سال نو، ”خوشخبریاں“ اور مثبت رپورٹنگ


تبدیلی سرکار نے مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور کورونا وبا سے پسے اور کچلے ہوئے عوام کو ایک ساتھ کئی تحفے عنایت کیے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں دو روپے 31 پیسے، ڈیزل کے نرخوں میں ایک روپیہ 80 پیسے، مٹی کے تیل میں تین روپے 36 پیسے اور ایل پی جی کے دام میں 15 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ساڑھے تین روپے تک اضافے کی منظوری دی گئی تھی۔

قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ ان کی کمر دہری ہو گئی ہے مگر قربان جائیے تبدیلی میڈیا کے کہ جس نے بروقت مثبت رپورٹنگ کے خوب صورت مظاہرے سے تبدیلی سرکار کی کارکردگی کو خوب سراہا ہے۔ جب اکثر ٹی وی چینلز حکومت کی گوشمالی کر رہے ہیں وہیں کچھ مثبت رپورٹنگ کے مارے چینلز تالی بجا رہے ہیں اور خوشخبری دے رہے ہیں کہ وزیراعظم نے پچھلی حکومت کے ستائے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے انہیں مثالی ریلیف دیا ہے۔

ہمارے پیارے اور راج دلارے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے مشورہ دیا تھا کہ میڈیا چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ دکھائے اس کے بعد ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ نئے پاکستان کے جنرل صاحب نے تو محض چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کرنے کا حکم جاری کیا تھا مگر ہمارے کچھ فرماں بردار چینلز ابھی تک حکم کی تعمیل کر کے مثالی جذبۂ حب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔

ملک کے دیگر چینلز کو ان فرمانبردار چینلز کی پیروی کرنی چاہیے جن کی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے آج جدید ریاست مدینہ کوفہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اگر تمام محب وطن پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ چینلز کی پیروی کرنا شروع کر دے تو ملک کچھ ہی روز میں امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائے گا۔

ہم یہاں مثبت رپورٹنگ کے چند نمونے پیش کر کے منفی رپورٹنگ والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کریں گے۔
ایک گاہک نے ریڑھی والے سے پوچھا کہ دس مالٹے کتنے کے دو گے؟
ریڑھی والے نے جواب دیا کہ سو روپے کے۔
گاہک نے ملتجیانہ انداز میں کہا کہ کچھ رعایت کرو۔
ریڑھی والے نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ آپ اسی روپے کے آٹھ لے جائیں۔

قریب کھڑے لوگ ریڑھی والے کی اس رحمدلی اور عوامی خدمت کے جذبے سے بالکل ویسے ہی متاثر ہوئے جیسے ہمارے محب وطن چینلز جناب وزیراعظم کی خدا خوفی اور ایثار و قربانی کے بے پایاں جذبے سے متاثر ہو کر یوں مثبت رپورٹنگ فرما رہے ہیں کہ ہمارے صوفی منش اور نیک طینت وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی اوگرا کی دس روپے اضافے والی سمری مسترد کر کے صرف دو روپے اکتیس پیسے بڑھائے۔

اس تابناک مثال کو پیش نظر رکھا جائے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں ایسا فہیم و عقیل اور درد دل رکھنے والا وزیراعظم عطا فرمایا ہے کہ جس کی معاملہ فہمی اور سوجھ بوجھ کے طفیل آج مقبوضہ کشمیر کے سقوط کے بدلے گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر بچا ہوا ہے ورنہ مودی تو سب کو ہڑپ کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔

اگر وزیراعظم صاحب کوشش نہ کرتے تو ڈالرز ایک سو پینسٹھ روپے کے بجائے دو سو پینسٹھ، چینی سو روپے کلو کے بجائے ڈیڑھ سو روپے کلو، آٹا اسی روپے کلو کے بجائے ڈیڑھ سو روپے کلو، فی انڈہ پچیس روپے کے بجائے ایک سو پجیس، دودھ ایک سو تیس روپے لٹر کے بجائے دو سو روپے لٹر، چکن تین سو ساٹھ روپے کلو کے بجائے چھ سو روپے کلو، پٹرول ایک سو چھ روپے فی لٹر کے بجائے دو سو چھ روپے لٹر، گھی دو سو رپے لٹر کے بجائے تین سو روپے لٹر، بجلی اٹھارہ روپے فی یونٹ کے بجائے چھتیس روپے فی یونٹ اور ایل پی جی ڈیڑھ سو روپے کلو کے بجائے تین سو روپے کلو ہوتی۔

وہ تو وزیراعظم کی خدا ترسی، معاملہ شناسی اور بصارت و بصیرت آڑے آئی ورنہ وہ باون وزیروں اور مشیروں کی ٹیم کی جگہ ایک سو باون وزیر اور مشیر بھی رکھ سکتے تھے۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جگہ گم نام مردار کو بھی لگا سکتے تھے۔ ہمارے وزیراعظم چونکہ عوام کے بہت خدمت گار اور ”خواص“ کے فرمانبردار ہیں اسی لیے انہوں نے شیخ رشید جیسے نورتن کو وزیر داخلہ لگا کر عوام کو بڑی خوشخبری دی ہے ورنہ وہ اس کی جگہ ثاقب نثار یا حسن نثار کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتے تھے۔

مثبت رپورٹنگ کی ایک اور مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم کو آخر کار تین سال کے بعد ”معاشیت“ کی تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی ہے اور بہت جلد روزانہ ہونے والی دس ارب روپے کی کرپشن ختم ہو جائے گی۔ سوئس بینکوں میں پڑے دو سو ارب ڈالرز واپس آ جائیں گے۔ پچیس تیس ارب ڈالرز نواز شریف اور زرداری سے وصول کر لیں گے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے ان کے منہ پر دے ماریں گے۔ بیرون ملک پاکستانی ڈالرز کی بارش کردیں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر پلک جھپکنے میں تعمیر ہو جائیں گے۔ بیرون ممالک سے لاکھوں لوگ ملازمتوں کے لیے آنا شرو ع ہو جائیں گے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی قدر و قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ مطلب یہ کہ بندہ صبح اٹھ کر دروازہ کھولے گا تو خوشخبریاں بارش کی طرح اس پر برسنا شروع ہو جائیں گی۔

ایک سردارجی نے اپنے نکے سے پوچھا کہ 8 × 9 کتنے ہوتے ہیں۔ نکے نے جواب دیا کہ 89۔ سردار جی نے خوش ہو کر نکے کو تھپکی اور نقد انعام دیا۔ پاس بیٹھے دوست نے کہا کہ سردار جی 8 × 9 تو 72 ہوتا ہے۔ آپ نے انعام کس چکر میں دیا ہے؟

سردار جی نے بیٹے کی طرف خوشی سے دیکھتے ہوئے کہا کہ پہلے سے بہت بہتر ہوا ہے۔ پہلے تو 99 بتاتا تھا۔

اب ہمارے ”نکے“ کو بھی ”معاشیت“ کی سمجھ آنے لگی ہے۔ تمام میڈیا مثبت رپورٹنگ کرتا رہے تو بہت جلد مذکورہ بالا خوشخبریوں کی طرح اچھی خبروں کی بہار آ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).