ڈائری سال 2020


سال 2020 کا آغاز بھی گزشتہ سال کی طرح سیمسٹر کے امتحانات ہی سے ہوا۔ جنوری کی سرد ہواؤں میں کمرہ امتحان میں ہم سوالات کی گرمی کو بھی محسوس کر رہے تھے۔ چنانچہ امتحانات کے بعد سمیسٹر بریک کی مد میں چند چھٹیاں عنایت کی گئیں جن کو گزارنے کے لیے گھر کا رخ کیا۔

کافی عرصہ سے یہ بات میرے معمولات  کا حصہ بن چکی ہے کہ چھٹیوں کو مؤثر طریقے سے گزارا جائے تو اسی سلسلے اپنے علاقے میں چند اسکولز کا دورہ کرتے ہوئے اکیڈمک کریئر کونسلینگ کے حوالے سے طلباء و طالبات سے مخاطب ہوا۔

سال 2020 کے آغاز میں دنیا کے دیگر ممالک عالمی سطح پر پھیلی ہوئی وبا سے رفتہ رفتہ متأثر ہو رہے تھے مگر ان ممالک میں وبا کا زیادہ دباؤ اس وقت چائنہ پر ہی تھا۔ پاکستان میں سال کے آغاز میں صورتحال اتنی کشیدہ نہ تھی۔ لہذا ہم بھی چھٹیاں گزارنے کے بعد اپنی تعلیم کو دوبارہ رواں رکھنے کے لیے فروری کے وسط میں اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔

مارچ 2020 کا جیسے ہی آغاز ہوا تو پاکستان کی صورتحال بھی اس عالمی وبا سے کشیدگی اختیار کرچکی تھی۔ حالات کو قابو میں لانے کے لیے حکومتی سطح پر ملک بھر میں عوام الناس کے اجتماعات، شاپنگ مالز و دیگر پبلک مقامات پر پابندی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی بندش کے نوٹیفیکشن بھی جاری کردیے گئے اور مکمل طور پر ملک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کی طرف اقدامات تیزی سے کیے جانے لگے۔ بالآخر ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال کو برپا کیا گیا۔ تعلیمی اداروں کی بندش پر ہم بھی دوبارہ اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑے۔

تدریسی نظام کو آن لائن ایجوکیشنل نظام میں منتقل کیا گیا جس کے باعث ملک میں طلباء و طالبات اور اساتذہ کو بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مسائل پیش آنے کی سب سے بڑی وجوہات ملک کے چند بڑے شہروں کے علاوہ انٹرنیٹ کی سہولیات کا میسر نہ ہونا اور دوسری طرف اس جدید تعلیمی نظام سے صحیح معنوں میں نا واقفیت تھی۔ اساتذہ سمیت طلباء و طالبات اس جدید تعلیمی نظام سے بخوبی لاعلم تھے۔ جس کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل خاطر خواہ نظر نہیں آ رہا تھا اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی و جدید تعلیمی نظام سے ناواقفیت ایجوکیشن کو صحیح معنوں میں اساتذہ سے اسٹوڈنٹس میں منتقل کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔ انہی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے من بندہ بھی بلوچستان کے طلباء کے مسائل اور آن لائن ایجوکیشن کے موضوع پر وش نیوز کے ایک لائیو پروگرام میں شریک ہوا اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں آن لائن ایجوکیشن سے اسٹوڈنٹس کو پیش آنے والے مسائل پر گفتگو کی۔

لاک ڈاؤن کی صورتحال سے ملک کی حالت شدید متأثر تھی۔ ایک طرف کورونا کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے اعداد و شمار نے عوام الناس کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا تھا دوسری جانب کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ملک میں دیہاڑی دار طبقہ افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ انہی حالات میں فلاحی تنظیمات، اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن و دیگر نجی تنظیمات سمیت مذہبی تنظیمات نے معاشرے کے اس سفید پوش طبقہ کی حتی الامکان مدد کرنے کے اقدامات کیے۔ اس ضمن ہم بھی بذریعہ سوشل میڈیا سفید پوش طبقہ کی مدد کے لیے چند ایک مہمات کا حصہ بنے۔ اپنے ویڈیوز و کالمز کے ذریعے مخیر حضرات سے تعاون کی گزارشات کیں اور چند ایک گھرانوں کی براہ راست خدمت کرنے کا بھی موقع نصیب میں پایا۔

عیدالاضحیٰ سے چند روز قبل ایک استاد کی طرف سے پیغام موصول ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک مہم چلانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ پیغام کے بعد ملاقات کر کے اس سال کھلونا بندوق کے حوالے سے سوشل میڈیا پر آگاہی مہم کا بھی انعقاد کیا۔ جس میں ملک بھر سے سماجی کارکنان، علمائے کرام و بچوں نے اپنے ویڈیو پیغامات اور تحاریر کے ذریعے عوام الناس کو کھلونا بندوق کے استعمال کے نقصانات سے آگاہی فراہم کی۔ الحمد للہ مہم میں دیگر ممالک کے ساتھیوں نے بھی حصہ لیا۔

ستمبر کے وسط میں تعلیمی اداروں کو دوبارہ مرحلہ وار کھولنے کے احکامات جاری کیے گئے اور یوں ہم دوبارہ چھ ماہ کی طویل مدت کے بعد اپنی جامعہ کی طرف لوٹ گئے اور تعلیمی سفر کو دوبارہ جاری رکھا مگر نومبر کے آغاز میں ہی کورونا کی دوسری لہر کے پھیلاؤ کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو دوبارہ بند کر کے آن لائن ایجوکیشنل سسٹم میں منتقل کیا گیا۔ اس طرح دوبارہ ہم کچھ روز میں ہی گھر کی طرف لوٹ پڑے۔ وقت کس طرح تیزی سے گزرا اس کا ادراک اس سال کے آخر میں ہوا کہ زندگی کا ایک اور سال بیت گیا۔

کئی سال پرانے خواب کو بھی رواں سال اپنی کمیونٹی آرگنائزیشن گدور یوتھ فورم کے قیام عمل میں لانے سے حقیقت میں بدلا۔ ”گدور یوتھ فورم۔ جی وائے ایف“ ایک کمیونٹی پر مبنی تنظیم ہے اور نوجوانوں کو با اختیار بنانے اور اتحاد پر یقین رکھتی ہے۔ جی وائی ایف کمیونٹی میں تعلیمی واقفیت کے لئے کام کرتی ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو ان کے سماجی اور سیاسی مسائل کے لئے متحرک کرنا ہے۔

رواں سال کی دیگر اہم سرگرمیوں میں سینٹر فار ہیومن رائٹس ایجوکیشن پاکستان کی جانب سے لاہور میں منعقدہ ہشت روزہ شراکتی کورس برائے انسانی حقوق و جمہوریت میں لسبیلہ کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی۔ اسلام آباد ہائیکنگ کلب کی جانب سے منعقدہ ورلڈ ٹورزم ڈے کی تقریب میں شریک ہوا۔

ورچوئل انٹرنیشنل ماڈل یونائیٹڈ نیشن سیمنار میں شرکت کے علاوہ علاقائی سطح پر سیاحت و کافی سارے نئے لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ احترام انسانیت کے موضوع پر لسبیلہ میں قائم نور گروپ آف اسکولز اور دی فیوچر ریفارمرز اسکول حب کے طلباء و طالبات سے مخاطب ہوا۔ مزید یہ ہے کہ رواں سال چند غیر نصابی کتب بھی زیر مطالعہ رہی جن میں ضیاء النبی ﷺ جلد اول (تاریخ اسلام) ، تاریخ اور دانشور، محبت کے چالیس اصول (انگلش ناول ) ، عام آدمی کا فلسفہ، بنگلہ دیش ایک خواب یا حقیقت (سندھی) اور حکایات سعدی شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).