بھیشم ساہنی، انعام ندیم اور ”امرتسر آ گیا ہے“


یہ سترہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے، مجھے میرے پیارے دوست آصف فرخی نے دو کتابیں ایک ساتھ عنایت کی تھیں۔ ان کتابوں میں سے ایک کانام تھا: ”اور کہاں تک جانا ہے؟“ جب کہ دوسری تھی: ”درخواب“ ۔ دونوں شاعری کے مجموعے اور دونوں شاعر میرے لیے نئے۔ تاہم آصف فرخی نے کہا تھا: ”انہیں پڑھیے ضرور آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔“

ان میں سے پہلی کتاب اکبر معصوم کی تھی۔ وہی اکبر معصوم جو آصف فرخی کی طرح اب ہم میں نہیں ہیں۔
گل تو اس خاک داں سے آتے ہیں
رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں
باہر آتے ہیں آنسو اندر سے
جانے اندر کہاں سے آتے ہیں
اور دوسری کتاب ”درخواب“ انعام ندیم کی تھی:
یہ محبت بھی ایک نیکی ہے
اس کو دریا میں ڈال آتے ہیں
۔
خاموش کھڑا ہوں میں درخواب سے باہر
کیا جانیے کب تک اسی حالت میں رہوں گا

جس کتاب پر ہم آج بات کرنے جا رہے ہیں یہ کتاب منٹو کے ہم عصر بھیشم ساہنی کے منتخب ہندی افسانوں کے اردو تراجم پرمشتمل ہے مگر آصف فرخی کا نام یوں بیچ میں آ گیا ہے کہ اس کا انتساب میرے اسی دوست کے نام ہے۔ گزشتہ دنوں میری کتاب ”جستجو گفتگو“ آئی تو اس کا انتساب میں نے بھی آصف فرخی کے نام کیا تھا۔ ناصر عباس نیر نے بھی ”ایک زمانہ ختم ہوا ہے“ کا انتساب آصف فرخی نے نام کیا ہے۔

انعام ندیم

گزشتہ سال بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر آصف فرخی کی موجودگی میں انعام ندیم نے ربیسنکربال کے ناول ”دوزخ نامہ“ کا اردو ترجمہ عطا کیا تھا اور اس بار تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر کراچی میں، جب کہ ہمارے درمیان آصف موجود نہ ہو کر بھی اپنے مسلسل ذکر کے سبب موجود ہو گئے تھے، بھیشم ساہنی کے منتخب افسانے ”امرتسر آ گیا ہے“ عطا کر رہے تھے۔

ترجمہ کیا ہے؟ انگریزی کا لفظ ”ٹرانسلیشن“ ذہن میں آتا ہے۔ انگریزی کا نہیں لاطینی زبان کا کہہ لیجیے جس کے معنیٰ ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ کہتے ہیں اردو والا ”ترجمہ“ عربی سے آیا اور اشتقاق لفظی کے اعتبار سے درست نادرست اس کا رشتہ ”ترجم“ سے جوڑا جاتا ہے ؛ جس کا مطلب ہے التباس پیدا کرنا، رلا ملا دینا۔ تاہم ایک اور دلچسپ لفظ بھی ہے ؛ رجم“ ، کہتے ہیں ہو نہ ہو اردو والا ”ترجمہ“ اسی سے نکلا ہے۔

یہ ”رجم“ وہی سے جس سے ”رجیم“ نکلا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ”رجم“ کے معنٰی پتھر یا کنکری کے ہیں۔ شیطان مردود کو چوں کہ حاجی لوگ کنکریاں مارنے کی رسم ادا کرتے ہیں اس لیے یہ شیطان ”رجیم“ ٹھہرا۔ میں عربی زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آگاہ نہیں ہوں مگر اپنے ہاں کے بعض تراجم دیکھتے ہوئے یقین سا ہو جاتا ہے کہ ہو نہ ہو ”ترجمہ“ کا مآخذ ”رجم“ سے ہی ہوگا۔

خیر، اس جملہ معترضہ کو جانے دیں۔ کہنا یہ ہے کہ انعام ندیم کے ہاں ترجمہ، رجم کی رسم نہیں ہے تخلیق نو کا معاملہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ تخلیق پارے کی روح اردو میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جی، بھیشم ساہنی کے ہندی افسانوں کی روح؛ اور یوں لگنے لگتا ہے جیسے یہ افسانے ہندی میں نہیں، اردو ہی میں لکھے گئے تھے۔

بھیشم ساہنی اور بلراج ساہنی کو گنوں سے بھرے ہوئے ”پنڈی بوائز“ کہہ لیجیے کہ دونوں تقسیم سے بہت پہلے بھیرہ سے راولپنڈی آ کر چھاچھی محلے میں بس جانے والے شری ہربنس لال ساہنی کے گھر پیدا ہوئے اور کالج روڈ سے متصل عالم روڈ پر واقع دو منزلہ مکان میں پلے بڑھے تھے۔ تقسیم کا زمانہ آیا تو انہیں اپنے اس گھر سے نکلنا پڑا جس میں کبھی گاندھی جی بھی آئے تھے کہ پاکستان بن گیا تو پنڈی ان کے لیے پرایا ہو گیا تھا۔ انہیں گاندھی کے ہندوستان جانا پڑا تھا مگر دونوں مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے رہے۔

bhisham sahini

بھائیوں کی اس جوڑی کے بخت بلند تھے۔ بلراج نے بالی وڈ میں ایک ہیرو کے طور پر نام کمایا اور بھیشم ادب کی دنیا کا روشن ستارہ ہوا۔ مڑمڑ کر دیکھنے کا احوال یہ ہے کہ بھیشم کے ناول ”تمس“ (جس پر فلم بھی بن چکی ہے) میں اسی شہر کی گلیاں ہیں اور کہانی تقسیم سے ذرا پہلے اس سچے واقعے کو بنیاد بناتی ہے جس کے مطابق راجہ بازار کی جامع مسجد کے سامنے کسی نے سور پھینک دیا تھا اور شہر میں فساد پھوٹ پڑے تھے۔ اس ناول ہی میں نہیں، ان کی دیگر تخلیقات میں بھی تقسیم اور ہجرت تک کا زمانہ اور منظر نامہ پوری طرح ظہور کرتا رہتا ہے کہ یہ گزرا ہوا وقت بھیشم کے تخلیقی حافظے میں ہمیشہ مقیم رہا ہے۔

”امرتسر آ گیا ہے“ میں بھیشم ساہنی کے بتیس منتخب ہندی افسانوں کو انعام ندیم نے ترجمہ کر کے اردو دنیا کو فراہم کر دیا ہے۔ بھیشم کو بجا طور ہندی افسانے کے نمایاں ترین ناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سماجی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کی ایک ایک جنبش کو اس خوبی سے اپنے متن میں ڈھالا ہے کہ پڑھتے ہوئے ہر منظر اور ایک ایک واقعہ قاری کے حسیاتی کینوس پر تصویر ہونے لگتا ہے۔ بھیشم کا ناول ”تمس“ اور ان کے ایک دو افسانوں کے تراجم میری نظر سے گزر چکے ہیں، تاہم یہ پہلی بار ہو گا کہ ہم ان کے افسانے ایک مجموعے کی صورت پڑھیں گے۔

انعام ندیم کے شعر کے تو ہم تب سے قائل تھے جب آصف فرخی نے ان کا مجموعہ ہمیں عطا کیا تھا۔ ربیسنکر بال کے ناول ”دوزخ نامہ“ کے ترجمے کے بعد ان کی نثر کا بھی قائل ہونا پڑا کہ متن کو انگریزی سے اردو میں ڈھالتے ہوئے وہ کچھ ایسا کرشمہ دکھاتے ہیں کہ تخلیق نو کا سماں بندھ جاتا ہے اور کہیں بھی گماں نہیں گزرتا کہ آپ ترجمہ پڑھ رہے ہیں۔ لطف یہ کہ ایسے میں وہ اصل متن سے پچھڑتے بھی نہیں ہیں۔ ایسا ہی کچھ ”امرتسر آ گیا ہے“ میں ہوا ہے۔ یقین نہیں آتا تو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ مجھے یقین ہے آپ میری طرح بھیشم ساہنی کے افسانوں کا لطف اٹھاتے ہوئے انعام ندیم کی اس خوبی کے قائل بھی ہو جائیں گے۔

انعام ندیم نے بھیشم کے افسانوں کو ترجمہ ہی نہیں کیا، ان کی افسانہ نگاری کی بابت کچھ تنقیدی فیصلے بھی دیے ہیں۔ مثلاً یہی کہ:

1۔ بھیشم ساہنی پریم چند کی ادبی روایت کے امین اور ادب میں حقیقت پسندی اور انسانی اقدار کے ترجمان تھے۔

2۔ انہوں نے زندگی کی ستم ظریفیوں اور بے ضابطگیوں کو اپنی کہانیون کا موضوع بنایا۔ ان کی کہانیاں نچلے طبقے کی زندگیوں اور ان کی جدوجہد کو نمایاں طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تضادات اور کش مکش کو بڑی خوبی سے ظاہر کرتی ہیں۔

3۔ ان کہانیوں میں جہاں انہوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو بیان کیا ہے وہیں عام لوگوں کی زندگی کے آدرشوں کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔

4۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں ہم آہنگ زندگی گزارنے والے مثالی جوڑوں کو بڑے وقار کے ساتھ پیش کیا ہے۔

5۔ وہ استحصال سے پاک اورمساوات پر مبنی ایک ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھتے تھے اور یہی خواب اپنی کہانیوں میں متن کرتے تھے۔ اور یہ کہ

6۔ پنجابی محاورہ ان کی ہندی نثر کی نمایاں پہچان بنا۔

ان نقاط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے انعام ندیم نے بھیشم ساہنی کے فنی امتیازات، اسلوب اور تخلیقی ترجیحات کو سمجھا، ہندی متن کی روح تک رسائی پائی، نثر کے آہنگ میں موجزن کیفیات کو گرفت میں لیا، جملوں کی ساخت پر غور کیا، اردو میں متبادل لفظ اسی قبیلے سے تلاش کیے جس قبیلے سے وہ اصل متن میں آئے تھے، محض خیالات کو نہیں دیکھا، اسلوب اور آہنگ کو بھی مدنظر رکھا۔ یہی سبب ہے کہ جب یہ افسانے ترجمہ ہو کر سامنے آئے توہمیں یوں لگاجیسے مصنف اور تخلیق کے درمیان سے ترجمہ کرنے والے نے اپنی شناخت معدوم کردی تھی۔ میں نے کہا نا، یوں لگنے لگتا ہے جیسے یہ افسانے اردو ہی میں لکھے گئے تھے۔

اس مجموعے کے صفحہ نمبر 226 کی ایک کہانی میں دو ماؤں کا ذکر ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر پھٹے حال باہم لڑتی جھگڑتی دومائیں۔ جی، ایک بچے کی دومائیں۔ ایک ماں نے اس بچے کو جنم دیا ہوتا ہے جس پر جھگڑا چل رہا ہے جب کہ دوسری نے بچے کو اپنی چھاتی کا دودھ پلا کر پالا پوسا ہوتا ہے۔ جس ماں نے بچے کو اپنی کوکھ سے جنم دیا تھا اسے کہیں اور جانا ہے۔ دونوں بچہ اپنانا چاہتی ہیں۔ لڑتی جھگڑتی ہیں اور اسی میں ریل چھوٹ جاتی ہے۔ آخر میں وہ ماں جس نے اپنی کوکھ سے بچہ جنما ہوتا ہے، اپنی چھاتی کا دودھ پلانے والی دوسری ماں کے پاس بیٹھی نظر آتی ہے۔ اب کی بار بچہ دوسری ماں کی گود میں ہے۔ آنچل میں ڈھکا ہوا اور چھاتی سے لگا دودھ پیتے ہوئے۔

تو یوں ہے کہ میں نے ہندی افسانوں کے ان تراجم کو پڑھا تو مجھے بھیشم ساہنی اور انعام ندیم ان دو ماؤں جیسے لگے ہیں۔ ایک نے یہ کہانیاں جنم دی تھیں اور دوسرے نے تخلیقی ترجمے سے انہیں نئی زندگی عطا کر دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).