غم یہ ہے کہ سولہ دسمبر لوٹ لوٹ کر آتا رہے گا


سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی تھی۔ سندھی وڈیروں کو جلدی تھی سندھ کے کاروباری ہندو سے جان چھڑانے کی۔ سندھی ہندو جو کاروباری ساکھ رکھتا ہے۔ جس کے سندھی وڈیرے مقروض تھے۔ ان کو بھگانے کی جلدی تھی۔ سندھی ہندو تو چلے گئے۔ ان کی جگہ آنے والے نئے سندھیوں کے ساتھ سندھی اب امن چین سے رہ رہے ہیں۔ نئے سندھیوں کے قائد الطاف حسین سے تو پرانے سندھیوں کی محبت بے مثال ہے۔

پنجاب میں پاکستان کہانی سناتے ہوئے لاکھوں جانوں کی قربانی کا ذکر ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ ان لاکھوں جانوں میں کچھ جانیں تو ان مسلمان فوجیوں کی تھیں جو دس دس بیس بیس روپوں کے لئے انگریزوں کی لڑائیاں لڑتے رہے۔ باقی جانیں وہ تھیں جو تبادلہ آبادی کے دوران لوٹ مار مارا ماری چھینا جھپٹی میں کام آئیں۔ پنجاب میں کسی پرانے بابے یا بوڑھی خاتون سے ملیں اور اس سے کہانی سنیں تو وہ ایک خاص لفظ وہ آزادی کے سال کو یاد کرتے ہوئے بولتے ہیں۔ جدوں اجاڑے پئے سی یعنی جب لوگ اجڑ گئے تھے برباد ہوئے تھے۔

کہانی مختصر کرتے ہیں آگے بڑھتے ہیں۔

مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنی تھی۔ پاکستان بنگالیوں نے بنایا تھا۔ قرار داد پاکستان مولوی اے کے فضل حق نے پیش کی تھی۔ انیس سو چھیالیس کا الیکشن وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ہندوستان کی تقسیم ہی حتمی حل قرار پا گیا تھا۔ اس کی وجہ مسلم لیگ کی الیکشن میں بے مثال کامیابی تھی۔ خاص طور پر بنگال میں۔

انیس سو تینتالیس میں بنگال میں قحط پڑا تھا۔ اس قحط میں تیس لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ یہی وہ سال تھا جب خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیرا عظم بنے۔ اتنا بڑا انسانی المیہ ہوا ہو اس وقت کی سرکار کو پھر الیکشن میں جانا پڑے۔ یہ الیکشن فیصلہ کن ہو تو ایسی پارٹی، ایسی سرکار کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

شیر بنگال مسلم لیگ چھوڑ چکے تھے۔ خواجہ ناظم الدین حالات کا درست اندازہ لگا کر الیکشن سے پہلے ہی صحت کا بہانہ بنا کر سوئٹزر لینڈ بھاگ گئے تھے۔ مسلم لیگ کو یہ الیکشن جیتنا تھا اور وہ جیت بھی گئی۔ اس ناممکن کو ممکن حسین شہید سہروردی نے بنایا۔ انہوں نے یہ الیکشن لڑا۔ ان کی قیادت میں بنگال میں مسلم لیگ نے یہ الیکشن جیتا۔

حسین شہید سہروردی 1963 میں بیروت کے ہوٹل میں لاوارث حال میں مردہ پائے گئے تھے۔ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے بہت کچھ دیکھا۔ بنگال الیکشن جیتنے کے بعد ان کے پاکستان آنے تک میں مشکلات کھڑی کی گئیں۔ حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ بنائی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں اب صرف مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ کی بجائے پاکستانیوں کی جماعت عوامی لیگ ہونی چاہیے۔

