2020 کا اختتام اور ایران امریکا تعلقات


ایران کے جوہری سائنس داں محسن فخری زادے کے قتل کے بعد ایک بار پھر ایران اور امریکا کے تعلق زیربحث آ گئے ہیں۔ گوکہ ایران نے اپنا ردعمل ظاہر کرنے کا عزم کیا ہے مگر اس سے زیادہ اہم سوال یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ ایران کے اندر ایک حملہ کر کے اتنے بڑے شخص کو ہلاک کر دیا جائے اور ایران کی دفاعی حکمت عملی اپنے اتنے بڑے اثاثے کو بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو جائے۔

محسن فخری زادے کو تہران کے نواح میں ایک ریموٹ کنٹرولڈ مشین گن کے ذریعے فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ مشین گن ایک کار پر نصب تھی۔ اس حملے کے فوراً بعد ایرانی اعلیٰ حکام نے اسرائیل پر اس حملے کا الزام دھرا اور ولایت فقیہہ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

حملے کی تفصیلات کے بارے میں متضاد اطلاعات ملی تھیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وہ اپنے خاندان کے ساتھ گولیوں سے محفوظ بکتربند کار میں جا رہے تھے کہ گولیاں چلنے کی آواز آئی جس پر محسن فخری زادے اپنی کار سے باہر نکلے توایک اور کار نے ان پر فائرنگ کر دی۔

محسن فخری زادے ایرانی وزارت دفاع کے تحت تحقیقی ادارے کے سربراہ تھے اور ایران کے سب سے نمایاں سائنس دان ہونے کے علاوہ پاس داران انقلاب کے رکن بھی تھے۔

یاد رہے کہ 2020ء کے شروع میں ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی پابندی نہیں کرے گا اور اس طرح 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے کا بھی احترام نہیں کرے گا جو کہ ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔ اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے یہ بھی بتایا کہ محسن فخری زادے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایران کی پہلی مقامی ٹیسٹنگ کٹ بنانے میں مصروف تھے۔

محسن فخری زادے کے قتل کے محرکات کئی ہو سکتے ہیں جن میں سب سے اہم تو غالباً یہی ہے کہ اب امریکا میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد جو نسبتاً خوش گوار فضا پیدا ہوئی تھی اسے متاثر کیا جائے۔ جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما کے دور میں ہونے والے معاہدے میں امریکا کو دوبارہ شامل کریں گے، کیوں کہ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے نکل کر امن کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

ایران سمیت باقی دنیا یہ توقع کر رہی تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ اس پورے خطے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گی اور اس کے بعد ایران اور امریکا کے تعلقات اس نسبتاً بہتر سطح پر پہنچ جائیں گے جہاں صدر اوباما نے اپنی کوششوں سے 2015ء میں پہنچا دیے تھے۔

ظاہر ہے کہ ایران اور امریکا تعلقات میں ذرا سی بھی بہتری نہ اسرائیل کے مفاد میں ہے اور نہ خلیج کے عرب ممالک اس بہتری کے خواہاں ہیں اس لیے اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کی کوشش یہی ہوگی کہ ایران امریکا تعلقات میں کشیدگی برقرار رہے۔

محسن فخری زادے کے قتل کے پیچھے ایک اور محرک یہ بھی ممکن ہے کہ ایران کو فوری ردعمل پر اکسایا جائے تا کہ ایران اسرائیل اور عرب ممالک کے خلاف کارروائی کرے یا پھر کم از کم ایسے بیانات دے جس سے امریکا میں موجود ایران دشمن لابی کو یہ موقع مل جائے کہ وہ جو بائیڈن پر دباؤ ڈال کر باہمی کشیدگی برقرار رکھیں۔ اسی دوران یمن میں حوثی باغیوں نے بحیرۂ احمر کے قریب جدہ میں سعودی تیل کمپنی آرام کو کی تنصیب پر حملہ کیا جس پر ایران میں سخت گیر اخبارات نے اسے ”قدس میزائل“ کا کارنامہ قرار دیا جو ایران کا تیارکردہ میزائل ہے۔

حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب نے یمن کو اپنی نیابتی یا پراکسی جنگ کا میدان بنایاہوا ہے۔ پہلے ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل نے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کیا اور اس وقت کی حکومت کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جس نے جنوبی یمن میں اپنا ٹھکانہ بنا کر عدن سے حکومت شروع کی لیکن اس طرح یمن ایک بار پھر شمالی اور جنوبی حصوں میں بٹ گیا۔

شمالی یمن پر ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل کے قابض ہونے کے بعد ایران اور متحدہ عرب امارات نے جنوبی یمن سے فوجی کارروائی کا آغاز کیا، اس طرح ایران اور عرب ممالک ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہو گئے۔ اب محسن فخری زادے کے قتل کے پیچھے صدر ٹرمپ کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے جو جاتے جاتے بھی ایران کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تا کہ ان کے دوست اسرائیل اور عرب ممالک ان سے خوش رہیں۔ 2020ء کے اوائل میں صدرٹرمپ نے عراق میں ایران کے ایک اور بڑے فوجی رہنما جنرل قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرایا تھا جو اقوام متحدہ کے مطابق ایک غیرقانونی حملہ تھا۔

یمن کی طرح عراق بھی اس وقت ایران اور امریکا کے درمیان اثر و نفوذ کی رسہ کشی کا شکار ہے۔ 2003ء میں جب امریکی صدر جارج بش جونیئر نے عراق پر قبضہ کرنے کے لیے جھوٹے الزامات کا سہارا لیا تھا اسی وقت معلوم ہو گیا تھا کہ امریکا اس پورے خطے کو سنی شیعہ اختلافات کی نذر کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ ایران کے بعد عراق کی شیعہ اکثریتی آبادی نے جو عراقی حکومت قائم کی وہ کسی طرح بھی عرب ممالک کے مفاد میں نہیں تھی اور خلیجی عرب ممالک اسے شیعہ اثر میں اضافے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

اسرائیل اور امریکا دونوں نہ صرف قاسم سلیمانی کے بارے میں بلکہ محسن فخری زادے کے بارے میں بھی اس سے قبل الزامات لگا چکے تھے جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہی ہیں۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ بائیڈن کی صدارت میں بھی امریکا اسرائیل کا دم بھرتا رہے اور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایران پر دباؤ برقرار رکھے مگر بائیڈن کے نامزد کردہ وزیر خارجہ انٹونی بلینکن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے زبردست حامی ہیں اور اسے اس خطے میں قیام امن کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیتے رہے ہیں۔ بلینکن اس سے قبل 2015ء سے 2017ء کے دوران میں نائب وزیر خارجہ اور 2013ء سے 2015ء تک صدر اوباما کے قومی سلامتی کے نائب مشیر رہ چکے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے نامزد وزیر خارجہ بلینکن خود بھی یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا ایران کی طرف نرم گوشہ ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح بلینکن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فلسطین کے بارے میں بھی سخت گیر رویے کے حامل نہیں ہیں اور صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی حمایت کے خلاف تھے لیکن بائیڈن واضح الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس منتقلی کی مخالفت نہیں کریں گے۔

ایران کا مغربی طاقتوں سے جوہری معاہدہ 2015ء سے 2018ء تک صرف تین سال چل سکا تھا جس کے بعد ٹرمپ نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ان تین برسوں میں ایران نے نسبتاً سکون کا سانس لیا تھا اور دیگر مغربی ممالک نے بھی ایران کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات بہتر کرنا شروع کر دیے تھے۔ اب ایسے میں ایران کو محتاط طریقے سے چلنے کی ضرورت ہے۔ اول تو اسے عراق اور یمن میں اپنے اثر کوبڑھانے کی کوششیں ترک کرنا چاہئیں تا کہ عرب ممالک کسی خطرے کا شکار نہ ہوں۔

ایران کو اسی خطے میں رہنا ہے تو اس خطے کے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو چھوڑنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ایران کو بلاوجہ اپنے جوہری پروگرام پر اپنے وسائل ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ جوہری ہتھیار صرف دکھاوے کے ہوتے ہیں انہیں آج کے دور میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کا ایٹم بم نہ بھارت کو کشمیر کے الحاق سے باز رکھ سکا اور نہ عام ہتھیاروں پر اخراجات کم ہو سکے، اس لیے ایران کو اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).