کچھ کورونائی مکالمے


”سال نو کا آغاز ہو گیا مگر اس منحوس covid 19 کا انجام نا ہوا۔“ کوئٹہ ہوٹل میں بیٹھے ہم اپنے دوستوں سے مخاطب ہوئے۔

”کیا؟ کیا کہا؟ covid 19
”یہ کیا بلا ہے“ چائے والے گل خان نے سوال کیا۔
”اوہ بھائی!“ کورونا ” یاد ہے ناں کرونا‘‘

جس سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ وہ وبا جس سے احتیاط نہ کی جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ”ہم نے اسے یاد دلایا۔

”ارے میاں! کیا کہہ رہے ہو، کوئی کورونا ورونا نہیں ہے، موت کا ایک دن معین ہے، کورونا سے پہلے بھی لوگ مرتے تھے اور آئندہ بھی مریں گے، بس اللہ پہ توکل رکھو، اللہ بچانے والا ہے، خوف نا پھیلاؤ، ہم اب اس وائرس کے عادی ہو گئے ہیں“

ہمارے مولانا دوست نے بن مانگے مفت رائے پیش کی۔

”ہاں ویسے بات میں دم تو ہے، اللہ پہ بھروسا رکھو، ہم تو پہلے دن سے نماز بھی مسجد میں ادا کرتے ہیں، دیکھو کیسے ہٹے کٹے پھر رہے ہیں، پورا سال ہو گیا، ماسک پہنا نہ ہاتھ دھوئے، رمضان عید، بقر عید شاپنگ، مجلس، میلاد، جلسہ جلوس، نذر و نیاز، شادی بیاہ نیز ہر محفل میں پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔اب تو یہ عالم ہے کہ دوست کیا دشمنوں سے بھی گلے ملتا ہوں، پھر بھی دیکھ لو پہلے سے زیادہ صحت مند ہوں ”

ایک اور دوست پپو نے فخریہ اپنے عظیم کارنامے ہمارے گوش گزار کیے۔

”ارے بھائی! اللہ پہ تو ہم سب کو کامل یقین ہے، مگر احتیاط تو لازم ہے ناں، دیکھو دنیا بھر میں پھر سے اموات کی شرح بڑھ گئی ہیں، پوری دنیا اس وائرس کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے، آپ لوگ کیسی جاہلانہ گفتگو کر رہے ہیں۔ ان ہی حرکتوں کی وجہ سے تو کیسز بڑھے ہیں، وہ تو یہاں ٹیسٹنگ نہیں ہو رہی ورنہ actual figure بہت زیادہ ہے اس تعداد سے جو گنتی حکومت بتا رہی ہے۔

ابھی برطانیہ سے اور نئے کیسز آئے ہیں، مجھے تو سمجھ نہیں آتا آخر کیوں مسافروں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازم نہیں، بیرون ملک جانے کے لیے ٹیسٹ لازم ہے مگر پاکستان داخلے کے لیے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں۔ دنیا بھر میں فلائٹس بند ہو گئی ہیں پر پاکستان میں بنا کسی ٹیسٹ کے لوگوں کو داخل کر رہے ہیں ”

ہم نے اپنی سی کوشش کرتے ان کو سمجھانا چاہا۔
جس پہ پپو برہم ہو گئے، کہنے لگے :
”اور یہ جہالت نہیں کہ اسکول بند کر دیے۔ پورا سال ہو گیا بچوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے، اوپر سے ہمارے ساتھ ”آن لائن تعلیم“ کے نام پہ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے، یہ بچے مستقبل کے معمار ہیں، فیس ہم پوری ادا کرتے ہیں پر پڑھائی کیا خاک ہو رہی ہے، نئے پاکستان میں لائٹ ہوتی ہے تو پانی نہیں آتا، جب پانی آئے تو اس وقت بجلی چلی جاتی ہے ۔ بجلی آئے تو گیس چلی جاتی ہے، گیس آئے تو منحوس انٹرنیٹ کو موت آجاتی ہے، ایسے میں پورا سال گرمی میں جھلستے رہے اور اب سردی میں اکڑ رہے ہیں، چائے بنانے اور پانی گرم کرنے تک کے لیے بھی گیس نہیں آتی۔
بچے الگ ہر وقت لڑتے جھگڑتے گھر میں شور مچاتے ہیں، سونا بھی حرام ہو گیا ہے اور حکومت سندھ بار بار اسکول بند کرنے کا عندیہ دیتی ہے۔

