کورونا وائرس ڈائری: کووڈ سے متاثرہ سات ماہ کی حاملہ خاتون کی ڈاکٹروں سے التجا ’میرا بچہ بچا لیں‘


Mother and child
(یہ تحریر پروفیسر جان رائٹ نے لکھی ہے جو ایک ڈاکٹر اور وبائی امراض کے ماہر ہیں۔ وہ بریڈفورڈ ایسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے سربراہ ہیں اور سب صحاراً افریقہ میں ہیضہ، ایچ آئی وی اور ایبولا جیسی بیماریوں کے شکار مریضوں کا علاج کرتے رہے ہیں۔ وہ بی بی سی نیوز کے لیے ڈائیری لکھ رہے ہیں)

جب ایک نوجوان خاتون جنھیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور وہ سات ماہ کی حاملہ بھی تھیں ہسپتال لایا گیا تو بریڈ فورڈ رائل انفرمری کے عملے کو معلوم تھا کہ انھوں نے دو زندگیاں بچانی ہیں۔

22 سالہ مہ پارہ نقوی، بیڈ فورڈ شائر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جو اپنے شوہر علی اور ان کے خاندان کے ساتھ بریڈ فورڈ میں رہائش پذیر تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کووڈ کے آنے کے بعد وہ زیادہ تر باہر نہیں جا رہے تھے، صرف سپر مارکیٹ تک اور اپنے آنے والے بچے کے لیے چیزیں خریدنے کے لیے نکلنے تک، جس کی پیدائش دسمبر میں متوقع تھی۔

لیکن اکتوبر کے آغاز میں مہ پارہ کو سر درد اور کھانسی محسوس ہونے لگی۔ اس کے بعد ان کا ذائقے اور سونگھنے کا احساس کھونا شروع ہو گیا، اور انھیں لگا کہ شاید انھیں کووڈ ہو گیا ہے۔ وہ اور علی گھر کے سب سے اوپر والے کمرے میں الگ تھلگ (آئسولیٹ) ہو گئے۔ علی کی والدہ دروازے کے باہر ایک ٹرے میں کھانا رکھ دیا کرتیں۔

یہ بھی پڑھیئے

کووڈ 19 کے دوران کیا گزری؟ تین مریضوں کی کہانیاں

کووڈ 19: مریضوں کو کئی ماہ تک تھکاوٹ، سانس پھولنے کی شکایت کیوں رہتی ہے؟

کورونا وائرس: ’جب میں سو رہی ہوتی ہوں، میرا فون کووڈ 19 پر تحقیق کرتا ہے‘

آپ کووڈ 19 کے وائرس سے بچنا کیوں چاہتے ہیں؟

لیکن صرف دو یا تین دن میں مہ پارہ کے لیے سانس لینا اتنا زیادہ دشوار ہو گیا کہ علی کو ایمبولینس بلانا پڑی۔ ہسپتال میں پہلی ہی رات ان کی حالت مزید خراب ہو گئی اور انھیں آئی سی یو منتقل کر دیا گیا۔

موسمِ بہار میں کووڈ کی پہلی لہر کے دوران ہمارے پاس ایسا کوئی مریض نہیں تھا جو حاملہ بھی ہو اور شدید بیمار بھی۔ مہ پارہ ایسی پہلی مریض تھی اور ہماری زچگی کی انتہائی نگہداشت کی سربراہ لیبی ڈیبی ہورنر نے ان میں گہری دلچسپی لی۔

ڈیبی نے مہ پارہ کو بتایا کہ دائیوں اور اوبسٹیٹریشیئنز (وضع حمل کے ماہرین) بچے کے دل کی دھڑکن چیک کر رہے ہیں اور وہ ٹھیک ہے۔ اس لیے اس وقت بے بی کے لیے سب سے بہتر جگہ ماں کا رحم ہے۔ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ کسی وقت سیزرین سیکشن کے ذریعہ بے بی کو ڈیلیور کرنا مہ پارہ کے بہترین مفادات میں ہوسکتا ہے، کیونکہ سات ماہ کا بے بی نوزائیدہ وارڈ میں انکیوبیٹر میں ٹھیک رہ سکتا ہے۔ ڈیبی نے علی کو بھی ٹیلیفون پر اس سب کی وضاحت کی۔

Dr Debbie Horner in ICU

ڈاکٹر ڈیبی ہارنر پوری پی پی ای کٹ پہنے ہوئے

تاہم ماہ پارہ زیادہ سے زیادہ پریشان رہنے لگی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ میں زندہ نہیں بچوں گی، اور میرے بچے کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ سو میں نے اپنی نرس سے کہا کہ میں سی سیکشن کرانا چاہتی ہوں، تاکہ وہ اسے باہر نکال لیں۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں بچ پاؤں گی اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ کو میرے بچے کو بچانا چاہیئے۔‘

انھیں اُس وقت ڈیبی سے بات کرنا یاد ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈیبی نے واقعی بہت ڈھارس بندھائی۔ ’انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو کچھ نہیں ہونے دیں گے، اور ہم آپ کو اور بچے کو بچائیں گے۔‘

لیکن مہ پارہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ڈیبی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مہ پارہ کی حالت اور پریشان بگڑتی گئی، لہذا ڈیبی نے ڈیوٹی پر انتہائی نگہداشت کے کنسلٹنٹ سے مشورہ کیا۔ ان کو اس بات پر تشویش تھی کہ بچہ اس دوران اضافی توانائی اور آکسیجن کا تقاضہ کر رہا ہے اور اس سے مہ پارہ کے پھیپھڑوں پر اضافی دباؤ ڈل رہا ہے۔

ڈیبی کہتی ہیں کہ ’ان کی زندگی اور بچے کی زندگی کے درمیان ایک نازک سا توازن ہوتا ہے اور ہم نے سوچا کہ ہم شاید اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں توازن ہے اور ہمیں اب بچے کو ڈیلیور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

زچگی کے وارڈز ایک مختلف عمارت میں واقع ہیں، لیکن ڈیبی اور ان کے ساتھیوں نے اس صورتحال کے لیے مشق کر رکھی تھی اور وہ تمام مناسب عملے اور آلات کے ساتھ ہسپتال کے مرکزی حصے میں موجود ایک آپریٹنگ تھیئٹر کو استعمال کرنے کے لیے تیار تھے۔

لیکن تھیٹر میں پہنچتے ہی مہ پارہ کے خون میں آکسیجن کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی۔ ڈیبی اور ان کے ساتھیوں نے اسے بہتر بنانے کے لیے مناسب کارروائی کی، لیکن اس سے انھیں یقین ہوگیا کہ انھیں جنرل اینستھیٹک دے کر ہی سی سیکشن کرنا پڑے گا۔

انھوں نے مہ پارہ کو بتایا کہ انھیں اس کے بعد جلد از جلد بیدار کر دیا جائے گا۔

’لیکن میں نے ان کو بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنا عرصہ لگے گا۔ میں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انھیں بیدار کرنے کچھ دن لگیں۔‘

ایک بار جب وہ بے ہوشی کی کیفیت میں تھی تو ان کی آکسیجن کی سطح پہلے سے بھی زیادہ گر گئی۔ ڈیبی کا کہنا ہے کہ ’وہ کافی پریشن کن تھی۔ تاہم، وہ ایک بار پھر بحال ہوئے اور سیزیرین سیکشن کامیاب رہا۔ نور کی پیدائش 5 اکتوبر کو 12:15 بجے ہوئی اور اس کا وزن 1.5 کلوگرام تھا۔

اس کے بعد چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئیں۔ بے بی نور کو ایمبولینس میں نوزائیدہ بچوں کے یونٹ لے جایا گیا اور مہ پارہ آئی سی یو میں واپس آ گئی، جہاں انھیں دوائیوں کے ذریعے ’انڈیوسڈ کوما‘ میں رکھا گیا۔

مہ پارہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں میں نو دن وینٹیلیٹر پر رہی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں نے جنم دیا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔‘

جب مہ پارہ کو کوما سے باہر لایا گیا تو وہ غنودگی کا شکار تھیں اور انھیں گفتگو کرنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی، لیکن جلد ہی ڈیبی نے ان کے اور علی کے مابین ویڈیو کال کا انتظام کیا۔ اس وقت تک وہ آئسولیشن ختم کر چکے تھے اور جب کال آئی تو وہ نوزائیدہ بچوں کے یونٹ کا دورہ کر رہے تھے۔

ڈیبی کا کہنا ہے کہ ’سو انھوں نے پہلی مرتبہ بچی کو دیکھا اور وہ واقعی بڑا جذباتی منظر تھا۔ وہ واقعتاً کسی سے بات نہیں کر رہی تھیں، لیکن انھوں نے رونا شروع کردیا۔ اور، آپ جانتے ہیں، میں بھی جذباتی ہو گئی اور دوسری نرسیں بھی۔ یہ ان کے ساتھ شیئر کرنے کی ایک خاص شے تھی، اور ایسا ممکن بنانے میں کردار ادا کرنا بھی۔‘

مہ پارہ کو یاد ہے کہ وہ وہاں آتے ہوئے کتنا چکرائی ہوئی محسوس کر رہی تھیں۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کے آس پاس سبھی لوگوں نے ماسک اور وائزرز کیوں پہن رکھے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے خیال آیا کہ ’میرا بچہ کہاں ہے؟ لیکن میں بول نہیں سکی۔‘

لیکن انھیں وہ لمحہ یاد ہے جب انھوں نے اپنی بچی کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا انتظام کیا تاکہ میں اسے دیکھ سکوں اور وہ بہت شاندار تھا۔ ’وہ اتنی زیادہ خوبصورت تھی اور اس وہ مجھے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ مجھے کیا ہوا تھا، میں نے دیکھ کہ وہ محفوظ ہے اور بچ گئی ہے۔‘

اگلے مرحلے میں مہ پارہ کو خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے یونٹ میں منتقل کرنا تھا لیکن وہ کچھ دنوں تک ٹھیک نہیں رہیں۔ پھر آخر کار، ماں اور بچی کو ملا دیا گیا۔

مہ پارہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اسے دیکھا تو یہ غیر حقیقی لگتا تھا، لیکن میں اسے پہلے پہلے ٹھیک طریقے سے تھام نہیں سکی کیونکہ میری بازوؤں میں طاقت نہیں تھی، لہذا انھوں نے اسے میرے سینے پر رکھ دیا۔ تاکہ میں اسے چھو سکوں اور دیکھ سکوں۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ واقعی زندہ ہے، اور وہ بھی ٹھیک ہے۔‘

Baby in incubator

انکیوبیٹر میں بچہ

فزیوتھراپسٹ مہ پارہ کے ساتھ اس وقت سے کام کر رہے تھے جب وہ کوما میں تھیں، وہ ان اپنے پھیپھڑوں کو صاف کرنے میں مدد کر رہے تھے تاکہ وہ سانس لے سکیں۔ اس کے بعد انھیں دوبارہ ان کے ساتھ کام کرنا پڑا تاکہ وہ بیٹھ سکیں اور آخر کار کھڑے ہونے میں کامیاب ہوں۔ انھوں نے جلد ہی ان کے وائیزرز کے اندر سے انھیں پہچاننا سیکھ لیا۔

فزیوتھیراپسٹ کورڈی گاؤبرٹ کو یاد ہے جب انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے پہلی مرتبہ مہ پارہ کو بستر سے اٹھایا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم نے پہلی بار ایسا کیا تو ہم نے انھیں بٹھایا تاکہ وہ کھڑکی کی طرف منہ کریں اور بیرونی دنیا کو دیکھ سکیں اور اس سے انھیں سنبھلنے میں مدد ملی۔ پھر ہم نے علی اور ان کی ماں کو فون کیا تاکہ وہ انھیں بستر سے باہر دیکھ سکیں۔ ’یہ واقعی ایک اچھا لمحہ تھا، ایک بہت ہی جذباتی لمحہ۔‘

ان کے درمیان ایک دل چھونے والا تعلق قائم ہو گیا۔

مہ پارہ کہتی ہیں کہ میں انھیں کبھی نہیں بھول سکتی کیونکہ میں جس طرح ٹھیک ہوئی ہوں ایسا ان کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ ’وہ شروع ہی سے مجھے دیکھنے آتے تھے۔ مجھے کورڈی اور شاید جیکی کا چہرہ یاد ہے۔ میرے آج چلنے پھرنے کی واحد وجہ وہ لوگ ہیں۔‘

Cordy, left, with other physios and a chair used for teaching people to sit again

کورڈی (بائیں) اور دوسرے فزیوتھراپسٹز اس کرسی کے ساتھ جس کی مدد سے لوگوں کو سکھایا جاتا تھا کہ دوبارہ کیسے بیٹھنا ہے

کورڈی کے لیے بھی یہ ایک یاد رکھنے والا اچھا تجربہ کیونکہ اس کا اختتام خوشگوار تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مہ پارہ بہت زیادہ بیمار تھیں اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ شاید زندہ نہ رہیں، جو کہ ایک مشکل چیز ہے… خاص طور پر اس وقت جب آپ نے ابھی ابھی بچہ پیدا کیا ہو۔ ہمارے پاس کووڈ کے مریضوں کی بہت ہی افسوسناک کہانیاں ہیں، ان بہت سے لوگوں کی جو یہ سفر مکمل نہیں کر سکے، اور ہم ان مریضوں سے چمٹے رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘

مہ پارہ بالآخر 3 نومبر کو ہسپتال سے رخصت ہوئیں، یہاں آنے کے تقریباً ایک مہینہ بعد۔

جب میں نے ان سے بات کی تو وہ کچھ ہفتے پہلے گھر واپس آ چکی تھیں۔ مہ پارہ کے الفاظ میں نور سات پاؤنڈ کی ’ایک خوبصورت اور خوش بچی تھی۔‘

ان بہت سے لوگوں کی طرح جنھوں نے کووڈ کے ساتھ آئی سی یو میں وقت گزارا ہے، مہ پارہ بھی بتدریج بحال ہو رہی ہیں۔ اس میں وقت لگے گا۔ انھوں دور تک لمبا چلنے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور کبھی کبھار ان کا سانس پھول جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں سب سے بڑی چیز دماغ کی دھند ہے۔ میں اب بہت سی چیزیں بھول جاتی ہوں، لیکن مجھے امید ہے اور مجھے یقین ہے کہ آخر کار میں مکمل طریقے دوبارہ نارمل ہو جاؤں گی۔‘

’میں صرف 22 سال کی ہوں۔ اور میں عموماً صحت مند ہی تھی، لیکن مجھے یہ اتنے برے طریقے سے ہوا جو یہ بتاتا ہے کہ یہ عمر تک محدود نہیں ہے۔‘

ڈیبی ہورمر خوش ہیں کہ مہ پارہ، علی اور نور کی کہانی کا اختتام اچھا ہوا ہے۔

Dr Debbie Horner

ڈاکٹر ڈیبی ہورمر پی پی ای کے بغیر

وہ کہتی ہیں کہ ’میں واقعتاً خوش ہوں کہ ان کے لئے چیزیں اچھی ہوئیں، کیونکہ یہ واقعی ایک مشکل کیس تھا، اور ہر ایک پر اس کا بہت دباؤ تھا۔‘

مہ پارہ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انھوں نے وائرس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، اور شرمندگی سے اس حقیقت کا اظہار کرتی ہیں کہ ان کی برادری کے کچھ لوگوں نے، جو غلط معلومات سے متاثر ہوئے تھے، انھیں ہسپتال نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر سچ بتاؤں تو ہسپتال جانے سے میری جان بچ گئی ہے۔ اگر میں گھر میں رہتی تو میں واقعی سوچتی ہوں کہ میرے اور نور کے ساتھ کچھ بہت خراب ہو چکا ہوتا۔ لہذا مجھے واقعی خوشی ہوں کہ میں گئی۔ میری زندگی این ایچ ایس کے عملے کی مقروض ہے۔‘

Bradford City Hall

Stephen Garnett Photographic
بریڈفورڈ کا سٹی ہال اور اس کے سامنے لگا ہوا کووڈ ٹیسٹنگ ٹینٹ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp