الواعظ علی مراد بھی بچھڑ گئے


صبح صبح سنیئر صحافی مظہر عباس صاحب کا اپنی اہلیہ (مرحومہ) کی یاد میں نوشت کالم پڑھ کر دل شکستہ اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ آنسو پونچھتے ہوئے اٹھنے والا ہی تھا کہ سوشل میڈیا کے اپنے محترم الواعظ علی مراد صاحب کی رحلت کی خبر زیر گردش نظر آئی۔ غمزدہ دل کو ایک اور جھٹکا سا لگا، آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہو گئے۔ کچھ دیر کے لئے سوچتا رہا کہ کیا واقعی میں علی مراد صاحب ہم سے جدا ہو گئے۔ پھر اطمینان سے دعا پڑھی انا للہ وانا الیہ راجعون!

گلگت بلتستان کے لیے 2020 کس قدر غموں کا سال ہو گزرا۔ کبھی کورونا، کبھی کینسر تو کبھی ہارٹ اٹیک کے نام پر خدا نے چن چن کر کیسے کیسے لوگوں کو اٹھا لیا۔ سابق گورنر سید پیر کرم علی شاہ، سید جعفر شاہ، سلطان مدد، راجہ عادل غیاث، راجہ نثار ولی، حاجی جانباز خان، سید افضل، ڈاکٹر اسامہ ریاض، ڈاکٹر حبیب، یاسین کے راجہ اشرف اور اب الواعظ علی مراد سمیت کئی اہم شخصیات پلک جھپکنے میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں۔

الواعظ علی مراد صاحب کے ایک دینی اسکالر کی حیثیت سے پہچان سے تو بچپن ہی سے واقف تھا۔ مگر ان کے ساتھ باضابطہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب وہ 2004 کے انتخابات کے بعد ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل میں ٹیکنوکریٹس کی خالی نشست پر رکن کونسل منتخب ہو گئے۔ ان دنوں میں ابھی ابھی میدان میں صحافت میں قدم رکھ کر ایک ہفت روزہ اخبار کے ساتھ بطور اعزازی رپورٹر وابستہ ہوا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ یہ تعلق مضبوط رشتے کے طور پر استوار ہو گیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کے خاصے قریب آ گئے۔ ان سے ملنے کے لیے جب بھی کال کرتا تو ڈانٹ پلاتے کہ آپ اجنبی لوگوں کی طرح فون پر ٹائم کیوں لیتے ہیں۔ سیدھے گھر آ جاؤ میں ہوں یا نہ ہوں ایک کپ چائے ضرور پی کے جانا۔ گھر میں بھی وہ اس قدر خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ بندہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔

یہ غالباً 2008 کی بات ہے جب ہم قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں نئے داخلہ لینے والے طلبا و طالبات کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کی غرض سے علاقے کے معتبرین سے چندہ مانگنے نکلے۔ ان دنوں کے آئی یو میں گوپس یاسین ملا کر ہم دو درجن کے قریب اسٹوڈنٹس ہوا کرتے تھے۔

چندہ مہم کے سلسلے کشکول لئے در در گئے تو بڑے بڑوں کے پاس سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔ مگر الواعظ علی مراد واحد شخصیت تھے جنہوں نے ہماری اس کاوش کو بھرپور سراہا۔ انہوں نے اس چندہ مہم میں اپنا تھوڑا بہت حصہ ڈالنے کی بجائے پورے ریفریشمنٹ کی ذمہ داری اٹھانے کا وعدہ کیا۔ چندہ مہم کے سلسلے میں ان کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں معلوم ہوا کہ موصوف خود بھی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے شعبہ ایجوکیشن میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔

بہرحال ان سمیت چند اور مخیر حضرات کے تعاون سے ہمارا پروگرام کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا تو بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ اکثر یونیورسٹی کے اندر اور باہر کی نشستیں ہوتی رہیں۔

2009 میں اپنے دور اقتدار کے خاتمے سے قبل عید الاضحی کے موقع پر یاسین میں ہمارے گاؤں کا دورہ کیا۔ جہاں پر انہوں نے ہمارے دو اہم مسائل (پینے کے پانی اور رابطہ سڑک) کی تعمیر کے لئے اپنی اے ڈی پی سے اسکیمیں دینے کا اعلان کیا۔

کچھ عرصہ بعد انہوں نے پینے کے پانی کی سکیم اپنی اور رابطہ سڑک کی تعمیر کا منصوبہ اس وقت کی مشیر تعلیم محترمہ نورالعین صاحبہ سے گزارش کر کے اے ڈی پی میں رکھوا دیا۔ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا مگر بعد ازاں اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا۔ لیکن سیاسی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے۔

سیاست میں اپنی بہتر مستقبل کی امید لئے جلد ہی پاکستان تحریک انصاف کے کارواں میں شامل ہو گئے۔ پی ٹی آئی میں ایک عام کارکن سے صوبائی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ 2015 کے عام انتخابات سے قبل ایک بار پھر الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا مگر بعد ازاں انہیں نگران وزیر کا عہدہ سونپے جانے پر اپنے فیصلے سے دستبردار ہو گئے۔

انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پانے کے ساتھ ہی انہیں طبی مسائل کا سامنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ وہ میدان سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔

الواعظ علی مراد صاحب سے آخری بات مئی جون 2018 میں اس وقت ہوتی رہی جب میں اپنی اہلیہ مرحومہ (اللہ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ) کے علاج و معالجے کے سلسلے میں کراچی کی خاک چھان رہا تھا۔ اس تکلیف دہ حالت  میں میرے اپنے دوست احباب کی جانب سے اظہار ہمدردی کی کالیں تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند ہوتی تھیں۔

ایک دن ایک نئے نمبر سے کال آئی۔ وصول کرنے پر انتہائی مشفقانہ انداز میں اپنا تعارف کرنے لگے۔ ”صفدر میری جان میں الواعظ علی مراد ہوں، میری طرح آپ کو بھی قدرت نے انتہائی مشکل آزمائش میں ڈالا ہے مگر میں جانتا ہوں تم بہت بہادر آدمی ہو، مشکل حالات سے کبھی گھبراؤ گے نہیں“

پھر تسلیاں دیتے رہے کہ کینسر صرف نام کا موذی مرض ہے، ابھی تو اس کا علاج موجود ہے۔ ”میں خود برین ٹیومر کے مرض میں مبتلا تھا، آپریشن کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے نارمل زندگی گزار رہا ہوں۔ بیٹا حوصلہ رکھنا اور میرے لائق جو بھی کام ہوا تو بلا جھجھک کہہ دینا۔“

کراچی میں اہلیہ مرحومہ کے علاج اور بعد ازاں تعزیت کی غرض سے بھی ان کی کالیں آتی رہی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

الواعظ علی مراد ایک نڈر، بے باک اور باکردار سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دینی اسکالر اور ایک سماجی شخصیت کا نام تھا۔ وہ ایک کھرے، اصول پسند، خوش اخلاق اور نیک عمل انسان تھے۔ وقتی طور پر کسی معاملے پر جھگڑے کی حد تک بحث کیا کرتے مگر جلد ہی غصہ ٹھنڈا ہونے پر پیار و محبت سے پیش آ جاتے۔

اپنی علمی و سیاسی مصروفیات کے باوجود اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوئی قسم کا دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ خداوند تعالیٰ نے ان کی محنت قبول کی اور بچے بھی حصول علم سے فراغت کے بعد کامیابی و کامرانی سے عملی زندگی کی جانب رواں دواں ہیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم الواعظ علی مراد صاحب کی روح کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).