نا سمجھ کی ایک اور ناسمجھی


پاکستانی کی تاریخ نے اس کو کئی جمہوری اور آمر حکمران دیے، کچھ ملک کے لیے اچھے ثابت ہوئے تو کچھ نے عوام کے ساتھ وہ ظلم کیا جو شاید دشمن کے ساتھ کرتے ہوئے بھی انسان کتراتا ہو لیکن یہ بڑی ’ہمت‘ کی بات ہے کہ کوئی اپنی حکومت کے دو سال میں ہی اپنی نالائقی کا خود ہی اعتراف کر لے لیکن اس ہمت کا آخر اس قوم نے کیا کرنا جب ملک میں بے روزگاری کا راج ہو اور غریب تو مزید غریب ہو ہی ، امیر بھی غریب ہونا شروع ہو جائے۔

اس ملک پر اب ایسا وقت آن پڑا ہے جس سے باہر نہ جانے یہ کب نکل پائے گا۔ ہماری پیاری حکومت کی جانب سے مخالفین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جانے لگیں ہیں۔ پی ڈی ایم کی ناکام تحریک میں پھر جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ کوشش اپوزیشن کی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ہمارے اس حکومت کے ایک رکن جو کہ ملک کے نامور قانون دان بھی ہیں، انھوں نے ایک بیان دیا جس پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا جائے گا جس کے بعد انہیں لازمی طور پر پاکستان آنا ہو گا لیکن میرے قابل ماہر قانون دان نے نہ جانے قانون کی کون سی کتاب پڑھی تھی کہ اس قسم کا بیان دے دیا۔ اس نا تجربہ کار حکومت نے یہاں بھی اپنا مذاق بنوایا۔ جاننا چاہیے کہ برطانیہ کے قانون کی رو سے پاسپورٹ منسوخ ہو جانے کی صورت میں بھی اگر وہ شخص اپنی بالغ اولاد پر منحصر ہو تو اس کو رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر حکومت حقیقت میں میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو دیگر قانونی راستوں کو اپنانے سے اب تک کیوں گریزاں ہے؟ مثال کے طور پر بھارت نے حال ہی میں ایک شخص کو اس لیے برطانیہ سے واپس بلوایا کہ بھارت کی عدالتوں نے اس شخص کو کرپشن اور دھوکہ دہی کہ جرم میں مجرم ٹھہرایا ہوا تھا، ٹھیک اسی طرح میاں نواز شریف بھی تو پاکستان کی عدالتوں کے فیصلے کی روشنی میں مجرم ہیں اور ان کو واپس بلانے کے لیے حکومت مناسب راستہ اپنانے کی بجائے ایسے راستے جو کہ قانون اور انسانی عقل کے خلاف ہیں کیوں اپناتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).