شرابی ڈرائیور اور پولیس



کراچی پولیس نے فیصلہ کیا ہے کہ شراب پی کر گاڑی چلانے والوں کے چالان کیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لئے سانس سونگھ کر شراب کا پتہ چلانے والا آلہ خریدا جا رہا ہے۔ پولیس مین وہ آلہ ڈرائیور کے ناک یا منہ کے سامنے کرے گا۔ یہ آلہ بتائے گا کہ ڈرائیور نے شراب پی ہوئی ہے یا نہیں چالان تو پہلے بھی ہوتے تھے اور پاکستان میں شراب پر ویسے بھی پابندی ہے، شراب پی کر گاڑی، جہاز اور کوئی بھی مشین چلانے پر دنیا میں پابندی ہے۔

دنیا جہان میں لوگ اس قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں شرابی کی سزا کا طریقہ یہ ہے کہ پولیس شک کی بنا پر ملزم کو گرفتار کرتی ہے۔ شک کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ جن میں بازار میں غل غپاڑہ کرنا، بے ہودہ حرکات کرنا یا گاڑی بہت تیز چلانا وغیرہ شامل ہے۔ شک کی بنیاد پر پکڑے ملزم کو ہسپتال لایا جاتا ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر اس کا طبی معائینہ کر کے رپورٹ لکھتا ہے، خون اور پیشاب کے نمونے لیبارٹری بھیج دیتا ہے۔

اس دوران ملزم کی عدالت سے ضمانت ہو جاتی ہے۔ لیبارٹری کی رپورٹ آنے کے بعد ڈاکٹر رپورٹ پولیس کو بھیج دیتا ہے۔ جو چالان مکمل کر کے عدالت بھیج دیتی ہے۔ اب عدالت کی طرف سے تاریخیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔ پولیں اور ڈاکٹر کو گواہی کے لئے عدالت جانا پڑتا ہے۔ ملزم کے وکیل کی تند و تیز باتیں سننی پڑتی ہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اس دوران ملزم پولیس، ڈاکٹر اور لیبارٹری والوں سے بارگین کرتا ہے اور عام طور پر سزا سے بچ جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس نے ہسپتال کی وزٹ کے دوران چھاپہ مار کر ہسپتال میں داخل ایک سیاسی قیدی کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد کر لیں۔ قانون کے مطابق اس شراب اور شرابی کو شرابی ثابت کرنے کے لئے لیبارٹری سے تصدیق کرانا ضروری تھا۔ سیاسی قیدی صوبائی حکومت کا اہم رکن تھا۔ اس کی شراب کی بوتلوں کو لیب نے شہد قرار دے کر چیف جسٹس کے منہ پر ایک قانونی طمانچہ رسید کیا تو چیف جسٹس دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ چیف بھی پاکستان کے باقی بڑوں کی طرح اپنے کام سے زیادہ دوسرے معاملات میں دلچسپی لیتا تھا۔

عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی بجائے صحت۔ صنعت، تجارت اور سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ یہ ملک بھی عجیب ہے۔ یہاں محکمہ صحت تعلیم والوں کی ٹانگیں کھیچتا ہے تو محکم زراعت سیاستدانوں کی داڑھی پکڑے ہوئے ہے۔ اسی چیف جسٹس نے ڈیم کے نام پر کروڑوں پاکستانیوں سے چندہ اکٹھا کیا اور سین سے غائب ہو گیا۔ کہتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم کنارے بیٹھا، ڈیم کی رکھوالی کیا کروں گا۔ جب سے ریٹائر ہوا ہے سین سے غائب ہے۔

پاکستان میں ڈراؤنگ لائسنس لینے کے لئے ایک میڈیکل ٹیسٹ کی شرط بھی ہے۔ جس کے لئے ایک میڈیکل فارم ہوتا ہے جو ڈاکٹر خود بھرتا ہے۔ یہ فارم لائسنس کے خواہشمند کی عمر اور نظر ٹیسٹ کے علاوہ یہ بھی تصدیق کرتا ہے درخواست دہندہ شراب نہیں پیتا۔ یہ لائسنس پولیس میڈیکل افسر دو سو روپے میں بھر دیتا ہے۔ عام طور پر ٹریفک پولیس کے دفتر کے باہر بیٹھے خدمتگار سائل سے فارم اور فوٹو لے کر رکھ لیتے ہیں اور شام کو جتنے فارم اکٹھے ہو جائیں میڈیکل افسر سے دستخط کروا لاتے ہیں۔

کئی اندھے اور معذور اس طرح آسانی سے لائسنس حاصل کرلیتے ہیں۔ شراب پینے والے کا تو مسئلہ ہی نہیں۔ شرابی پکڑا جائے تو ہسپتال والے پیشاب کی بجائے پانی کا نمونہ لیب میں بھیج دیتے ہیں۔ لیب والے اتنے سمجھ دار ہیں کہ جس نمونے کے ساتھ نوٹ نہ لگے ہوں بھلے اس نمونے میں نیسلے کا پانی ہی کیوں نہ ہو شراب دریافت کر لیتے ہیں۔

پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی ہے مگر غیر مسلم اور غیر ملکی اس پابندی سے مستشنیٰ ہیں۔ یہاں شراب پینے والے تو پاکستانی مسلمان ہیں مگر بیچنے والے غیر مسلم۔ شراب ہر جگہ ہر شہر اور ہر قصبے سے مل جاتی ہے۔ پینے والے اور بیچنے والے ایک دوسرے کے جانے پہچانے ہیں اس لئے کوئی مشکل نہیں۔ سٹاک چیک کرنے کرنے والے بھی ان دکان داروں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ کاروبار یہاں خاصا منافع بخش ہے البتہ نئے پینے والے کو ذرا مشکل ہوتی ہے اور یہی نئے پینے والے کبھی کبھی سب شرابیوں کو بدنام کرتے ہیں۔

برطانوی قانون کے مطابق شراب کی ایک خاص مقدار 0.08 % یا اس سے زیادہ خون کے نمونے میں پائی جائے تو ڈرائیور کو پانچ ہزار پونڈ اور چھ ماہ سے بارہ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے اور اس کا ڈرائیونگ لائسنس معطل ہو سکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی کم و بیش اسی طرح کی سزائیں مقرر ہیں۔ سب سے بڑی سزا کسی ڈرائیور کا لائسنس معطل یا کینسل ہونا ہے۔ ان ملکوں میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ان ملکوں کی شہریت حاصل کرنے سے بھی مشکل کام ہے۔ باقاعدہ ڈرائیونگ سکول جانا پڑ سکتا ہے جو کئی مہینے آپ کو تربئیت فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ میں بھی اس جرم کے سمری ٹرایلز ہوتے ہیں۔ دو گھنٹے کے اندر اندر پولیس ڈرائیور کا بلڈ سیمپل لے لیتی ہے۔ پائلٹس کے لئے ضروری ہے کہ پرواز کے آٹھ گھنٹے پہلے تک شراب کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا ہو۔

بنیادی مسئلہ قانون کا نہیں، قانون کی پابندی کا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے روئیے کا ہے جو غیر ذمہ دار یا کرپٹ ہیں۔ شہریوں کی ذمہ داری اور قانون کی پابندی اس کا اہم جزو ہے۔ پاکستان میں ابھی ادارے اور شہری کسی بھی حالت میں قانون کی پاسداری پر برضا و رغبت راضی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مخصوص ٹارگٹ ملتے ہیں جنہیں وہ نوکری سمجھ کر پورا کرتے ہیں۔ یہ ٹارگٹ چالان کی مہینہ وار تعداد اور مخصوص جرمانوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ پورے کرنے کے لیے کسی دن سڑکوں پر ناکے لگا کر ہر صورت چالان پورے کیے جاتے ہیں۔ جو بھی ڈرائیور ناکے پر رکتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی نقص نکال کر چالان کر دیا جاتا ہے۔ یہ رنجیت سنگھ والی پھانسی کی طرح ہے، پھندا جس کے گلے میں پورا آئے کس دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).