اوہ بھائی! کچھ تو شرم کرو، اسکول کھول دو، سب کچھ کھلا ہے، بس کورونا اسکول کی عمارت میں ہی داخل ہوگا کیا؟

واہ کیا عقل پائی ہے ہمارے ملک کے حکمرانوں نے! ”

”دیکھو بھئی نئے پاکستان کی بات نہ کرو موضوع تبدیل ہو جائے گا، بات کورونا کی ہو رہی ہے کپتان کو کچھ نہ کہنا، اپنا وقت آئے گا، کپتان نے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا گھبرانا نہیں ہے، کورونا عام فلو ہے جو بزرگوں کو ہوتا ہے ،

نہیں نہیں، ابھی نہیں
ابھی تو ہم جوان ہیں
خزاں نہیں بہار ہیں۔ ”

بھولا بھائی خفا ہو گئے، وہ تو ویسے ہی عقل سے پیدل ہیں، جب ہی تو حکومت وقت کے اب تک حامی ہیں۔

گل خان بھی کسی سے  پیچھے کیوں رہتے، جواباً بولے:
”اب اور وقت کب آئے گا، تقریباً ڈھائی برس تو بیت گئے، کورونا کے پیچھے بھی اس حکومت کا ہاتھ ہے، یہ لوگ زبردستی کرونا کے انجیکشن لگا رہے ہیں اور بندے مار رہے ہیں، ہمارے گاؤں میں اتنے بندوں کو انجیکشن لگا لگا کے مار دیا، ہم کو تو علاج ہی نہیں کرانا، بھلے مریض گھر میں تڑپ تڑپ کے مر جائے ہسپتال نہیں لے جاتے۔ ”

”ارے بھائی ایسا نہیں ہے یہ عالمی وبا ہے، صرف پاکستان ہی نہیں ترقی یافتہ سپر پاور ملک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں، لیکن وہ لوگ SOP ’s پر عمل در کررہے ہیں،وہاں تو اب ویکسین بھی مفت میں دستیاب ہے، اب دیکھو اس پوری بیٹھک میں صرف ہم نے ماسک لگایاہوا تھا، آپ سب بنا ماسک کے بھاشن جھاڑ رہے ہیں۔ ”

ہم نے اپنے دوستوں کو سمجھانے کی پھر ناکام کوشش کی ۔

”نانا! ویکسین کی تو بات نا کرو، وہ تو کافروں نے بنائی ہے، پکا حرام کیمیکل سے بنی ہے۔ ہم تو کبھی نہ لگوائیں اور دوسرا یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے عزیز یا خاندان میں کسی کو کورونا سے مرتے دیکھا سنا؟ ہم نے تو نہ سنا، ہاں جو مر رہے ہیں وہ طبعی موت ہے ”

پپو بھائی پھر گویا ہوئے۔

”ہاں ہم نے سنا ہے ہمارے کئی دوست اور پڑوسی اس سے متأثر ہوئے، جو احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے تھے اللہ کو پیارے بھی ہوئے۔ کورونا کسی کے دل پہ تو کسی کے دماغ پہ بھی اثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے آناً فاناً کافی جوان لوگ افراد بھی لقمہ اجل بن گئے اور خیر ویکسین تو آج تک پولیو کی بھی حلال نہ ہو سکی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور ہوگی بھی کیوں، پولیو سے بھاری فنڈنگ بھی تو ملتی ہے ”

ہم نے اپنے عقل مند دوستوں پہ دوبارہ سائنس جھاڑی جو بے سود ثابت ہوئی۔

اتنے میں ایک اور دوست جو روز ہی ہمیں ہوٹل پہ ملتے ہیں، بائیک پر سے (چھینکتے کھانستے بنا ماسک پہنے ) اترے اور گرم جوشی سے ہم سے لپٹ گئے، جیسے سالوں بعد ملے ہوں، ہم ہمیشہ کی طرح بولتے رہ گئے

”بھائی سماجی فاصلہ۔ کچھ خیال کر لو“
لیکن بھائی نے بھی اپنی ریت برقرار رکھی،ہوٹل میں بیٹھے تمام افراد سے جب تک گلے نہ ملے ٹھنڈ نہیں پڑی، گلے مل کر بائیک اسٹارٹ کی اور یہ کہہ کر چل دیے ”پھر ملیں گے ابھی ذرا بخار ہے اور سردی کی وجہ سے کل رات زکام ہو گیا“

