحت نہیں دے سکتا تو قانون کے مطابق یہ مان لیا جائے گا کہ اس نے یہ رقم کرپشن سے کمائی ہے۔

’قانون میں موزوں وضاحت کا کہا گیا ہے‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ نیب کے قانون میں ذرائع آمدن کی وضاحت کے ساتھ ایک لفظ ڈالا گیا یعنی ’ریزن ایبل‘ یا موزوں وضاحت۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے اثاثے ایک کروڑ روپے ہیں لیکن ان میں سے 30 لاکھ روپے کے ذرائع معلوم نہیں ہیں اور ملزم وضاحت میں تقریباً 28 سے 29 لاکھ کی وضاحت دے دیتا ہے تو اسے موزوں تصور کیا جائے گا۔

’اگر یہ لفظ نہ ہو تو اگر وہ دس روپے کی وضاحت نہیں دے پایا تو اسے وہی سزا ملے گی جو زیادہ سے زیادہ 14 برس قید اور 10 سال کے لیے سرکاری عہدے سے نا اہلی ہے۔‘

اگر ملزم کوئی بھی وضاحت دے دے، مان لی جائے گی؟

یہاں سوال ییدا ہوتا ہے کہ کیا نیب ملزم کی طرف سے دی جانے والی وضاحت کی چھان بین کرتا ہے؟ خواجہ آصف کے مقدمے میں نیب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ سابق وزیرِ دفاع کی جانب سے دی جانے والی متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں نوکری والی وضاحت مبینہ طور پر غلط تھی۔

نیب لوگو

’پاکستان میں سیاسی سرکاری عہدیداروں کے خلاف مقدمات میں سزائیں نہ ہونے کی وجہ نیب کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی ناقص کارکردگی ہے‘

نیب کے مطابق ’جس دور میں وہ وہاں ملازمت ظاہر کر رہے ہیں ان دنوں میں وہ پاکستان میں موجود تھے۔‘ نیب نے مزید الزام عائد کیا کہ خواجہ آصف نے یہ نوکری محض منی لانڈرنگ کے لیے ظاہر کی تھی۔

پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کے مطابق نیب کو عدالت میں اس کی وضاحت کرنا ہو گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ نیب کے قانون میں بارِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس میں یہ نکتہ ڈال دیا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت مبینہ طور پر غلط ہے اور پھر عدالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اس پر فیصلہ کرے۔

’عدالت میں اس نکتے پر دونوں اطراف کے وکیل جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں اور مقدمہ التوا میں چلا جاتا ہے۔‘

تو کیا ایسی صورت میں ملزم کو گرفتار کرنا درست ہے؟

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں ملزم کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے جب تک اس پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا لیکن نیب اسے پہلے ہی گرفتار کر لیتا ہے۔

’اس سے نیب کی طرف سے سیاسی جوڑ توڑ کا تاثر قائم ہوتا ہے اور اب تو پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے بھی نیب کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ کا لفظ استعمال کیا ہے۔‘

عرفان قادر کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت میں اس قانون کو ختم ہونا چاہیے اور اس کے تحت درج مقدمات بھی ختم ہونے چاہییں کیونکہ اس میں نہ تو کوئی زیادہ برآمدگیاں ہوئی ہیں اور اس قدر ابہام موجود ہیں کہ اس سے بے گناہ کو سزا مل سکتی ہے۔

’انھوں نے ایک عورت کو سزا دے دی۔۔۔اسے تو تحفہ ملا تھا‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس قانون کے تحت کئی بے گناہ لوگوں کو بھی سزائیں دی گئی ہیں۔ ایک مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایک خاتون کو نیب نے گرفتار کر لیا تھا جبکہ انھیں ملنے والا اثاثہ ان کے شوہر کی جانب سے تحفے میں دیا گیا تھا۔

’اب اگر آپ کو ایک چیز تحفے میں دی گئی ہے تو اس میں آپ کا قصور تو نہیں ہے اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے کرپشن کی ہے۔ اس خاتوں کے والد میرے پاس آئے کہ نیب نے اسے اور اس کے سرکاری افسر شوہر کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے میرے پاس رہ گئے ہیں۔‘

عرفان قادر کے مطابق اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے کئی ابہام موجود ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ کرپشن کے ثبوت نہ ہونے کے باوجود کسی کو اس لیے مجرم تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ وضاحت نہیں دے پایا۔

’کرپشن کی یہ تعریف خود نواز شریف کے دور میں آئی‘

خواجہ آصف کی حالیہ گرفتاری پر ردَ عمل دیتے ہوئے ن لیگ کے قائد نواز شریف نے لندن سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کی بات مضحکہ خیز ہے۔‘

تاہم پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’معلوم آمدن سے زائد اثاثہ جات کو کرپشن کے تعریف میں پہلی مرتبہ خود نواز شریف کے دور میں سنہ 1997 کے احتساب کے قانون میں شامل کیا گیا تھا۔‘

اسے بعد میں سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نیب کے قانون میں قائم رکھا تھا۔

’دنیا بھر میں قوانین ایسے ہی ہیں‘

سابق پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس کا استدلال ہے کہ دنیا بھر میں قانون کی نوعیت ایسی ہے اور پاکستان میں بھی قانون کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

’اگر ایک پٹواری کے گھر پر تین بی ایم ڈبلیو گاڑیاں کھڑی ہیں تو آپ اس سے پوچھیں گے کہ اس نے یہ کہاں سے خریدیں۔ آپ یہ تو ثابت نہیں کر سکتے کہ اس کے لیے پیسہ اس نے کس کی زمین کے انتقال کے عوض حاصل کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں بھی حال ہی میں اسی نوعیت کا ایک قانون لاگو کیا گیا ہے۔

تو نیب سزائیں کیوں نہیں دلوا پایا؟

سابق پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی سرکاری عہدیداروں کے خلاف مقدمات میں سزائیں نہ ہونے کی وجہ نیب کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی ناقص کارکردگی ہے۔

’ہمارے ہاں نیب جیسی اتھارٹی کے چیئرمین کی تقرری کا طریقۂ کار ہی غلط ہے۔ ایسے ادارے کے سربراہ کی تقرری وزیرِاعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے ہوتی ہے اور اگر ان دونوں ہی کے خلاف نیب کے مقدمات ہیں تو ان کا لگایا گیا چیئرمین ان کو کیسے سزا دلوائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے اندر سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں بھی موجود ہیں جس کے وجہ سے اس نوعیت کے مقدمات کو غیر ضروری التوا کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ احتساب عدالتوں کی تعداد کم اور مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر بھی اس سوال پر ایسے ہی تاثرات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب کے قوانین تمام متعلقہ اداروں کی باہم مشاورت سے بننے چاہییں اور نیب کے ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل کے بعد ہی احتساب کا عمل غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔

’پھر یہ احتساب کا عمل ہر ایک کے لیے یکساں ہونا چاہیے جس میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں اطراف کے لوگ شامل ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp