نیئر مصطفیٰ کا ناول ”ڈھشما“ : ایک تبصرہ


ڈرامہ ناولٹ لٹریچر کی ایک خوبصورت طرز ہے جس پر مبنی کتب کا شمار اردو ادب میں انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے ۔ ادب کی اس صنف کو اردو ادب میں وہ مقام اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی یہ حق دار تھی لیکن ”ڈھشما“ نے اس ادبی جمود کو توڑتے ہوئے ڈرامہ ناولٹ کی پہچان میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ڈرامہ ناولٹ کی خصوصیت اس کے جاندار مکالمے ہوتے ہیں جو قارئین کو اپنے سحر میں یوں جکڑ لیتے ہیں کہ ان مکالموں کو ادا کرنے والے کہانی کے کردار، بلکہ خود کہانی بھی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ ”ڈھشما“ نے اس روایت کا پاس رکھتے ہوئے ایسے اچھوت، لازوال اور فکری نظریات پر مبنی مکالموں کو جنم دیا جس کی گونج قارئین کے دماغوں میں ایک طویل عرصے تک موجود رہے گی۔

”ڈھشما“ میں چند علامتی کرداروں کی مدد سے جدید سیاسی منظرنامے کو پیش کیا گیا اور پھر اسے مختلف پیراڈائمز کے تناظر میں جانچا گیا۔ ”ڈھشما“ سیاسات، سماجیات اور فلسفے کی تلاش پر مبنی تحریر ہے جو بظاہر انسانی جذبات کو موضوع خیال نہیں بناتی لیکن اس کی فکری اساس انسانی جذبات کے تار بھی چھیڑے گی۔ جیسا کہ برائی انسانی فطرت ہے یا اس کی بے چارگی کا نمونہ، اس کی خوبصورت عکس بندی ہٹلر کے کردار کے ذریعے کی گئی ہے جو اپنی جابرانہ طبیعت کے عقب میں پوشیدہ نرم جذبات اور انسانی لطافتوں سے بھرپور خوبیاں منکشف کرتا ہے تو قاری انگشت بدنداں ہو کر سوچتا رہ جاتا ہے کہ آخر ہٹلر کے کردار کا اتنا نرم پہلو کیوں کر دکھایا گیا۔ لیکن یہ پہلو اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے جو ایک مکالمے کے ذریعے ہم تک پہنچائی گئی کہ ”ایک بھیڑیا جتنا بھی چاہے خود کو بدل لے، جنگل کے باقی جانور اسے واپس وہی بھیڑیا بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔“

”ڈھشما“ کے مکالموں نے کئی جگہ قارئین کو پوری طاقت سے جھنجھوڑا ہے۔ یہ ناولٹ بہت سے ذیلی خیالات (Sub Themes) کا مجموعہ ہے جس میں بائنری اپوزیشن کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اس کی جھلک نہ صرف کہانی کے مختلف حصوں میں دکھائی دیتی ہے بلکہ کہانی کے کرداروں میں بھی عیاں ہے۔ گوتم اور ہٹلر، ٹرمپ اور ایڈورڈ سعید، گرامچی اور سیموئیل، سیمون ڈی بووئیر اور مودی کی بائنری شخصیتوں اور افکار کا امتزاج ناول کو ایک نئی معنویت عطا کرتا ہے۔

”ڈھشما“ کی ایک اور کامیابی اس کا زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونا ہے اور یہ ماضی، حال اور مستقبل کا سفر ایک جست میں طے کرتا ہوا، ہر دور کے انسان کی سماجی حیثیت اور نظریاتی افکار کا تقابل پیش کرتا ہے۔ ماضی کے بدھسٹ گوتم، فاشسٹ ہٹلر، ان لائٹنڈ والٹیئر، مارکسسٹ گرامچی، اورینٹلسٹ ایڈورڈ سعید، فیمنسٹ سیمون ڈی بووئیر، کلیش آف سویلائزیشن کے بانی سیموئل ہنٹگٹن کا تقابل عصر حاضر کے طاقت کے سرچشمے ٹرمپ اور مودی سے کیا گیا ہے۔

