خوف و خدشات سے عبارت برس


دو طبی نفسیاتی کیفیات Hypochondriac اور Thanatophobic کا ایک حد تو اطلاق بہت زیادہ لوگوں پر ہوتا ہے لیکن میں ان کم لوگوں میں سے ہوں جن پر زیادہ ہوتا ہے۔ پہلی کیفیت میں وہ امراض جن کے بارے میں کوئی جان لے، خود کو ان میں مبتلا پاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو مرض کی علامات کو بھی اس انداز میں خود پر طاری کرلیتا ہے کہ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو یقین ہونے لگتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے غیر مریض مریضوں کے کئی بار ماہر جراح آپریشن بھی کربیٹھے مگر مرض تھا ہی نہیں۔ دوسری کیفیت موت کے خوف سے متعلق ہے اس میں ”میں مر جاؤں گا“ سے ”میں کہیں مر نہ جاؤں“ اور ”میں مر سکتا ہوں“ تک کی سوچ اختیار کرنا شامل ہے۔

عرف عام میں اسے وہم کہیں گے اور اس کیفیت کے شکار شخص کو وہمی لیکن اس طرح کا ٹھپا لگا دینا بہت سادہ بات ہے۔ ایسے لوگ یا تو بہت حساس ہوتے ہیں یا بہت تخیل پسند۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص کسی مرض کے بارے میں جانتا ہی نہ ہو اور اس کی علامات خود پر طاری کر لے ہاں البتہ موت کے بارے میں سب جانتے ہیں اور سب ڈرتے ہیں، وہ بھی جن کہ دعوٰی ہو کہ وہ مرنے سے بالکل نہیں ڈرتے۔

یہ برس تو ویسے بھی مرض و موت سے بھرپور رہا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ نئے Novel کورونا سے اگر خائف نہیں تو وہ لوگ جو طب سے ناآشنا ہیں۔ سائنس اور خاص طور پر طب سے وابستہ اور شناسا لوگ اس عالمی وبا کی اذیت اور ہلاکت خیزی دونوں سے آگاہ ہونے کے سبب ڈرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو دوسروں کا خیال رکھے جانے کی خاطر پیشہ ورانہ خدمات سے جڑا رہنا ہوتا ہے۔ سینکڑوں ایسے لوگ فی الواقعی اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔

اس مرض کے خلاف کئی ویکسینیں تیارہوچکی ہیں جن کے 62 سے 95 فیصد موثر ہونے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ان کے بارے میں غلط باتیں کی گئی ہیں۔ افواہیں اڑائی گئی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ سائنس سے وابستہ لوگ ویکسین سے متعلق افواہوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں۔ آخر انسان ہیں۔ ویکسین ظاہر ہے 5 سے 38 فیصد تک موثر نہیں ہے۔ ویسے بھی نئے سال کے اختتام تک دنیا کی بیشتر آبادی کو ویکسین لگائے جانے تک وہ تینوں حفاظتی اقدامات لیے جاتے رہنا ہوگا جن کے بارے میں آج کم و بیش دنیا کی ساری آبادی جانتی ہے یعنی کثرت سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال اور ایک دوسرے سے جسمانی دوری قائم رکھنا۔

چونکہ ویکسین بالکل نئی ہیں اور یکسر نئی وائرس کے خلاف اس لیے اس کے اثرات مثبت اور منفی جانتے جانتے بھی وقت لگے گا۔ زکام ہونے سے الرجی کے دوسرے اثرات اوریک لخت شدید ردعمل یعنی Anaphylactic shock ہونا تک تمام کیمیائی ادویہ سے ممکن ہے چنانچہ اس ویکسین سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دوسری شدید کیفیت ابھی تک Pfizer کی ویکسین سے ہوئی رپورٹ ہوئی ہے مگر اس کا شکار امریکی ڈاکٹر جانبر ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر ہونے کے ناتے چاہے غیرعملی ہی سہی میں ویکسین لگوانا بہت مقدم خیال کرتا ہوں اسی لیے جونہی حکومت روس کی جانب سے تمام لوگوں کو ویکسین لگانے کی اجازت دینے کا 28 دسمبر 2020 کی رات اعلان کیا گیا تو میں نے فوراً اپوائنٹمنٹ آن لائن لینے کی کوشش کرنی شروع کر دی تھی۔ ہر بار سائٹ پہ رش کی وجہ سے جام ہونے کی اطلاع سامنے آتی۔ بالآخر 30 دسمبر 2020 کو فون پر 4 جنوری 14:48 کا وقت مل گیا کہ فلاں پولی کلینک پر آ کے ٹیکہ لگوا لیں۔ اپنا پاسپورٹ (شناختی کارڈ) اور ہیلتھ انشورنس کارڈ لانا مت بھولیں، ہم آپ کے منتظر ہوں گے۔ اتنی قریبی تاریخ طے ہونے سے یہی لگا کہ بہت کم لوگ رجوع کر رہے ہیں۔

اب مجھ پر شروع میں بیان کردہ دونوں کیفیات طاری ہونے لگیں کیونکہ زکام کی صورت میں ویکسین نہیں لگائی جاتی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے زکام ہو چکا ہے۔

میں چونکہ چاہتا تھا کہ گیمالیا انسٹیٹیوٹ کی ویکسین Sputnik V، جو بنیادی طورپرعام زکام کی وائرس Adenovirus کے ساتھ سائنسی کھلواڑ کر کے بنائی گئی ہے، کی بجائے Vector کی تیار کردہ EpiVac Corona لگواؤں جو کورونا کے کورونا یعنی تاج میں مڑھی پروٹینز کو نقلی طور پر تیار کر کے بنائی گئی ہے مگر وہ ابھی میرے لیے مخصوص پولی کلینک میں دستیاب نہیں ہو سکی ہے چنانچہ اول الذکر پر اکتفا کرنا ہوگا۔ اب مجھے دوسری کیفیت نے آ لیا کہ کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے۔

آج صبح میں کسی نئی کتاب کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی آپ بیتی کا پہلا حصہ پڑھ رہا تھا اس میں ہمارے اناٹومی کے پروفیسر ڈاکٹر نواب کا ذکر آیا، جو غالباً حیات نہیں ہوں گے یا ہوں بھی مگر مجھے یہی لگا کہ وہ عالم بالا میں ہیں۔ ان سے شدید لگاؤ محسوس کرتے ہوئے میرے دل میں آیا ”السلام علیکم سر، آپ سے جلد ملاقات ہوگی“ اور یہ سوچ کر کے میں ڈر گیا۔ یہ ڈر ہمارے اندر ہے یعنی معدوم ہوجانے کا ڈر۔ موجود نہ رہنے کا ڈر جو اپنے جانے کے بعد دوسروں کے جیتے رہنے پر رشک کے ساتھ ساتھ حسد بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).