ہم گھبرائے اور بڑبڑائے احمق انسان! گویا صرف کورونا پھیلانے ہی آئے تھے۔

اسی اثناء میں ہمارا فون بجنے لگا، ریسیو کیا تو پتہ چلا پرانے پردیسی دوست کا فون ہے، حال احوال پوچھنے پہ خود ہی گویا ہوئے،” 2020 بھی ختم ہو گیا لیکن کورونا کی وجہ سے سال بھر سے تنہا گھر بیٹھا ہوں، کسی سے ملتا نہیں ، ہروقت ڈیٹول سے ہاتھ دھو دھو کے ہاتھ کی جلد پھٹ گئی ہے،گندے کپڑے دو دن گرم پانی میں بھگو کر رکھنے کے بعد مشین میں ڈالتا ہوں۔ بازار سے سامان آتا ہے تو وہ دھو کے فریج میں رکھتا ہوں،پھر کچن دھوتا ہوں، ابھی سوچ رہا ہوں فریج بھی ڈیٹول سے دھو لوں،دن بھر قوت مدافعت کے حصول کے لیے لہسن، ادرک، اجوائن، کلونجی، زیرہ، سونف، دھنیا چباتا ہوں،
گرم پانی پی پی کے منہ اور حلق میں آبلے پڑ گئے ہیں۔ بہت زیادہ خوفزدہ ہوں، تنہا ہوں بھائی، ڈر تو لگتا ہے۔ پہلے سنا وائرس گرمی میں جل جائے گا، پھر کہا گیا مون سون کی بارش میں بہہ جائے گا، اب جاڑا بھی عروج پر ہے، سال کے بارہ موسم گزر گئے لیکن ہائے! کورونا نا گزرا۔ ”

اپنے پردیسی دوست کی باتیں سن کے ہم تھوڑا گھبرا گئے اور بولے:

”بھائی اتنا نفسیاتی نہ بن، ہم بھی احتیاط کرتے ہیں پر اس سے بچنا ہے، اس طرح تُو پاگل ہو جائے گا۔ ہر چیز میں اعتدال سے چلو، کورونا کمزور دل کے افراد پر نفسیاتی اثرات مرتب کر چکا ہے۔ احتیاط ضرور کرو پر اسے حاوی یا طاری نہ کرو (ورنہ پورے پاگل ہو جاؤ گے ) اور بھیا فریج پہ رحم کرنا، گرم مصالحے کھانے سے بھی کچھ نہیں ہونا، یہ بھی غلط فہمی ہے، ایسا کر پاکستان آجا، کورونا پازیٹو بھی ہوا تو با آسانی داخلہ مل جائے گا ”

فون جیب میں رکھنے کے بعد ہم نے سر پکڑ لیا اور ساتھیوں سے رخصت لے لی۔

خیر یہ بحث تو پورے سال ہر گلی ہر کوچے میں عام رہی، جتنے لوگ اتنی باتیں، ہم میں اب ہمت نہیں تھی کہ مزید کسی سے کچھ کہتے، تھک گئے لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے۔ اب طے کر لیا ہے کہ 2021 میں کسی سے اس بات پر نہیں الجھیں گے۔

بھائی سب کا اپنا عقیدہ اپنا نظریہ، لوگوں کی باتوں سے حسب معمول دماغ کی دہی جم گئی تھی اور دہی سے لسی۔ جیسے تیسے گھر پہنچے،

گھر میں داخل ہوئے تو گیٹ سے مہمان کی آوازیں باہر سنائی دے رہی تھیں۔

”ارے! یہ وائرس دراصل ہم مسلمانوں کے خلاف کفار کی عالمی سازش ہے۔ مگر یہ ہم مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور پاکستانی مسلمانوں کی تو دنیا مثال دیتی ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہمارا عقیدہ کتنا پکا ہے۔ میڈیا سنسنی پھیلاتا ہے، خاص کر جب ہم مذہبی اجتماع، ریلی، دھرنے کی بات کریں۔ ہم نے تو نہ لڑنا ہے نہ ڈرنا ہے، لڑنا صرف کافروں، غداروں اور ملک دشمن عناصروں سے ہے، اور ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).