2020 اور باشعور پاکستان کا خواب


آج اس سال کا آخری دن بھی آن پہنچا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سال اپنے اندر اتنا فشار لے کر آئے گا۔ وقت نے ایک دفعہ پھر ہم پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔ بنی نوع انسان نے ایک بار پھر ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کے عہدے کا اہل بنایا۔

زندگی نے اپنے کاری زخم کرونا کی وبا سے پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار پاکستانی قوم کا ایک اور امتحان لینے کی کوشش کی۔ کیا قسمت اور دنیا کی ستم ظریفی اور پاکستانی قوم کے روایتی ردعمل کے درمیان کچھ بدلنے کی امید ہے؟ کیا ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کریں گے یا پھر وہی ازلی غیر ملکی قوتوں کو اور طاقت کے ایوانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اپنے سماجی و سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے؟

ہم کب تک اپنے مسائل کے حل کے لیے بحیثیت قوم اکٹھا ہونے کے بجائے دوسروں کی راہ تکتے رہیں گے؟ ہمارے سماج کو روٹی اور بقا کی جنگ میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ نجانے اور کتنی صدیاں درکار ہوگی کہ انفرادی حقوق کے بارے میں شعور اجاگر ہو۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم اسی دال میں اپنے مطلب کا کالا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں ہیں کبھی صنفی امتیاز کی صورت میں کبھی بلوچستان کی حقوق کی صورت حال پر اور کبھی سیاستدانوں کی جمہوریت کے لیے نوحہ سن رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اس قوم کو ملی دال کا زیادہ حصہ ہی کالا ہے اور ہم سب اپنے اپنے نقطہ نظر کا کالا ڈھونڈ کر اس کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

ایسے معاشرے میں جہاں ہر شخص اپنی دکان کھولے بیٹھا ہے اپنی آواز کو دوسروں سے بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی ضرورت ہے اور میں کبھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہم کب تک ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے تعبیر کے نوحے روتے رہیں گے ہمیں آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا چپ کی خاموشی توڑنی ہوگی۔ ان روایتی خوابوں کی زنجیر سے خود کو نکالنا ہوگا جس کے پیچھے لگا کر قوم کے ہاتھوں میں نئے خواب پکڑا دیے جاتے ہیں۔ اور نئی منزلوں کے وعدوں کے ساتھ بہکایا جاتا ہے کبھی وعدے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ہم اپنے پاس دیے گئے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اگر آج کو اپنے گزرنے ہوئے کل سے بہتر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہمارا آنے والا کل بھی ہمارے ماضی کی طرح ہمیں یہی نوحے سناتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).