13 سال کی حاملہ لڑکی کو سکول جانے کی اجازت کیسے ملی


فتو (فرضی نام) 13 برس کی ہیں اور وہ چار ماہ کی حاملہ ہیں۔ وہ جنسی استحصال کا نشانہ بنی تھیں۔

اس سال تک اگر حالات تبدیل نہ ہو چکے ہوتے تو فتو کو ناصرف سکول چھوڑنا پڑتا بلکہ ممکنہ طور پر زبردستی شادی کرنے کے لیے بھی مجبور ہونا پڑتا۔ لیکن اب وہ ایک دن نرس بنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔

حاملہ طالبات اور کم عمر ماؤں کے سکول جانے پر پابندی کی وجہ سے تنزانیہ کی حکومت کو گذشتہ ماہ عدالت میں جواب دہ ہونا پڑا تھا۔ یہ دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایسی پابندیاں باقاعدگی سے نافذ کی جاتی ہیں۔

ایک ماہ قبل، ایک اور عدالت نے سیرا لیون کو یہ پابندی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ اس مغربی افریقی ملک میں حالات کس طرح تبدیل ہوئے ہیں تاکہ فتو جیسی لڑکیاں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری (ایکوواس) کی عدالت نے، جو خطے کی عدالتِ عظمیٰ ہے، فیصلہ سنایا کہ یہ ’امتیازی سلوک‘ ہے اور اس سے لڑکیوں کے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے تین ماہ بعد مارچ میں، سیرا لیون نے حاملہ لڑکیوں اور نو عمر ماؤں کے سکول میں داخلے پر پابندی ختم کر دی۔

ملک میں طویل عرصے سے نوعمری میں حمل کا مسئلہ تھا – 18 سال سے کم عمر تقریباً 35 فیصد سے زیادہ لڑکیوں نے 2013 میں بچوں کو جنم دیا تھا۔ 2014 اور 15 میں ایبولا کی وبا کے دوران جب سکول بند کر دیے گئے، اس وقت کچھ علاقوں میں یہ تعداد 65 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

جیسے ہی سیرا لیون میں ایبولا بحران ابھرا، حکومت نے سرکاری پالیسی کے طور پر حاملہ لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر دی تھی تاکہ وہ ’دوسری لڑکیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ترغیب نہ دیں‘۔ جبکہ 2015 میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس پابندی سے 3000 لڑکیاں متاثر ہوئی تھیں، کچھ اندازوں کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ علاقہ جہاں ’ہر تیسرا شخص ریپ میں ملوث ہے‘

اپنے ’ریپ کے بعد مجھے بیٹیوں کے لیے ڈر لگتا ہے‘

نیروبی کی بلیک مارکیٹ جہاں بچوں کو 300 پاؤنڈ میں بیچا جا رہا ہے

‘ہر سات سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر کی ایک بچی بیاہ دی جاتی ہے’

اگرچہ حاملہ لڑکیوں اور نو عمر ماؤں کو تعلیم سے جڑا رکھنے کے لیے سیکھنے کے دوسرے مراکز قائم کیے گئے تھے، لیکن وہ ہفتے میں صرف تین دن کھلتے تھے اور چار مضامین پڑھاتے تھے۔ ایکواس عدالت نے دسمبر 2019 میں اسے ختم کرنے کا حکم سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھی ’امتیازی سلوک کی ایک اور شکل‘ ہے۔

لڑکیوں کی ایک پوری نسل کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں بنیادی تعلیم کے سرٹیفکیٹ امتحان (بی ای سی ای) میں بیٹھنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ سیکنڈری سکول یا دیگر اعلی سطح کے تعلیمی مراکز، اور ویسٹ افریقی سینیئر سکول سرٹیفکیٹ امتحانات ( WASSCE)، جو یونیورسٹی یا کالج میں داخلے کے لیے ضروری ہیں، اور ملازمت کے لیے اہم ہیں۔۔۔۔ ان سب کے لیےبی ای سی ای سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس پابندی کو ختم کرنے کے لیے عدالت جانے والی تنظیموں میں سے خواتین کے خلاف تشدد اور استحصال کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم سیرا لیون (WAVES) کی حنا فاطمتا یامباسو کہتی ہیں کہ ’ہم ان لڑکیوں کی تباہی کے ذمہ دار ہیں‘۔

’ہر ایک کی توجہ ایبولا پر قابو پانے پر مرکوز تھی اور ہم نے نو عمر لڑکیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو محسوس نہیں کیا۔ لیکن ہم نے سبق سیکھ لیا ہے۔ ہم نے لڑکیوں کو بتایا ہے کہ ہم اس کورونا وائرس کے وبائی مرض کے دوران انھیں نہیں بھولیں گے۔‘

لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا

اور اس بار معاملات مختلف ہیں، کیونکہ حکومت نے اس مسئلے کا اعتراف کیا ہے۔ صدر جولیس مادا بائیو نے گذشتہ سال عصمت دری کو قومی ایمرجنسی قرار دیا تھا اور فوری کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔

وزیر تعلیم ڈیوڈ معینہ سینگیہ نے پچھلے مارچ میں اس پابندی کو ختم کرتے ہوئے اس کو ’بنیاد پرستی کے خاتمے‘ کے ایک نئے دور کی علامت قرار دیا تھا جس میں ’تمام بچوں کو کسی امتیاز کے بغیر، تعلیم حاصل کرنے کے حق کی حوصلہ افزائی اور حمایت کی جاتی ہے۔‘

https://twitter.com/dsengeh/status/1244597164799655936

پہلی بار، تقریباً ایک ہزار حاملہ لڑکیاں اپنے امتحانات میں بیٹھنے کے قابل ہوئیں۔

تاہم، حنا اور WAVES جیسی تنظیموں کو، ملک کے رہنماؤں کے علاوہ برادریوں کے دلوں اور ذہنوں کو بدلنے کے لیے بھی ایک لڑائی لڑنی پڑی ہے۔

حاملہ لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کرنا سیرا لیون میں بہت سارے لوگوں میں مقبول تھا۔ مارچ میں جب یہ پابندی کالعدم قرار دی گئی تو ایک خاتون نے بی بی سی کی عمارو فوفانا سے کہا کہ وہ ’اپنی بیٹی کو کسی حاملہ کے ساتھ کلاس میں نہیں بیٹھنے دیں گی – اس سے برا اثر پڑتا ہے۔‘

فتو کے والدین فرانسس اور آئی خوش ہیں کہ ان کی جوان بیٹی اپنے حمل کے دوران سکول جانا جاری رکھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پابندی کے خاتمے سے ان کا نظریہ بدل گیا ہے، اور اب انھیں امید ہے کہ فتو تعلیم حاصل کر پائے گی، جبکہ ایک سال قبل شاید انھوں نے اس کی شادی پر غور کیا ہوگا۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ بو ضلعے کے نیوا لینگا چیفڈوم میں ان کی چھوٹی کاشتکار برادری کی طرف سے ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

انھوں نے WAVES کے ذریعہ ان کو دیے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’کچھ لوگوں نے ہماری بیٹیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے کی اطلاع WAVES اور پولیس کو دینے والے ہمارے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔‘

’لیکن کچھ لوگ موجودہ حالت میں ہماری بیٹی کے سکول جانے کے خیال کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔‘

فتو خود کہتی ہیں کہ سکول میں زندگی تھوڑی مشکل ہوگئی ہے۔ وہ آسانی سے تھک جاتی ہیں اور انھیں مطالعہ کے لیے زیادہ دیر تک بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے، لہذا ’میں کلاس میں پوری طرح سے حصہ نہیں لے پاتی۔‘

’سہیلیاں، کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے اب میرا انتخاب نہیں کرتیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کروں گی۔‘

لیکن وہ مزید کہتی ہیں: ’میں بچہ پیدا ہونے کے بعد سکول جانا جاری رکھنا چاہوں گی کیونکہ میں سکول (کی تعلیم) ختم کرنا چاہتی ہوں اور تعلیم یافتہ بننا چاہتی ہوں۔ ‘

’مجھے امید ہے کہ میں مستقبل میں ایک نرس بن پاؤں گی۔ جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو میں خود کو بہت سی لڑکیوں کے لیے ایک مثال بنانا چاہتی ہوں۔‘

ان کے سکول کا کہنا ہے کہ عملی اور جذباتی طور پر، اس پابندی کو ختم کرنے میں ایک بہت بڑی ایڈجسٹمنٹ رہی ہے۔ ہیڈ ٹیچر نے کلاس سے باہر کچھ طلبا کی جانب سے فتو سے امتیازی سلوک‘ کا مشاہدہ کیا ہے، اور یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ کچھ اساتذہ نے کلاس میں ان کی کارکردگی کے بارے میں ’غیر معقول رویہ‘ دکھایا ہے۔Tanzania's teenage mothers.  [ 60% of girls under the age of 20 are married ] [ 27% of girls aged 15-19 are pregnant or have given birth ],[ 24% of girls aged six and older have had no formal education ], Source: Source: Tanzania Demographic and Health Survey 2015-16, Image: Women on a truck in Zanzibar, Tanzania

اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ سکول میں واپس آنے والی کچھ نوعمر مائیں عمر سے پہلے ہی پختہ ہوگئی ہیں، اور اس طرح کے رویے ظاہر کرتی ہیں گویا وہ بالغ ہیں۔۔۔ اور بعض اوقات اپنے اساتذہ کی توہین کرتی ہیں۔‘

سکول اور فتو کے والدین دونوں نے بی بی سی کو ایک بار پھر WAVES کو بھیجے گئے سوالات کے ذریعہ بتایا کہ سکول کے ساتھ شراکت میں چلنے والی صحت کی ایک سہولت کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اور دیگر بچیاں ناصرف اپنے بچوں کے لیے صحت مند رہیں بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنے سکول کے کام کو جاری رکھ سکیں۔