کتاب کا چوتھا باب ”ڈھشما“ ہنٹگٹن کی کلیش آف سویلائزیشن سے زیادہ کلیش آف فلاسفیکل آئیڈیالوجی پر مبنی ہے۔ بہ ظاہر ایک اینی میٹڈ فلم کی مدد سے مختلف سیاسی عناصر کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس منظر کشی میں کچھ ممالک یاہنٹگٹن کی زبان میں کچھ تہذیبوں کا ٹکراؤ دیکھنے میں آتا ہے، جس میں طاقت کا سب سے بڑا سرچشمہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل کی مدد سے عراق اور افغانستان جیسے ممالک پر ”مس ہوائی“ نامی ایک بندریا کی بازیابی کے بہانے حملہ کر دیتا ہے اور جلد ہی یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

انڈیا اور کشمیر کے مسئلے کو بھی معنی خیز استعاروں کی مدد سے پیش کیا گیا ہے اور ناول میں بہت سے مقامات پر امریکہ اور انڈیا کو طاقت کے حصول کے لیے گٹھ جوڑ کرتے دکھایا گیا ہے۔ ”مس ہوائی“ کا کردار ایک ذو معنی استعارہ ہے جو ہتھیار اور امن، دونوں کی جانب اشارہ کرتا ہے اور یہ کہ ان ہتھیاروں تک مسلم ممالک رسائی حاصل کر لیں تو جنگ، لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں کے پاس امن کی علامت ہیں۔ ”ڈھشما“ نے پردے کے پیچھے چھپے اس عالمی کھیل کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جو امریکہ امن کی آڑ میں کھیل رہا ہے اور اپنی طاقت کو جنونی انداز میں بڑھاوا دے کر کمزور ممالک میں خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔

ناولٹ کا یہی چوتھا باب سادہ لیکن بے باک انداز میں ”کلیش آف سوی لائزیشن“ پر جمی طاقت کی گرد جھاڑتا ہے جو قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ضرور ہے لیکن اس دوران تھیوری کے مذہبی اور ثقافتی رنگ مسنگ رہے اور کہانی کا مرکز صرف امریکہ اور مسلم ممالک کے گرد گھومتا رہا جس نے اس باب کو ایک ایسے دائرے میں قید کر دیا جہاں مسلم ثقافتوں کی آپسی جنگ اور ان کے مغربی آلہ کار ہونے کی حقیقت پس پشت ڈال دی گئی۔ مصنف نے کلیش آف سوی لائزیشن کی پیشکش میں ہنٹگٹن سے زیادہ اپنے فکری خیالات کی عکس بندی کی جو ایک منفرد مگر پر خطر تجربہ تھا۔

لیکن اگر ناول نگار خطرہ مول نہیں لے گا تو نئے اسلوب کیسے دریافت ہوں گے؟ اس باب کی قرات کے دوران جو سوال ابھرتے ہیں بالعموم وہ ہر آدمی کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، جس کی بنیاد پر اس باب کو ایک عام قاری کی منشا اور ذوق کا آئینہ دار قرار دیا جا سکتا ہے جو کسی نئی دریافت یا نئے سوال کے پیدا نہ ہونے کے باعث کہیں کہیں یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

میری ذاتی رائے میں ”ڈھشما“ کے متن پر سیاسی رنگ غالب رہا جو اپنی جگہ ایک اہم موضوع ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مصنف نے انسانی سوچ اور وجود کی مختلف جہتوں کو گرفت میں لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ جیسا کہ ناول کے پہلے باب ”فلسفوں کے تصادم“ میں ہٹلر کا روح کو جھنجھوڑ دینے والا مکالمہ کہ ”شیطان کی مذمت میں لکھے گئے ناول کو پڑھنے سے پہلے یہ تسلی ضرور کر لی جائے کہ کہیں مصنف کا نام خدا تو نہیں“ اتنا معنی خیز اور فکر انگیز ہے کہ اسی ایک مکالمے پر بہت سی کتابوں کی تخلیق ہو سکتی ہے۔

کرداری حوالوں سے ناول کو دیکھا جائے تو مجھے والٹئیر کے کردار کے ساتھ سب سے زیادہ انصاف ہوتا محسوس ہوا۔ ناول کی ایک اور جہت، خاص کرداروں کے ذریعے عام زندگی کے روزہ مرہ اور بظاہر بے معنی لفظوں کا استعمال تھی، جس نے اسے ایک ایسا منفرد اسلوب عطا کیا جو شاید ایک عام قاری کی سجھ میں نہ آ پائے۔ لیکن ایک سوال یہ بھی تو ہے کہ کیا ”ڈھشما“ عام قاری کے لیے لکھی گئی؟ کیا عام قاری ہنٹگٹن، والٹئیر اور ایڈورڈ سعید سے واقفیت رکھے بغیر کتاب کو سمجھ سکتا ہے؟

اس اعتراض کی ایک توجیہہ تو یہ پیش کی جا سکتی ہے کہ ناول میں ان کرداروں کی فکری ساخت سے کہیں زیادہ زندگی سے متعلق ایسے سوالوں کو چھیڑا گیا جو بلا تخصیص ہر انسان کے ذہن میں امڈتے ہیں۔ گوتم بدھ کا نروان کی تلاش میں لایعنیت کا شکار ہونا ایک اجتماعی وجودی بحران کی علامت ہے۔ ناول کے اختتام پر ایڈورڈ سعید کے نظریات سے متاثر ہو کر اس کے عقیدت مندوں کی بے مقصد، اناپ شناپ اور واہیات شعر گوئی آج کی فکری بے سمتی اورنظریاتی بحران کا بین السطور اظہار ہے یا مضطرب سیمون ڈی بووئیر کا فیمینزم اور خواتین کے برابر حقوق کی جنگ میں ساری توجہ ”عورت“ کے حقوق سے زیادہ ”مرد“ کے رویوں اور طرز گفتگو کی نکتہ چینی میں گزارنا ان کرداروں کو ایک ایسی افسانوی حیثیت دیتا ہے جس کی طرز دور حاضر کے فیمنسٹ، کمیونسٹ اور اورینٹالسٹ کلٹس پر رکھی گئی ہے جو اپنا وقت اپنے نظریات کی ترویج کے لیے استدلالی طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی عقلی برتری ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں، اور اس جنون میں بے معنی اور بے مصرف دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں۔

تاہم کہیں کہیں اس بے سمتی اور لایعنیت کو ناول نے اپنے اوپر اس حد تک حاوی کر لیا کہ اصل تھیم، کرداروں کے مضحکہ خیز مکالموں میں دب کے رہ گئی اور اسے ڈھونڈنے کے لیے قاری کو نئے سرے سے غوطہ لگانا پڑا۔ کچھ دیر کے لئے ناول خلاء میں معلق ضرور رہتا ہے مگر اس خلاء کو بہت سی جگہوں پر ناول نے پر بھی کیا ہے جہاں سے ”ڈھشما“ نے ایک نئی زندگی پکڑی۔ جیسا کہ ناول کے تیسرے باب ”ہٹلر بدھا نازی نروان“ میں ہٹلر اور اور گوتم بدھ کے ابتدائی پراسرار اور روح پرور مکالمے کے بعد ایک لایعنی وقفہ آتا ہے جو ناول پر جمود طاری کر دیتا ہے لیکن اس جمود کو باب کے اختتامی حصے میں مستقبل کے انسان کی آمد فکر انگیز انداز میں توڑتی ہے۔

ہٹلر اور بدھ اپنے نروان کو سرمایہ داری نظام میں ڈھالتے ہوئے اسے منافع میں تبدیل کر دیتے ہیں جو عصر حاضر کے موٹیویشنل سپیکرز اور فلاسفرز پر ایک شاندار طنز ہے تو دوسری طرف مستقبل کا انسان نسل انسانی کو بچانے کے لیے ماضی میں لوٹتا ہے جو تعصب اور طاقت کے جنون میں اندھی ہو چکی ہے۔ وہ بدھا اور ہٹلر پر عیاں کرتا ہے کہ مستقبل کا انسان وائرس کی اولاد ہے جو مستقبل کے سب انسانوں کو ختم کر چکا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو یہ وائرس مذہبی اور نسلی تعصب کا وائرس ہے جس کا خاتمہ کر کے وہ مستقبل کے لوگوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مقصد میں ابتدائی کامیابی سمیٹنے کے بعد انسانی سازشوں کی بھینٹ چڑھ کر وہ فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور محض اس ایک خواب کی تکمیل کرپاتا ہے جو ہٹلر  نے ناول کے پہلے باب میں دیکھا تھا کہ انسان ہر رنگ اور ہر کردار کا چولا پہن کر اپنی زندگی بسر کرے اور اسے ہر زاویے سے اپنے اندر سینچ  لے کہ پھر چاہے فرانس کا جوکر ہو یا آسٹریلین کنیز، وہ ان تمام رنگوں میں رنگ جائے کہ زندگی ایک ہی بوسیدہ لبادے میں کیوں گھسیٹی جائے۔ ہٹلر کا خواب اور مستقبل کے انسان کی اس خواب کی تکمیل بے حد خوبصورت اور بامعنی ہے جو قاری پر سوچ کے نئے در وا کرتی ہے۔

ٹرمپ اور مودی کی اجارہ داری کا عنصر اس ناول میں کافی نمایاں رہا جو اس حقیقت کی عکاسی تھی کہ موجودہ سیاسی وسماجی نظام میں طاقت کا جنون زندگی کے ہر پہلو کو جکڑے ہوئے ہے۔ ٹرمپ کے کردار کے ذریعے طاقت کے منفی استعمال کو قلم بند کیا گیا جس میں ایک مکالمہ پورے پاور پیراڈائم کا نچوڑ تھا جس میں ٹرمپ واضح کرتا ہے کہ اس کی اجارہ داری کو مزاحمت کے ذریعے ختم کر بھی دیا گیا تو کوئی اور روٹی چھیننے والا اس کی جگہ لے لے گا کیونکہ یہ ایک نامختتم دائرہ ہے جو اسی طرح چلتا رہے گا۔

”ڈھشما“ ایک بامعنی طنز کی حیثیت رکھتا ہے جو عصرحاضر کی سیاست اور فلسفے کو طنزیہ پیرائے میں لپیٹ کر انسانی ذہن کے مختلف دریچوں میں جھانکتا ہے۔ ناول کا اختتام بھی اسی طنز پر ہوتا ہے جب ٹرمپ کی طاقت والٹئیر جیسے روشن خیال اور انقلابی کو مار کر، الزام بھی اسی کے فالورز پر لگا دیتی ہے اور یوں ڈونالڈ ٹرمپ یکے بعد دیگرے تمام مخالفین کو پسپا کرنے کے بعد اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے نوبل پیس پرائز کا انتظام کرتا ہے۔

اپنی نوعیت کے اس بھرپور ناول سے میرا اختلاف پوسٹ سٹرکچلزم اور اس کے روح رواں رولاں بارتھ کی اکہری پیشکش سے منسلک ہے۔ گو کہ اکثر نظریاتی دانشوروں کی نظر میں پوسٹ سڑکچلزم فقط بے سر و پا خیالات کا ایک ملغوبہ ہے جس کے خدوخال دھندلائے ہوئے ہیں اور حقیقت ایک کرائسس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پوسٹ سٹرکچلزم کی اساس اس کی حقیقت کو پرکھنے کے طریقۂ کار میں محفوظ ہے جہاں اس حقیقت میں چھپی جداگانہ حقیقتوں کی تہوں کو کھوجنے پر اصرار کیا گیا ہے۔ بارتھ کے نظریہ اضافت کو مصنف کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کا حق وہ بہ طور مصنف محفوظ رکھتا ہے لیکن قاری پر اس اضافیت کو واضح کرنے کے لیے اس کے غیر جانبدارانہ تعارف کا ہونا اس متن کو مزید وقیع بنا سکتا تھا۔

یہ ناول ایک بہت منفرد میلو ڈرامیٹک اسلوب میں لکھا گیا اور اس کے دلچسپ مکالمے قاری میں فکری روح کو پروان چڑھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پرناول کے پہلے باب ”فلسفوں کا تصادم“ کا اس نکتے پر منتج ہونا کہ ’نروان پر کسی گوتم بدھ کی اجارہ داری نہیں، چاہے تو ہٹلر جیسا شخص بھی اسے حاصل کر سکتا ہے‘ اس بات کا عندیہ ہے کہ ہر انسان کے تحت الشعور کے نہاں گوشوں میں ایک مثبت سوچ موجود ہوتی ہے، جو مناسب آبیاری سے اس کی شعوری اور عملی زندگی کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔ ”ڈھشما“ اپنی نوعیت کی ایک اچھوتی تخلیق ہے جو ادب کی دنیا میں جدت بھی لائے گی اور فکشن کے نئے جواز بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).