2021 نئی اُمیدوں کا سال


سال 2020 کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ غروب ہوا۔ نئے سال 2021 کو نئی امیدوں، نئے جذبے اور نئی امنگوں کے ساتھ خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ تمام آدم زاد خدا کے حضور سرنگوں ہیں کہ خدا کورونا جیسی وبا سے دنیا کو بچائے اور زندگی پھر معمول پر آ جائے۔ 2020 میں اس وبا کی وجہ سے تمام کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ پوری دنیا میں لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ سرکاری و نیم سرکاری، تدریسی نیز ہر قسم کے ادارے بند ہو گئے۔ بلکہ کچھ تو آن لائن چلے گئے۔ یہاں تک کہ عبادات بھی نیٹ پر ہونے لگیں ۔ مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً دسواں حصہ موت کی آغوش میں چلا گیا۔ خصوصاً بوڑھے لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

گزرا ہوا سال مجموعی طور پرپوری دنیا میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی لپیٹ میں رہا۔ ماہ دسمبر میں کورونا وائرس ایک نئی توانائی کے ساتھ حملہ آور ہوا اور بیشتر ممالک دوبارہ لاک ڈاؤن کی پوزیشن میں چلے گئے۔ برطانیہ اور امریکہ میں ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ جلد 2021 میں کورونا وائرس پر قابو پالیا جائے گا۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک کی اکانومی بری طرح متاثر ہوئی وہیں ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔

غریب لوگوں کا گزارہ خیرات میں ملنے والے راشن پر ہونے لگا۔ پاکستان کی حکومت نے اموات کے باوجود اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل جاری رکھا، مگر پھر بھی اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا۔ جزوی لاک ڈاؤن کے ہونے کے باوجود عوام نے کوئی پروا نہیں کی۔ کسی ترقیاتی منصوبے پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ کمسن بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔

اپوزیشن اور حکومت کی کشمکش میں اضافے کی وجہ سے اسمبلیوں کے اجلاس منعقد نہ ہو سکے جس کی وجہ سے قانون سازی بھی نہ ہو سکی۔ سٹینڈنگ کمیٹیوں پر حکومت چلانے کی کوشش جاری رہی۔ جن سٹینڈنگ کمیٹیوں میں اپوزیشن ارکان اسمبلی ہیں وہ تو بالکل ہی کام نہ کر سکیں۔ نیب نے بڑی تعداد میں اپوزیشن لیڈرز کی گرفتاریاں جاری رکھیں۔ حکومتی اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کی طرف سے تند و تیز مکالمے اور ذاتی گالی گلوچ جاری ہے۔

حکومتی ارکین تو ایسا لگتا ہے کہ تربیت سے عاری ہیں۔ یہ کشمکش 2021 میں بھی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اپوزیشن نے استعفے اور لانگ مارچ کا عندیہ دے دیا ہے۔ اب سینیٹ کے الیکشن قریب ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت نے اپنی ساری توجہ اس طرف مرکوز کر رکھی ہے۔ اپوزیشن کے سخت دباؤ کے باوجود حکومت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایک بات ضرور واضح ہو چکی ہے کہ حکومت کے پیچھے تیسری قوت کھڑی ہے جو عمران خان کو اقتدار میں لائی تھی۔

اپوزیشن کا دباؤ نئے الیکشن کی طرف لے جانے کامیاب ہوتا ہے یا کوئی تیسری قوت ملک کی باگ دوڑ سنبھالتی ہے، یہ ابھی واضح نہیں۔ بہرحال ایسی صورت حال میں تیسری قوت کا کھل کر سامنے آنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں جس آلودہ سیاست کی بنیاد ڈال دی گئی ہے وہ اگلے دس سال میں بھی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ میڈیا سخت دباؤ میں رہا۔ اسے سچ بولنے یا دکھانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازشوں کے علاوہ لسانیت کو بھی ہوا دی گئی۔

پاکستان میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال بدحالی کا شکار ہے۔ جس نے جرائم میں ہو شرباہ اضافہ کر دیا ہے۔ 2020 میں گناہ کبیرہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی تشد کے بعد قتل اور گینگ ریپ میں مزید اضافہ جو اکثریت کے ساتھ اقلیتوں کے لئے بھی کسی عذاب سے کم نہیں رہا۔ لاک ڈاؤن کے سخت بحران میں راشن کے بدلے مذہب تبدیل کروانے کے واقعات بھی سامنا آئے۔ کمسن جبری تبدیلی مذہب ونکاح نے مسیحیوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔

غیر ملکی دباؤ کے باوجودہ مذہبی انتہا پسندی میں کمی نہیں آئی۔ نتائج وہی سامنے آئے جو مذہبی انتہا پسند چاہتے تھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو شرعی قوانین کا پابند رہنا پڑے گا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی قانون کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے خصوصاً میرج ایکٹ جس کی رو سے صوبہ سندھ میں صوبائی ایکٹ کے مطابق لڑکی کی عمر 18 سال اور پنجاب میں 16 سال ہے۔ جتنے بھی واقعات وقوع پذیر ہوئے، چاہے وہ سندھ میں تھے یا پنجاب میں وہاں شرعی قانون کے سامنے ریاستی قانون بے بس رہا اور اقلیتوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

پی ٹی آئی کی حکومت جو اقلیتوں کو جنت میں رہنے سے تشبیہہ دیتی ہے۔ ان امتیازی قوانین اور متعصبانہ رویوں کی بدولت کیسے خود کو جنت میں رہنے سے تشبیہہ دے سکتی ہیں۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جب کسی مسلم نوجوان کی کسی خوبصورت اقلیتی لڑکی پر نگاہ تھم جاتی ہے تو ان کے گھر رشتہ لینے چل پڑتا ہے اور انکار پر دھمکی بھی دے دیتا ہے کہ اگر وہ لوگ لڑکی کو خود اس کے گھر نہیں لے کر آئیں گے تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے ۔

اسی طرح کا ایک واقعہ دسمبر 2020 میں اسلام آباد میں پیش آیا کہ رشتے سے انکار پر لڑکی کو گولی مار دی گئی۔ پھر لاہور کے قریب 25 دسمبر 2020 کی دوپہر مسیحی آبادی میں جب کرسمس کی عبادت ختم ہوئی تو کچھ اوباش نوجوان وہاں گھس آئے اور اپنے موبائل فون سے مسیحی لڑکیوں کی سرعام تصاویر بنانا شروع کردیں۔ جس پر وہاں دنگا فسادشروع ہو گیا اور کئی مسیحی نوجوان بری طرح زخمی ہوئے۔ ہیومن رائٹس کے صوبائی وزیر اعجاز عالم اگسٹین کے کہنے پر پولیس نے مسلم نوجوانوں کو پکڑنے کی کوشش کی تو الٹا انہوں نے پولیس کی مداخلت کو چیلنج کر دیا۔ اورپولیس کو مسلم آبادی میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے انہیں وارن کیا کہ جن نوجوانوں نے یہ حرکت کی ہے انہیں تھانے میں حاضر کیا جائے مگر تا دم تحریر ان کی گرفتاریاں ممکن نہیں ہوئیں۔

ہماری دعا ہے کہ خداوند پاکستان کو محظوظ رکھے اور اس میں بسنے والی اقلیتوں کی تمام مشکلات دور کرے۔ 2021 دنیا بھر کے اور خصوصاً پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے لئے بہتر ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).