ایس ایس ایزاور اے ای اوز کی مستقلی کی تحریک


بچپن سے پچپن ( ازراہ تفنن) تک ہم ”اتفاق میں برکت ہے“ کے زیر عنوان مختلف دلچسپ کہانیاں سنتے اور سناتے آئے ہیں۔ ”بوڑھے کسان کے بیٹوں“ کی داستان ہو یا ”بیلوں اور شیر“ کی کہانی۔ ایک ہی اخلاقی سبق دیتی نظر آ تی ہے کہ

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
(ابو المجاہد زاہد)

ابو المجاہد زاہد کا یہ شعر حالیہ ایس ایس ایز اور اے ای اوز مستقلی تحریک پہ صد فیصد صادق آ تا ہے جب پورے پنجاب سے ایس ایس ایز اور اے ای اوز نے بنی گالا روڈ پر دھرنا دیا اور تمام تر حکومتی جبر کے سامنے ڈٹے رہے اور آ خر کار حکومت کو ان کے اس مستقلی معاملے کو از سر نو دیکھنے کی یقین دہانی کروانا پڑی اور با لآخر صوبائی وزیر قانون نے کور کمیٹی کے ساتھ میٹنگ میں ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد ایکٹ آ ف ایمنڈمنٹ لانے کا عندیہ دیا۔

اس حد تک کامیابی کا سہرا ایس ایس ایز اور اے ای اوز اتحاد کے سر جاتا ہے کہ ان کے باہم متحد ہونے سے حکومت کو ان کی بات پر کان دھرنے پڑے ورنہ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس سے پہلے صوبائی وزیر قانون، صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کا رویہ کیا تھا۔ حکومت اس معاملے کو التوا میں ڈال کر اندر خانے مستقلی کے معاملے کو پی پی ایس سی (PPSC) کے پاس بھیجنے پر تلی بیٹھی تھی۔

مستقلی تحریک میں بلا شک و شبہ دیگر اساتذہ تنظیموں کا کردار اور تعاون مثالی رہا مگر ایس ایس ایز اور اے ای اوز مستقلی کا نکتہ ان کے ایجنڈے میں پہلی ترجیح نہیں تھا۔ سبھی تنظیموں کے مطالبات کی فہرست میں مستقلی کا نکتہ ذیلی تو ضرور تھا سر فہرست نہیں تھا۔ یہ ایس ایس ایز اور اے ای اوز کور کمیٹی کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے کہ یہ معاملہ اب نوک زبان ہے اور ہر تنظیم اسے حرز جاں بنائے ہوئے ہے۔ اس پر تمام کور کمیٹی ممبران، ضلعی و تحصیلی فوکل پرسنز اور ایس ایس ایز اور اے ای اوز داد کے مستحق ہیں۔

اب اس مرحلے پر جب اک نئی سمری (جو کہ ایس ایس ایز اور اے ای اوز کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کر کے ایکٹ آف ایمنڈمنٹ کے حوالے سے ہے) وزیر اعلیٰ کو ارسال ہو چکی ہے۔ باہمی اتحاد کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس مرحلے میں اختلاف و انتشار منزل سے دوری کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی سے پہلے کا وقت تحریکوں کے لیے نہایت اہم اور مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح طلوع سحر سے پہلے کا وقت عادی شب بیداریوں کے لیے بھی کٹھن اور جان گسل ہوتا ہے اور جو صبح کے انتظار میں رات بھر جاگے ہوں ان کی پلکیں بھی طلوع سحر سے پہلے ہی نیند سے بھاری ہو کر ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ تحریکوں کے لیے یہ لمحے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔

ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں
شب فراق! ابھی سے یہ چشم تر نہ دکھا
گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے
فریب وقت! مجھے شاخ بے ثمر نہ دکھا

اس نازک وقت میں پہلے سے زیادہ ولولہ، جوش و خروش، عزم اور حوصلہ درکار ہے۔ تحریک کے اس اہم موڑ پر کور کمیٹی کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ انھیں ہر لمحہ چوکنا و چوکس رہنا ہوگا۔ میڈیا ( الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل) پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ کسی بھی قسم کی غلط خبر کی فوری تردید کرنا اور درست حقائق اور خبر ممبران تک بر وقت پہنچانے کا اہتمام کرنا بھی کور کمیٹی کی اہم ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اسلام آباد دھرنے کی کامیابی کے بعد ابھی جذبے جوان ہیں۔

حوصلے بلند ہیں اور باہمی تعاون کی فضا بھی برقرار ہے اس لیے اس فضا کو اسی آ ب و تاب کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس کے لیے کور کمیٹی کو کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رکھنا ہو گی تاکہ باہمی نظم بھی برقرار رہے اور حکومت پر دباؤ بھی جاری رہے۔ اس کے لیے ضلعی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے اور ڈویژنل سطح پر کور کمیٹی دورے کرے یا کور کمیٹی کے تین تین چار چار ارکان پر مشتمل گروپ بنا دیے جائیں اور ہر گروپ کے ذمہ تین ڈویژن کادورہ لگا دیا جائے۔ ہر گروپ ایس ایس ایز اور اے ای اوز پر مشتمل ہو تاکہ ایس ایس ایز اور اے ای اوز کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ مضبوطی سے قائم رہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بنتے دیر نہیں لگتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).