شیخ مجیب اسی عوامی لیگ کے سربراہ بنے۔ یہی شیخ مجیب پاکستان بننے سے پہلے ڈھاکہ سے دلی تک پیدل یا سائیکل پر پہنچے تھے مسلم لیگ کے کارکن کے طور پر۔ قیام پاکستان کو پچیس سال بھی نہ ہوئے تھے جب یہی شیخ مجیب بنگلہ دیش کے پہلے سربراہ بنے۔ شیخ مجیب کو علیحدگی سے روکنے کی سب سے بھرپور آخری کوشش پاکستان کے ایک اور مشہور غدار خان عبدالولی خان نے کی تھی۔

بنگلہ دیش ایک دن میں نہیں بنا۔ ہم نے بنگالیوں کو دھکے دے دے کر علیحدگی پر مجبور کیا۔ ان بنگالیوں کو جنہوں نے اصل میں قیام پاکستان کی راہ ہموار کی تھی۔ ہم لوگوں نے اس علیحدگی کی وجوہات جاننے کی کوئی سنجیدہ سرکاری غیر سرکاری کوشش نہیں کی۔ ہم سب ہی بحیثیت قوم اس علیحدگی کے ذمہ دار تھے۔ علٰیحدگی کا عمل بھی پرامن نہ رکھ سکے اور اپنے لئے ایک تاریخی ہزیمت کا بندوبست بھی کر بیٹھے۔

اس سانحہ کی سائینسی توجیحات تلاش کرنے کی بجائے اس کی ذمہ داری ڈالنے کے لئے کچھ نام ڈھونڈ لئے گئے۔ جنرل یحیی خان، بھٹو اور مجیب کو ذمہ دار قرار دے کر ہم فارغ ہو گئے۔ ذمہ داری بھی ان کے فیصلوں کی بجائے ان کے ذاتی کردار پر ڈالنا ہی ہم نے مناسب سمجھا۔

بنگلہ دیش کو ہم بھول گئے ہیں۔ قیام پاکستان میں بنگال بنگالیوں کے کردار کو بھی ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ تاریخ نے ہمیں فراموش نہیں کیا۔ ہم نے اپنی غلطیوں کوتاہیوں کو نظرانداز کیا۔ سولہ دسمبر پھر لوٹ کر آیا۔ اب کی بار ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

جیسے سے ہم اکہتر میں تھے ویسے سے ہم سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو بھی تھے۔ ہمارے نوجوانوں میں مقبول ترین جماعت دھرنا جمائے بیٹھی تھی۔ فوج شدت پسندوں کے خلاف ایک ڈھیلا ماٹھا سا اپریشن کرنے میں مصروف تھی۔ حکومت اپنے حال میں مست تھی۔ ایک فرق تھا میڈیا کچھ آزاد تھا۔ ایک ذرا سی جمہوریت تھی۔ معصوموں کا خون تھا نظریں نہ چرائی جا سکیں۔

ساری قیادت کو اکٹھا ہونا پڑا۔ کچھ فیصلے کیے گئے۔ ان متفقہ فیصلوں کا کے نتائج بھی برامد ہوئے۔ اس واقعے کے ذمہ دار انجام کو پہنچائے گئے۔ ایک کام پھر بھی نہیں ہوا، اس کوتاہی کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوا۔ کسی ایک سرکاری یا حکومتی اہلکار کا احتساب نہیں ہوا۔ کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

جو لوگ اس واقعے میں فرض سے کوتاہی کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح ذمہ دار تھے، کسی عہدے پر تھے، اب بھی وہیں یا کہیں اور اپنے عہدوں پر ہیں اور مزید ترقیاں پا چکے ہیں۔ وہی قومی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔ وزرا بھی وہی ہیں۔ ہم بھی وہی ہیں۔ ہمارا خیال بھی وہی ہے اور ہمارا حال بھی وہی ہے۔ ایسے میں مستقبل کے بارے میں سوال تو بنتا ہے۔ کیا سولہ دسمبر چھوٹا بڑا غم لئے لوٹ لوٹ کر آتا رہے گا؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments