نظریہ پاکستان کی مخالفت کا الزام: حیدرآباد سازش کیس کی حقیقت کیا تھی؟


وقت بدل چکا تھا اور اب سال بھی بدلنے والا تھا۔ قیدی سوچتے تھے کہ ماہ و سال کی گردش کی طرح ان کے حالات بھی کبھی بدلیں گے کہ نہیں؟ بس، یہی ادھیڑ بن جاری تھی کہ ایک صبح جیل کے حکام کو مستعد پایا، معلوم ہوا کہ کسی خاص شخصیت کی آمد آمد ہے، آنے والا کون ہو سکتا ہے اور اس کی آمد کا مقصد کیا ہو گا۔

انہی سوالوں اور اندازوں کے دوران جنرل جہاںزیب ارباب، کمانڈر فائیو کور و مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سندھ کی آمد کی خبر ہوئی۔ اس سے پہلے کہ قیدی آنے والے کے بارے میں کوئی اندازہ لگاتے تھے، وہ خود ان کے احاطے میں داخل ہو گئے، حال احوال لیا اور یہ جا وہ جا۔

ابھی یہ دورہ پرانا نہیں ہوا تھا کہ پتا چلا کہ جنرل ضیاالحق کی آمد بھی متوقع ہے۔ جلد ہی وہ بھی آن پہنچے اور سپرنٹینڈنٹ کے دفتر میں حیدرآباد سازش کیس میں قید 55 ملزمان میں سے چار کو شرفِ ملاقات بخشا۔ جن قائدین کی چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات ہوئی، ان میں کالعدم نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سربراہ خان عبد الولی خان، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیربخش مری شامل تھے۔

نواب صاحب خاموش طبع لیکن بھاری بھرکم شخصیت رکھنے والے بزرگ تھے۔ وہ سفید کھدر کے کرتے پاجامے میں ملبوس لمبے لمبے ڈگ بھرتے سپرنٹینڈنٹ کے دفتر میں داخل ہوئے تو جنرل ضیا نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔ ان کے سینے پر لینن کی تصویر والا بڑا سا سنہری بیج چمک رہا تھا، اس منظر نے ان کے اور ملنے والے کے درمیان جھجھک کی دیوار کھڑی کر دی۔

جنرل ضیا کو اور کچھ نہ سوجھا تو ان کے خلاف مقدمات اور قید و بند کے دوران زحمت پر ان سے معذرت کی تو نواب خیر بخش مری نے خاموشی کے ساتھ ان کی بات سنی اور بڑی لاتعلقی کے ساتھ جواب دیا: ‘سیاست میں تو اس طرح ہوتا ہے، آپ پریشان نہ ہوں’۔

یوں رسمی دعا سلام کے بعد دو ایک منٹ میں یہ ملاقات نمٹ گئی ورنہ اس سے قبل ہونے والی ملاقاتیں نسبتاً طویل رہی تھیں اور مذہبی معاملات پر روانی سے گفتگو کرنے والے جرنیل نے اس موقع کو بھی خالی نہیں جانے دیا تھا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قائدین سے کہا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ مستقبل کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تعمیر میں ان کا کردار غیر معمولی ہو گا۔

جنرل ضیا کے اس پسندیدہ موضوع کے علاوہ ان ملاقاتوں میں دو مزید اہم نکات بھی سامنے آئے۔ قیدیوں کو انھوں نے بتایا کہ حیدرآباد سازش کیس اور اس مقدمے کی سماعت کے لیے ٹربیونل سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، یہ سب بھٹو صاحب کی وجہ سے ہوا۔ جنرل صاحب کی بات میں کتنا وزن تھا، اس کے بارے تو کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس مقدمے کے اہم کردار افراسیاب خٹک بتاتے ہیں کہ 1977 کے انتخابات سے قبل متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) کے قائدین مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان نے وزیر اعظم بھٹو سے ملاقات کی تھی اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کو ایک اچھے اور بااعتماد ماحول میں منعقد کرانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ حیدرآباد ٹربیونل ختم اور قائدین کو رہا کردیں۔

بھٹو صاحب نے اس موقع پر یو ڈی ایف کے قائدین سے کہا کہ وہ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں لیکن فوج نہیں مانتی۔ اس کے بعد انھوں نے جنرل ضیاالحق کو طلب کیا جو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جیلانی کے ہمراہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔ بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ یہ قائدین چاہتے ہیں کہ نیپ کے قائدین کو رہا کر دیا جائے۔ یہ سن کر جنرل ضیا نے کہا ‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ ایسے محب وطن قائدین بھی ایسے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جن پر نہایت سنگین الزامات ہیں’۔

اس موقع پر انھوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ اگر وہ مقدمہ ختم نہ کیاجاتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی پیش نہ آتا۔ اس موقع پر جنرل جیلانی نے نقشوں کی مدد سے یو ڈی ایف کے قائدین کو نیپ کی قیادت اور بلوچستان کی صورت حال کے متعلق بریفنگ دی جس کے بعد حزب اختلاف کی قیادت نے خاموشی اختیار کر لی۔

مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ‘ اور لائن کٹ گئی’ میں لکھا ہے کہ اس موضوع پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان انتخابی دھاندلی کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں بھی حزب اختلاف کو بریفنگ دی گئی تھی۔ مولانا کوثر نیازی کے بیان سے افراسیاب خٹک کے بتائے ہوئے واقعے کی تصدیق ہوتی ہے، تاہم جنرل ضیا نے یکم جنوری 1978ء کو ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم بھٹو نے مذاکرات کے دوران جب حزب اختلاف کے قائدین سے اُن کی ملاقات کرائی تو اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔

خیر، وہ معاملہ بقول جنرل ضیا جس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں تھا، اب اس کی نوعیت بدل رہی تھی۔ اس ملاقات کے کچھ ہی دنوں کے بعد یعنی یکم جنوری 1978 کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے نیشنل ڈیفنس کالج(موجودہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی) کے ہال میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حیدرآباد ٹربیونل توڑنے اور قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ اس طرح ایک ایسا مسئلہ جس کی وجہ سے کئی برسوں سے ملک میں کشیدگی پائی جاتی تھی، حل ہو گیا۔

حیدرآباد سازش کیس کی حقیقت کیا تھی؟

حیدرآباد ٹربیونل کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ حیدرآباد سازش کیس کی حقیقت کیا تھی اور اس میں کن کن لوگوں کو کس انداز میں شامل گیا گیا۔

اس مقدمے کو دو واقعات نے بنیاد فراہم کی تھی، ایک واقعے کا تعلق بلوچستان سے ہے جہاں سردار عطا اللہ مینگل کی قیادت میں نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد فوجی آپریشن اور اس کے خلاف مسلح مزاحمت کے واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات کی وجہ سے صوبے کے کئی اہم قائدین گرفتار کر لیے گئے تھے جن میں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور بہت سے دیگر رہنما شامل تھے۔ اس مقدمے کو دوسری بنیاد 8 فروری 1975 کو اس وقت فراہم ہوئی جب صوبہ سرحد( موجودہ خیبر پختونخوا) کے سینیئر وزیر حیات محمد خان شیرپاؤ ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیے گئے۔ اس واقعے کے فوری بعد حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کر دی اور ملک بھر سے نیپ کے راہنماؤں کی بڑی تعداد گرفتار کر لی گئی۔

حکومت نے نیپ پر پابندی کے فورا بعد سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت پاکستان کی سالمیت پر یقین نہیں رکھتی اور چار یا پانچ قوموں کا پرچار کرنے کے علاوہ آزاد پختونستان اور گریٹر بلوچستان کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔ نیپ پر یہ الزام بھی لگا کہ یہ جماعت نظریہ پاکستان پر بھی یقین نہیں رکھتی اور قائد اعظم کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوتی رہتی ہے اور جب اس جماعت کی سرحد اور بلوچستان میں حکومت قائم تھی تو اس موقع پر اس کے رہنماؤں نے وفاق کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیار کیا، قبائلی عوام کو پاکستان کے خلاف اکسایا اور انھیں حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی ترغیب دی۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات کے لیے بھی نیپ اور اس کی قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

اس ریفرنس کی سماعت کے دوران نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان نے عدالت میں 139 صفحات پر مشتمل طویل بیان دیا جس میں ان کا وہ معروف جملہ بھی شامل تھا، ان کے سیاسی نظریات کا ذکر کرتے ہوئے جس کا ہمیشہ ذکر کیا جاتا ہے، انھوں نے کہا تھا ‘میں چھ ہزار سال سے پختون، ایک ہزار سال سے مسلمان اور 27 برس سے پاکستانی ہوں’۔

ولی خان نے اپنے بیان میں پاکستان کے ساتھ مکمل وفاداری اور اس کی جغرافیائی سرحدوں پر مکمل یقین کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور ’ملک کو بھٹو کی آمریت سے بچانے کے لیے کام کرر ہے ہیں کیونکہ وزیراعظم ملک کو ‘ون مین سٹیٹ’ بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے والد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا 1964ء سے اور اجمل خٹک کا ملک سے چلے جانے کے بعد سے نیپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ نیپ کے خلاف لگائے گئے الزامات انفرادی طور پر بعض شخصیات کے خلاف تو ہو سکتے ہیں لیکن پارٹی کی پالیسی اور اس کی قیادت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

نیپ کے دیگر رہنماؤں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور صوبہ سرحد کے سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل سمیت دیگر قائدین کے بیانات بھی کم وبیش ایسے ہی تھے۔ بلوچستان کے راہنماؤں نے بلوچستان کی بغاوت کے سلسلے میں بھی حکومت کے الزامات کی تردید کی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمٰن، جسٹس یعقوب علی، جسٹس انوار الحق اور جسٹس گل محمد پر مشتمل فل بینچ نے 30 اکتوبر 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کی توثیق کے بعد نیپ اور اس کے قائدین جیل میں بند کر دیے گئے۔ افراسیاب خٹک کے مطابق کچھ عرصے کے بعد جب خود ان کے وکلا اور گرفتار قائدین کی رہائی کے لیے کوششیں شروع ہوئیں تو بعض ججوں نے ان کے وکلا کو ذاتی حیثیت میں بتا دیا کہ گرفتار قائدین کی ضمانت پر رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ حکومت ان لوگوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا سوچ رہی ہے۔

مختلف ذرائع سے جس مقدمے کے بارے میں سن گن مل رہی تھی، حکومت نے اس کا باقاعدہ اعلان مارچ 1976 کو کیا اور ملک کے مختلف حصوں میں بند کارکنوں اور راہنماؤں کو حیدرآباد جیل پہنچا دیا گیا جہاں ان قیدیوں کو تین مختلف احاطوں میں اکٹھا رکھا گیا۔ ان میں ایک احاطہ پھانسی گھاٹ کے سامنے تھا جس میں افراسیاب خٹک، شیر محمد مری عرف جنرل شیروف، حبیب جالب، نیپ پنجاب کے سیکریٹری جنرل سید قصور گردیزی اور بعض دیگر قائدین کو رکھا گیا۔

دو تین روز کے بعد حیدرآباد جیل کے اسی تاریخی ہال میں ٹربیونل نے جسٹس اسلم ریاض حسین کی صدارت میں مقدمے کی سماعت شروع کی جس میں 1951 میں راولپنڈی سازش کیس کی سماعت کی گئی تھی۔ جج صاحبان اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھے تو اس موقع پر کئی دلچسپ واقعات ہوئے، ججوں کے بیٹھتے ہی ولی خان اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘ آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر مایوسی ہوئی، ہم سمجھتے تھے کہ جج ہمیں انصاف دیں گے لیکن حکمرانوں نے تو آپ کو ہماری طرح جیل بھیج دیا، اس مشکل میں ہمیں آپ کے ساتھ ہمدردی ہے۔’

ولی خان کے اس بیان سے عدالت میں قہقہے بلند ہو گئے۔ ان کی تقریر سن کر حبیب جالب کو بھی آمد ہوئی اور انھوں نے فی البدیہہ ایک شعر کہا

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں

ہمیں انصاف کیا دیں گے

اسی قید کے دوران حبیب جالب نے ایک اور تاریخی قطعہ بھی کہا جو ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں ہے

کون کہتا ہے، اسیروں کی رہائی ہوگی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے

ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی

ٹربیونل کی سماعت نہایت سست رفتاری کے ساتھ ہوئی۔ اسی طرح ایک سال بیت گیا۔ ٹربیونل کے قیام کی پہلی سالگرہ کے دن بھی ولی خان کے خطاب سے دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی۔ جج صاحبان جیسے ہی عدالت میں آ کر بیٹھے، ولی خان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور انھوں نے کہا ‘یہ تو سیدھا سیدھا حساب کا کھیل ہے’۔

ان کے اس جملے پر لوگ، خاص طور پر جج صاحبان چونکے اور سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو ولی خان بولے ‘ایک سال میں صرف پانچ گواہ ہی بھگتائے جا سکے ہیں۔ جس رفتار سے یہ مقدمہ چل رہا ہے، اس میں دو تین سو سال تو لگ ہی جائیں گے کیونکہ حکومت کے گواہوں کی تعداد 500 ہے، 500 گواہ ہماری طرف سے بھی آئیں گے۔ 40،30 سال بحث پر لگ جائیں گے۔ آپ ایسا کریں ، بھٹو سے کہیں کہ کہیں سے آب حیات لاکر خود بھی پیے، آپ (ججوں) کو بھی پلائے اور ہمیں بھی تاکہ جب فیصلے کا دن آئے تو ہم سب زندہ ہوں’۔

ان کی اس بات پر عدالت میں قہقہے بکھر گئے۔

ٹربیونل کی سماعت کے دوران ہلکی پھلکی باتیں اکثر ہوا کرتی تھیں لیکن اکثر اوقات حکومت کی سبکی بھی ہو جاتی۔ اس کا پہلا موقع اس وقت آیا جب ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، اس موقع پر دیگر تمام ملزمان نے الزامات کی تردید کی لیکن نواب خیر بخش مری نے اپنی عادت کے مطابق خاموشی اختیار کی۔ اس طرح مقدمے کی کارروائی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تو حکومت نے اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر آرڈیننس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی ملزم جواب نہ دے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ صحت جرم سے انکار کرتا ہے۔ اس طرح صورت حال سے نمٹنے کے لیے آرڈیننس کا نفاذ عدالتی تاریخ کی واحد مثال ہے۔

نواب مری:’بلوچ مسلح جدوجہد کے معمار’

نواب خیر بخش مری عدالت میں صرف ایک بار ہی بولے اور انھوں نے ججوں کو مخاطب کرکے کہا ‘آپ یہ نہ کہیں کہ آپ غیر جانبدار ہیں، آپ اس نظام کے ملازم ہیں اور اس کے دفاع پر مامور ہیں جب کہ ہم اسے بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارے مقدمے کا فیصلہ عوام کریں گے، آپ نہیں کر سکتے بالکل ایسے ہی جیسے چیانگ کائی شیک ماؤزے تنگ کو مجرم سمجھتا تھا جب قوم نے انھیں جدید چین کا بانی قرار دیا۔‘

خیر بخش مری
نواب خیر بخش مری عدالت میں صرف ایک بار ہی بولے

ملزمان پر جب یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں تو اس موقع پر ان کے وکیل غلام نبی میمن نے نکتہ اٹھایا کہ قانون کی کسی کتاب میں نظریہ پاکستان کو نہ ماننا جرم قرار نہیں دیا گیا۔ ان کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کرنے پر عدالت نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو طلب کر لیا اور ان سے سوال کیا کہ نظریہ پاکستان کو نہ ماننا کیسے جرم ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور یہ ایک سیاسی سوال ہے، لہٰذا وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ یوں فرد جرم سے نظریہ پاکستان کو نہ ماننے کا الزام ازخود اور غیر اعلانیہ طور پر خارج ہوگیا۔

افراسیاب خٹک پر جو لگائے گئے الزامات بھی دلچسپ تھے، ان پر ایک الزام یہ تھا کہ انھوں نے کسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طلبہ کے مسائل حل نہ کیے گئے تو ہم اس ملک میں مارشل لاؤں کی روایت پر چلتے ہوئے طلبہ کا مارشل لا لگا دیں گے۔

ان پر ایک اور الزام تھا کہ وہ ایک ایسا پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے پائے گئے جس میں لکھا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام پختونوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا اور اس جگہ کا نام رکھا جائے گا، پختونستان۔ عدالت نے پوچھا کہ اس پمفلٹ کا مصنف کہاں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ تو قیدیوں میں شامل نہیں ہے، یوں ان کے خلاف الزام بھی کمزور ہو گیا اور دیگر ملزمان سے قبل ہی ان کی ضمانت ہو گئی۔ (یہ واقعہ جنرل ضیاالحق کے جیل کے دورے کے بعد پیش آیا تھا)۔

افرسیاب خٹک کے مطابق بعد میں جب جنرل ضیا کے مارشل لا کی مخالفت کی وجہ سے وہ اور پیپلز پارٹی کے جنرل نصیراللہ بابر کوئٹہ جیل میں اکھٹے ہوئے تو انھیں بتایا گیا کہ انھیں اس کیس میں اس لیے پھنسایا گیا تھا کہ وہ ایجی ٹیشن بہت کرتے ہیں، اسی طرح ایک وکیل کو اس لیے پکڑا گیا کہ وہ نیپ کے قیدیوں کی رہائی کے لیے فوراً عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

‘معاملات میں آخر اتنا بگاڑ پیدا ہوا کیسے؟’

اس سوال پر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ ’ایسا نظریاتی سے زیادہ ثقافتی اختلاف کی وجہ سے ہوا تھا۔ حزب اختلاف، خاص طور پر نیپ کی قیادت بھٹو صاحب کی مخالفین کی تذلیل کی عادت کو ناپسند کرتی تھی، بھٹو صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ یہ طرز عمل خود ان کے لیے نقصان کا باعث ہے چناںچہ جو لوگ ان کا تختہ الٹ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ اس خلیج کو گہرا کرتے چلے گئے۔‘

‘بھٹو اور نیپ کی لڑائی کو بگاڑنے میں دو فریقوں کا کردار بہت اہم ہے، ایک اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان۔ حیات شیرپاؤ یہ جانتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ بھٹو صاحب ان کی باتوں میں نہ آجائیں’۔

باچا خان اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے افغانستان سے پاکستان پہنچے تو بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ ان سے ملاقات کریں، اس مقصد کے لیے انھوں نے حیات محمد خان شیرپاؤ سے مشورہ کیا تو انھوں نے بھی تائید کی لیکن خان قیوم نے بھٹو صاحب کے کان بھر کر یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو آخر میں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے چنانچہ وہ میر غوث بخش بزنجو کے قابل اعتماد ساتھی بی ایم کٹی سے ملے اور انھیں حیدرآباد جیل بھیجا تاکہ مفاہمت کی جاسکے۔ ’بزنجو صاحب کا خیال تھا کہ ہمیں بھٹو صاحب کی اس پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہئے لیکن ولی خان اور دیگر قائدین نے اس کی تائید نہ کی۔ ان کا خیال تھا کہ بی ایم کٹی تو ہمارے ہی ساتھی ہیں، بھٹو صاحب اگر اپنے کسی ساتھی کو ہمارے پاس بھیجتے تو کوئی بات بھی تھی۔ اس پر بزنجو صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا ’میں جانتا ہوں کہ اس وقت بھٹو فٹ بال کو بغل میں دبا کر گول کی طرف بھاگ رہا ہے لیکن مت بھولیں کہ کوئی طاقت ور آگیا تو وہ بال کو سینے سے لگا کر لیٹ جائے گا اور آپ کچھ بھی نہ کرسکیں گے’۔

‘پھر ویسا ہی ہوا’۔

افراسیاب خٹک نے اپنی بات مکمل کی۔ یعنی مارشل لا لگا اور ان ہی لوگوں کے ہاتھوں قیدیوں کو رہائی ملی، بھٹو صاحب کے بقول جو قیدیوں کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

بھٹو صاحب اور ان کے مخالفین کو حیدرآباد سازش کیس جیسے پھندے تک پہنچانے میں صرف داخلی حالات نے ہی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اس میں خطے کے بدلتے ہوئے حالات کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔ افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ حیات محمد شیرپاؤ کے قتل کو بعد میں افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں ضرور دیکھنا چاہیے۔ ان کا اشارہ سوویت یونین کی مداخلت اور اس کے بعد کی صورت حال کی طرف تھا۔

‘یوں، ماضی ہو یا حال، حیدرآباد سازش کیس میں ہر دور کے لیے سبق موجود ہیں’۔ افراسیاب خٹک کے اس جملے پر پاکستانی سیاست کے اس دلچسپ لیکن درد ناک باب کا اختتام ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).