مذہبی اقلیتیں انتہاپسندوں کے نشانے پر



دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب یا مذہبی شخصیات کے بارے میں کوئی ناخوشگوار بات ہو تو پاکستانی مسلمان سب سے زیادہ ردعمل دیتے ہیں احتجاج ہوتے ہیں توڑ پھوڑ کی جاتی اور عوام کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے حکمران بھی اسلاموفوبیا کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں حال ہی میں فرانس میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ کیری کیچر کے معاملے پر بھی ایسا ہی رد عمل سامنے آیا ہمارے وزیراعظم اور دوسرے سیاستدانوں نے بھی خوب بیان بازی کی، اس سے پہلے کسی یورپی ملک میں قرآن جلانے کی مبینہ کوشش پر اپنے متنازع سیاسی بیانات کے حوالے سے مشہور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے بھی ایک ٹویٹ میں غصے کا اظہار کیا تھا۔

جس طرح مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے بارے میں کچھ غلط کہا جائے تو ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ایسے ہی دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستانی مسلمان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔

کل پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک مندر پر مذہبی کارکنوں نے کسی مولوی کی سربراہی میں ایک مندر پر حملہ کر کے اس کو مسمار کیا اور آگ لگا دی، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل گزشتہ چند ماہ میں سندھ میں تین چار ایسے واقعات ہوئے جن میں مندروں پر حملہ کر کے ان میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

ہمارے ملک کے حکمرانوں کو انڈیا میں مودی سرکار کی شدت پسندی اور اقلیتوں کی دگرگوں حالت تو نظر آتی ہے لیکن اپنے ملک میں ایسے واقعات پر لب سی لیتے ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ہندو فوبیا، کرسچئین فوبیا، احمدی اور شیعہ فوبیا ان کو نظر نہیں آتا۔

جب بھی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی دگرگوں حالت پر اور ملک میں مذہبی حوالے سے کوئی بین الاقوامی رپورٹ شائع ہوتی ہے تو اسے سازش کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں تو مکمل مذہبی آزادی ہے لیکن ایسے واقعات ایسے کھوکھلے دعوں کی قلعی کھول دیتے ہیں، ہمارے ہاں تو ذرا سی بات پر بھی بلاسفیمی کا مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے ، سر تن سے جدا کے کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ کیا اب ان لوگوں کو سزا مل سکے گی جنہوں نے ہندوؤں کے مذہب کی توہین کی؟ کیا ہمارے ملک کی ہندو کمیونٹی فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے دے کر دارالحکومت کو مفلوج کر سکتی ہے؟

وہ پولیس جس نے جان بوجھ کر مجرمانہ غلفت برتی اور مندر گرانے والوں کو نہ روکا ،وہ مجرموں کو گرفتار کرے گی اور اتنی ہی مستعدی دکھائے گی جتنی ایک شاعر اور سیاسی کارکن صمد خلیل کو سوشل میڈیا پر مذہب کے نام پر قتل کی مذمت کرنے پر توہین مذہب کا مقدمہ بنا کر گرفتار کرنے میں دکھائی تھی؟

حقیقت یہ ہے کہ یہاں مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اس شخص کو لگایا گیا ہے جو ایک مذہبی شدت پسند ہے جس پر انتہا پسند تنظیموں کے کرتا دھرتا لوگوں کے ساتھ روابط کا الزام رہا ہے۔ جب نفرت کا کاروبار کرنے والے مرتے ہیں تو ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد یوں دکھ کا اظہار کرتے ہیں جیسے کوئی قیمتی اثاثہ چھن گیا ہو، ایسی ریاست میں کیا مذہبی آزادی ہو گی اور کیا اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).