عمران خان: متوا وہ تیرے وعدے کیا ہوئے؟


جنرل مشرف کے مارشل لا کے دوران پولیٹیکل پارٹیوں کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا جو گزشتہ کئی فوجی ادوار میں کیا جاتا رہا تھا یعنی ایک پارٹی میں سے دوسری پارٹی نکالی جائے، ایک پارٹی کے کچھ لوگ ایک مخصوص پارٹی میں ڈال کر اس کو مضبوط کیا جائے، صرف ایک سیٹ رکھنے والی پارٹیاں اور مضبوط آزاد امیدواروں کو لالچ دھمکی یا پیار سے قوس قزح (رین بو پارٹی) کے رنگ بھرنے میں مدد دی جائے، جو نظریاتی لوگ اپنی بات پر ڈٹ جانا جانتے ہیں ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ یا تو ملک چھوڑ دیں یا گھروں میں خاموشی سے بیٹھ جائیں۔ ہر دور کے لحاظ سے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی نصاب کو کمزور ترین بنا کر اپنی مرضی کے شاہ دولے کے چوہے بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں، جن کو جب بھی جو بیانیہ دیا جائے وہ اسے عقیدت سمجھ کر قبول کریں۔ گزشتہ 73 سال میں پاکستانیوں کی بہت سی نسلوں نے یہ تماشا دیکھا، لیکن افسوس کہ مداری کی ڈگڈگی کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، چہرے تو بدلتے ہیں لیکن کردار نہیں۔

بیچ بیچ میں اگر کہیں بین الاقوامی پریشر میں جمہوریت کو موقع دینا پڑا تو اس شرط پر کہ وزارت خارجہ، دفاع اور خزانہ منتخب حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں ایک مضبوط سیاسی نظام کیسے بن سکتا تھا جو کسی بھی ملک کے لیے اقتصادی دفاعی اور سیاسی مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے اور ہاں ہم مقامی سطح پر پروپیگنڈا کر کے خود فریبی کا شکار تو رہ سکتے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری میں عزت و احترام کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے (بقول احمد ندیم قاسمی) ”اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے۔“

مشرف کے آخری دنوں میں جب انہیں (بڑوں کو) احساس ہوا کہ ان کا یہ گھوڑا بری طرح پٹ چکا ہے اور ”رین بو پارٹی“ میں اتنی جان بھی باقی نہیں رہی کہ اسے سہاروں کے ساتھ کھڑا کیا جا سکے تو ایک نئے بیانیے اور نئے چہرے کی تلاش شروع ہوئی گزشتہ 73 سال کا سارا گند کرپشن کے الزامات کے ساتھ سیاستدانوں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ پاکستان کا سیاسی نظام ہے (جو ہمیشہ اتنا کمزور اور لولا لنگڑا رہا کہ در حقیقت وجود ہی نہیں رکھتا) ایک ادارے کے علاوہ تمام ادارے کرپٹ ٹھہرے، پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجی گئیں ایک نئی کنگز پارٹی پر انویسٹمنٹ شروع کر دی گئی۔

اچانک خیال آیا کہ 22 سال سے عمران خان (جو بقول ان کے تانگے کی سواریاں لے کر سیاست میں گھوم رہا تھا) ”یہ بندہ تو ایماندار ہے“ تمام ہم خیال سیاستدانوں کو ان کی تعریف پر لگا دیا گیا اور آہستہ آہستہ اس تانگہ پارٹی میں ”قوس قزح“ کے رنگ شامل ہونا شروع ہو گئے۔ سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پورا زور لگا دیا گیا کہ قوم کو اصل بندہ تو اب ملا، اس کی ایمانداری اور عبادات کے قصے دن رات لوگوں میں بھرے گئے یہ سب دیکھ کر شاید کبھی عمران خان بھی سوچتے ہوں کہ اچھا مجھے تو خود معلوم نہیں تھا ”کہ میں کیا چیز ہوں“ ۔

یہاں عمران خان کو اپنی شخصیت اور بولنے کی مہارت کا ایج تھا انہوں نے بھی اس کا خوب استعمال کیا، ان کے منہ میں جو آتا گیا وہ بولتے گئے، (شاید) خود فریبی کے شکار عمران خان نے وعدوں اور قسموں کے انبار لگا دیے مثلاً پہلے سو دن میں تبدیلی، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، سستی بجلی، سستا آٹا، کوئی قرض نہ لینا، آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لوں گا، سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ نہیں کروں گا بلکہ پرائیویٹائزیشن کی بجائے حکومت خود ادارے چلائے گی۔

ان کے اور ان کے حواریوں کے منہ میں جو گیا وہ بولتے گئے اور ان کے سپورٹرز خوشی سے ناچتے گئے، یہ سب ہوگا کیسے؟ اس کا ادراک انہیں قطعاً نہیں تھا۔ جیسے ہی ان کو اقتدار ملا تو انہیں احساس ہوا کہ باتیں کرنے اور کام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، پہلے چند مہینوں میں ہی ان کا ”ٹرمپ کارڈ“ اسد عمر بری طرح فلاپ ہو گیا اور مجبوراً اسے گھر بھیجنا پڑا، انتہائی بھونڈے انداز اور جلدی میں لائیو سٹاک سے متعلقہ چھوٹی قرضوں کی سکیمیں اناؤنس کی گئیں جو صرف مذاق کا نشانہ بنیں اور کبھی گراؤنڈ پر نہ آ سکیں، حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ لگا دیا گیا جو پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے، پہلے بیانیہ آیا کہ پچھلی دو سیاسی حکومتوں نے اتنی کرپشن اور گند ڈالا ہے کہ اس کو فوراً ٹھیک کرنا ہمارے بس میں نہیں (جب کہ موجودہ حکومت میں بیشتر افراد پچھلی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں) اور آج کل یہ کہ 73 سال کا گند ہے ہم کیسے صاف کریں، بس دس سال ہمیں اقتدار میں رہنے دیں پھر دیکھیں ”کیسے تارے زمین پر آتے ہیں“۔ پنجابی کی کہاوت ہے ”جیڑا ایتھے بھیڑا او لاہور وی بھیڑا“ یعنی جو یہاں کچھ نہیں کر سکا وہ وہاں بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

آج کی تاریخ میں آٹا سوفیصد مہنگا، چینی سو فیصد مہنگی، بجلی سو فیصد مہنگی، سرکلر ڈیٹ دوگنا، آئی ایم ایف کے پاس دوسری دفعہ جا رہے ہیں، خارجی امور اور کشمیر کے مسئلے پر ناکامیاں، ہر چیز بڑھی ہے سوائے غریب اور مڈل کلاس کی قوت خرید کے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جتنی زمینی، ہوائی اور خلائی سپورٹ عمران خان کو تھی اگر وہ یہ سب بے ہنگم وعدے نہ بھی کرتے تو انہوں نے وزیر اعظم تو پھر بھی بن جانا تھا، شاید ہوا بھرنے والوں نے اتنی ہوا بھری کہ انہیں خود بھی لگنے لگا ”کہ اب ملا ہے اصل ہیرا“

لیکن وہ لوگ جو عمران خان کے عشق میں مبتلا اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار تھے اور ان کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے انہیں اپنا نجات دہندہ اور ہیرو مان بیٹھے تھے وہ آج بھی عمران خان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں ”کہ متوا۔۔۔ وہ تیرے وعدے وہ ارادے کیا ہوئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).