قوموں کی تباہی اور زوال کے اسباب


جب کسی قوم میں بدعملی، بدخلقی اور نا انصافی اجتماعی طور پر آ جائے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر اور زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ جب ہم حیات انسانی کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے اور جب وہ فطرت کے خلاف چلیں، قانون قدرت کو بھلا دیں، نافرمانی و گستاخی کریں ، خدا تعالیٰ کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور انحراف کریں تو خداتعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہوجائیں تو اس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں مختلف قوموں کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔ جن میں یہ برائیاں پائی جاتی تھیں۔ درج ذیل چند آیات میں اس کا ذکر آیا ہے۔

ترجمہ! کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں مزید یہ کہ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پروان چڑھایا۔ (سورة الانعام: 7 )

ترجمہ! اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جب انہوں نے ظلم کیے حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم مجرم قوم کو جزاء دیا کرتے ہیں۔ (سورة یونس: 14 )

ترجمہ! اور کتنی ہی نسلیں ہیں جنہیں ہم نے ان سے پہلے ہی ہلاک کر دیا۔ کیا تو ان میں سے کسی کو محسوس کرتا ہے یا ان کی آہٹ سنتا ہے۔ (سورة مریم: 99 )

قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قدرت قوموں کے عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی ۔ جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کے لئے ہیں وہی امت مسلمہ کے لیے ہیں اور جو ضابطے اہل کفر کے لئے ہیں وہی اہل ایمان کے لیے ہیں۔ قرآن کے اصول اٹل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔ اللہ کو ”سنة اللہ“ کہا گیا ہے۔

دیکھیں سورة احزاب کی آیت 63 میں ترجمہ! یہ اللہ کی سنت ان لوگوں کے متعلق بھی تھی جو پہلے گزر چکے ہیں اور تو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔

آئیے ہم اب پاکستانی قوم میں پائی جانے والے ان عوامل اور اسباب کا ذکر کرتے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ اور یہ وہی برائیاں ہیں جو دوسری قوموں میں پائی گئی تھیں جو تباہ کر دی گئی۔ پچھلی قوموں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء اور ولیوں کی تذلیل اور ٹھٹھا کیا، آج بھی وہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسلسل کیا جا رہا ہے اور جان بوجھ کر۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ 70 فیصد ان پڑھ ہے بظاہر ان وجوہات کے باعث کئی قسم کی غلط فہمیاں ہمارے دماغوں میں راسخ ہو گئی ہیں۔

راقم الحروف ایک ادنیٰ سا طالب علم ہے ، قرآن کی تفاسیر اور سیرت کی کتابوں سے علم حاصل کرتا رہتا ہوں۔ جہاں کوئی بات سمجھ نہ آئے قرآن کریم کا مطالعہ احادیث اور تاریخ سے رہنمائی لے کر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔ اپنی کم علمی کے باوجود جس قسم کا تصوراسلام، مذہب ہم نے اپنے دماغوں میں بٹھا رکھا ہے اس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ تعلق نہیں۔ اصل میں یہ آسمانی آفت وبا ہمارے گناہوں، برائیوں کی خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کیونکر معاف کرے گا۔

قرآن کریم میں لفظ ”امانت“ لازماً احتساب کے مضمون کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے جمہوری، ریاستی ادارے امانت کی اس ذمہ داری کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں جس سے وہ اپنے منتخب کرنے والوں کے سامنے جوابدہ ہیں جن نے ان کے سپرد اپنی امانت کی ہے۔ ان جمہوری معاشروں میں جہاں امانتیں ضائع ہو رہی ہیں،  نا انصافی اور ظلم کا الزام ایسے اداروں یا افراد پر ہوتا ہے جو بیک وقت بنی نوع انسان اور اللہ تعالیٰ دونوں سے کیے ہوئے عہدوں کو توڑ رہے ہوتے ہیں۔

جب بھی کوئی منتخب شدہ تنظیم یا فرد اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتا تو اس کا لازمی نتیجہ مختلف معاشرتی برائیوں کی صورت میں برآمد ہوا کرتا ہے۔ جو آج ہم اس معاشرہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ انسان عدل وانصاف پر قائم ہونے کی بجائے جبرواستبداد کا مقابلہ کرتے کرتے فنا ہوجاتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ ہمارے معاشرے میں پیش آنے والا ہے۔

قرآن کریم ہر قسم کی حکومت سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس احساس کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ قرآن کریم کی سورةالنساء: 59 میں فرمایا کہ ترجمہ! یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والاہے۔

اس قوم و معاشرہ میں کئی قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں ، ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں مثلاً ہم جتنے بھی گناہ کر لیں جائز، کسی بے گناہ کو قتل کردیں، لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ، عورتوں کی عزتیں لوٹنا، گردے نکال کر بیچ دینا، اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی بستیوں کو آگ لگانا اور ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنا، رشوت و دھوکہ ، امانت میں خیانت کرنا، مدرسوں کے بچوں کے ساتھ زیادتی ، معصوم بچوں بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنا، درگاہوں پر جانے والی عورتوں کو نشہ دے کر اغواء کرنا اور لاتعداد جرائم ہیں۔

اس قسم کے ہر غلط فعل کرنا اس معاشرہ میں راسخ ہو چکا ہے۔ پھر ان واقعات کے بعد کسی مولوی یا پیر سے تعویذ، ٹونہ، وظیفوں اور روحانی علاج کی مدد سے خیال کرنا کہ ہم جنت میں چلے جائیں گے۔ انہی وجوہات کی بناء پر یہ آسمانی عذاب قوم و معاشرہ پر مسلسل آ رہے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ کسی پیر فقیر، مولوی کی بجائے وحدہ لاشریک کے آگے سربسجود ہوں ورنہ پچھلی قوموں کی طرح یہ قوم بھی عبرت کا نشان بن جائے گی ۔ اسلامی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کاش کہ ہماری قوم ان باتوں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والی ہو۔

آئیے خدا تعالیٰ سے گڑگڑا کر توبہ کریں اور معافی مانگیں،  وہ جلدی مان جاتا ہے۔ قرآن میں کئی بار اس کا ذکر آیا ہے۔ وہ بہت رحم کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے اور وہ ماں سے کئی گنا بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے خدا کو راضی کرلو کیونکہ ہم خدا کو ناراض کربیٹھے ہیں۔ سال سے زائد عرصہ ہو چکا آسمانی آفت وبا (کرونا) نے ساری قوموں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

آج ہر مذہبی لیڈر یہی کہہ رہا ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے ہمارے گناہوں کے اعمال ہیں۔  پاکستانی قوم نے تو مفتی طارق جمیل کی امامت میں توبہ استغفار کے لئے دعا بھی کروا دی اور اس میں ساری قوم کو قصوروار ٹھہرا دیا۔ وہ خود بھی آج کل اس وبا میں مبتلاء ہوچکے ہیں اور اپنی بیماری کو لے کر پوری قوم سے التجاء کی ہے کہ یہ وبا اور بلا  ہے، اس سے بچیں۔ ساری دنیا میں کورونا وائرس سے اب تک متاثرین افراد کی تعداد 7 کروڑ ہے اور اموات 16 لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس وائرس کی کئی اور قسمیں نمودار ہو رہی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اب اس کی آگے چل کر کیا صورت ہو گی۔ اس ضمن میں تمام انسانوں کو چاہیے قرآنی تعلیمات اور اسوۂ رسولﷺ  کی طرف رجوع کریں تاکہ اللہ آپ سے راضی ہو اور تمام آفات سے ہمیں پاک کردے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).