تنزانیہ کا سخت مؤقف

ایکویلٹی ناؤ، جس نے سیرا لیون کے خلاف قانونی مقدمہ درج کرنے میں مدد فراہم کی تھی، اب یہ جنگ براعظم کے دوسری طرف تنزانیہ میں لڑ رہی ہے۔ اس مشرقی افریقی ملک میں حاملہ بچیوں کے سکول جانے پر پابندی کو ختم کرنے کی امید میں انھوں نے افریقی عدالت برائے انسانی حقوق میں گذشتہ ماہ ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔

لیکن ایکویلٹی ناؤ کی جوڈی گیٹاؤ کا کہنا ہے کہ تنزانیہ کا معاملہ سیرا لیون سے بالکل مختلف ہے اور اس طرح کے قانونی نتائج کی ضمانت نہیں ہے۔

’اب جبکہ دوسرے ممالک اس طرح کی پابندی عائد کرنے سے گریز کرتے ہیں، تنزانیہ میں قیادت نے حالیہ برسوں میں جان بوجھ کر اس پر عمل درآمد کیا ہے۔‘

وہ 2017 میں صدر جان مگلفی کے انتباہ کا حوالہ دیتی ہیں: ’جب تک میں صدر ہوں۔۔۔ کسی بھی حاملہ لڑکی کو سکول واپس جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حاملہ ہونے کے بعد، آپ کی زندگی ختم ہے۔‘

جب انھوں نے دارالسلام کے باہر ایک ریلی کے سامنے یہ اعلان کیا تو ان کی تعریف کی گئی: ’اگر ہم حاملہ لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دیتے ہیں تو ایک دن وہاں موجود تمام لڑکیاں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ملیں گی۔‘ انھوں نے ان لڑکیوں کو حاملہ کرنے والے مردوں کو 30 سال قید کی سزا کی دھمکی بھی دی تھی۔

Students of Al-Haramain secondary school attend a class on their first day of re-opened school in Dar es Salaam, Tanzania, on June 1, 2020

ہر سال تنزانیہ میں 60،000 طلبا جو سکول چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے نصف تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے

تنزانیہ میں دنیا میں نوعمر حمل کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

یو این ایف پی اے کے مطابق، 2016 میں، 15 سے 19 سال کے درمیان چار لڑکیوں میں سے ایک یا تو حاملہ تھی یا اس نے بچے کو جنم دیا تھا۔ اسی سال کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 36 فیصد خواتین 18 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی شدہ تھیں۔

ورلڈ بینک کا، جس نے تنزانیہ کو رواں سال 500 ملین کا قرض دیا، کہنا ہے کہ ہر سال سکول چھوڑنے والے60 ہزار طلبا میں سے نصف لڑکیاں ہیں، جن میں سے 5500 کو حمل کی وجہ سے سکول چھوڑنا پڑا۔

تنزانیہ نے اس مسئلے کا اعتراف کیا ہے اور جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق مزید تعلیم کی فراہمی کے لیے سکولوں میں پروگرام اور خدمات مرتب کی ہیں۔ اس نے عزم کیا ہے کہ عالمی بینک کے قرض کا ایک حصہ ثانوی تعلیم تک زیادہ بہتر انداز میں رسائی پر لگایا جائے گا۔

لیکن گیتاؤ کہتی ہیں کہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ تمام لڑکیوں کو تعلیم فراہم کی جائے گی۔

اور وہ روایتی طور پر بنے اس نظریے کے خلاف بحث کرتی ہیں کہ حاملہ لڑکیوں کو سکول میں جانے کی اجازت دینے سے دوسری لڑکیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں اس سے لڑکیوں کو حاملہ ہونے کے بوجھ کا پتہ چلے گا، اور یہ دوسروں کو ان کے تولیدی حقوق سمجھنے کے لیے رہنمائی کا کام کرسکتا ہے۔‘

اور ان کے خیال کی حمایت کرنے والے ثبوت موجود ہیں۔ برطانوی میڈیکل جریدے لانسیٹ نے نو افریقی ممالک کے ان اعداد و شمار کی جانچ کی جس میں 1993 سے 2015 کے درمیان سکول واپس آنے والی لڑکیوں پر پابندی کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اس سے پتہ چلا ہے کہ پابندی کے دو سالوں کے دوران 14 سے 20 سال کی لڑکیوں کے اوسطاً حمل کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اور تجزیہ کار یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ کسی لڑکی کے تعلیم سے محروم ہونے کا اثر صرف اس کے اور اس کے کنبہ کے معاشی حالات پر نہیں پڑتا، یو این ایف پی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوعمر لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کی تعداد کی وجہ سے تنزانیہ میں ایک سال میں 5.22 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

ایکویلٹی ناؤ کا کہنا ہے کہ وہ تین سال سے تنزانیہ کی حکومت سے پابندی ختم کرنے کے لیے درخواست کر رہے ہیں اور افریقی عدالت کے ساتھ قانونی چارہ جوئی ہی آخری حل رہ گیا ہے۔

گیتاؤ کا کہنا ہے کہ ’قانونی عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں لیکن لڑکیوں کے مستقبل کی خاطر ہمیں امید ہے کہ اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp