سالا ایک مچھر


کچھ عرصہ پہلے ہر طرف مچھر ہی مچھر نظر آتے تھے۔ گھر، گلی، محلہ، دکان اور بازار ہر جگہ ہر طرف مچھروں کی بھوں بھوں سنائی دیتی تھی۔ لیکن آج کل ان کی چھٹی ہے۔ مچھروں کی بھوں بھوں نہیں آتی اس کا مطلب یہ نہیں کہ مچھر ختم ہو گئے ہیں۔ بس ان کے سر اور تال بدل گئے ہیں۔ ایک شام مجھے گمان ہوا کہ مچھر اب نہیں رہے تو میں نے اپنے فلیٹ کی بالکونی کا دروازہ کھول دیا۔ پہلے جہاں بے شمار مچھر آ جاتے تھے اب وہاں ایک بھی نہیں تھا۔

میں تازہ ہوا کے لیے بالکونی کے پاس جا بیٹھا اور چائے کی چسکیوں کے ساتھ کتاب پڑھنے لگا۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ گردن پر ایک سوئی جیسی چبھن نے میرا گمان کافور کر دیا۔ اور میں بالکونی کا دوازہ بند کر کے کمرے میں آ گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ مچھر آ گئے ہیں۔ میں نے اسپرے میز پر رکھا اور کتاب پڑھنے لگا۔ کمرے میں خاموشی تھی۔ اس لیے کوئی بھی آواز اور آہٹ محسوس کی جا سکتی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں سے جانی پہچانی آواز ٹکرائی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسپرے اٹھایا۔ اور اس آواز کا تعاقب کرنے لگا۔ لیکن مجھے کامیابی نہ مل سکی۔

سوچا وہ بھاگ گئے ہوں گے ۔ میں بیٹھ گیا اور پھر سے کتاب میں منہ ڈال دیا۔ ابھی چند ہی لائنیں پڑھی تھیں کہ ایک بار پھر سیٹی کی آواز آئی۔ بھوں بھوں اور سیٹی کی آواز پر میں پھر الرٹ ہو گیا۔ پھرتی سے اسپرے اٹھا کر جیسے ہی میں اپنے دائیں جانب لپکا۔ مجھے ایک مچھر دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کے میں اس کا تیا پانچہ کر دیتا اس نے چیخ ماری اور کہا ”پلیز مجھے مت مارنا۔ میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ پلیز میری بات سنیں“

میں یہ آواز سن کر پہلے حیران، پھر پریشان ہو گیا۔ یہ آواز کسی اور کی نہیں، مچھر کی تھی۔ ایک مچھر۔ سالہ ایک مچھر۔ میں جیسے چریا ہو گیا تھا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ سالہ ایک مچھر بھی کبھی بات کر سکتا ہے۔ مجھے یقین نہ ہوا، میں پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سوچا کوئی غیبی آواز ہے۔ لیکن میری حیرانی اور تجسس اس وقت اور بڑھ گیا جب وہ مچھر میرے سامنے لہراتا ہوا آ کر میز پر رکھی کتاب پر بیٹھ گیا۔ اور ہاتھ جوڑ کر مجھے کہنے لگا ”محترم میں ہی بات کر رہا ہوں، مجھے مت ماریں۔ میری بات سنیں“

کبھی مچھر بھی بات کر سکتا ہے بھلا ، میں سوچ میں پڑ گیا۔ مجھے یوں سوچتا دیکھ کر مچھر نے چٹکی بجاتے ہوئے میرا دھیان اپنی طرف مبذول کرایا۔ ”جناب میں مچھر ہی بات کر رہا ہوں، آپ ہندوستان کی طرح حیران اور پاکستان کی طرح پریشان نہ ہوں۔“

”تم مچھر ہو؟“ میں نے کہا۔ ”جی ہاں میں وہی بدنام زمانہ ڈینگی مچھر ہوں لیکن آج کل ہماری مارکیٹ ڈاؤن چل رہی ہے، کیونکہ کورونا وائرس نے ہم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا سارا آتنک ہی ختم ہو گیا ہے۔ کوئی ڈرتا ہی نہیں ہم سے!“ مچھر نے کہا۔

”تم بات کیسے کر سکتے ہو“ میرے سوال پر مچھر کہنے لگا ”میں نہ صرف بول سکتا ہوں، بلکہ ڈانس بھی کر سکتا ہوں اور کرتب بھی دکھا سکتا ہوں۔ آپ انسان ہم سے بغض رکھتے ہو اس لئے آپ نے ہمارا ٹیلنٹ دیکھا ہی نہیں۔“

” تم مچھروں میں کاٹنے کے سوا اور کوئی ٹیلنٹ نہیں ہوتا۔“ میں نے کہا۔ ”۔

” ہم کو سب سے زیادہ نقصان نانا پاٹیکر نے پہنچایا ہے۔ اس کے ڈائیلاگ ’’ایک مچھر سالہ انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے‘‘ نے ہماری واٹ لگا ڈالی۔ لیکن بھلا ہو ہماری نسل کا جس نے مچھروں کی کچھ کھوئی ہوئی عزت بحال کی۔“ مچھر نے کہا۔

”تمہاری بھی کوئی نسل ہے؟“ میرے پوچھنے پر مچھر بولا ”میں ڈینگی ہوں“ ۔
” مچھروں کی اور بھی اقسام ہوتی ہیں کیا؟“ میں نے پوچھا۔
” دنیا میں تین ہزار نوع کے مچھر ہوتے ہیں۔“ مچھر نے بتایا۔
” اتنی مچھروں کی اقسام۔ تم پھینک رہے ہو!“ میں نے ٹوکا۔

انسانوں کی اتنی اقسام ہو سکتی ہیں تو کیا ہماری نہیں۔ ”اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا“ ان تین ہزار نوع کے مچھروں میں انتالیس اقسام کے مچھر ہوتے ہیں۔ جس میں گھریلو مچھر، ساؤدرن مچھر، ایشئن ٹائگر، ییلو فیور اور ڈینگی مشہور ہیں۔ ”مچھر نے اپنی دانش مندی دکھائی۔

” اچھا تم کون سے والے ہو۔“
” میں ڈینگی ہوں۔ لیکن کٹر والا“ مچھر نے کہا۔
” کٹر والا سے کیا مطلب تمہارا؟“ میں نے پوچھا۔

” جیسے تم میں کٹر جنونی ہوتے ہیں نا ہم بی ویسے ہی ہیں۔ کسی اور کو برداشت ہی نہیں کرتے۔ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔“ اس نے وضاحت کی۔

” تم یہاں کیوں آئے ہو، تم ایسے گھومو پھرو گے تو تمہارا کام تمام ہو سکتا ہے، خود میں بھی تم کو مارنے ہی والا تھا“ میں نے کہا۔

” ارے یار ہماری پنچایت نے کچھ مچھروں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم سمجھدار، با اثر افراد اور لکھاریوں کو جا کر بتائیں کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ اور ہمارے مچھروں کے خدا نے بھی کہا ہے کہ انسان اس کا علاج ڈھونڈ لیں گے۔ اس لیے وائرس سے نا ڈریں۔ ہم سے ڈریں۔ کیونکہ ہم وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں۔“ اس نے کہا۔

” تم زیادہ نہیں بول رہے؟ تم اسپرے کے ایک چھڑکاؤ کی مار ہو۔ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے، ابے مچھر۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بند کر دیا ہے۔“ میں نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔

اس نے میری بات سن کر طنزیہ انداز میں کہا ”تم بھی مجھے کنویں کے مینڈک لگتے ہو۔ لگتا ہے جدید تحقیق کا تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں۔ کیا تم نے آسٹریلوی جریدے بزنس انسائیڈر کا یہ انکشاف نہیں پڑھا کہ ملیریا انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ مچھر نے اپنی ہلاکت خیزی فخریہ انداز بیان کی۔

مچھر اپنی دھاک بٹھانے کے بھرپور موڈ میں تھا۔ بولا ”ملیریا نے تو بڑے بڑوں کے قدم اکھاڑ دیے۔ کیا چنگیزخان، کیا اٹیلا دی ہن کے لشکر۔ یہاں تک کے سکندر اعظم اور فرعون توتن خامن بھی ملیریا میں مبتلا ہو کر پرلوک سدھارگئے۔“

باتیں کرنے والے مچھر نے اپنی تاریخی علم اور داستان گوئی سے مجھے حیران کر دیا۔ ”وہ تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن مندر، مسجد، گردوارہ، گرجا گھر، ہری دوار، مکہ، ویٹیکن سٹی اور دیوار گریا۔ سب کے سب کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔ تم ایسا کچھ نہیں کر سکے ہو۔“ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔

تمہاری وجہ سے ان کی کوئی دکان کبھی بند نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس وائرس نے سب کا دھندہ چوپٹ کر دیا ہے۔ اور لوگوں نے سائنسدانوں سے امیدیں جوڑ لیں ہیں! ”

” کچھ نہیں ہوگا۔ تم بھی یہیں ہو اور میں بھی ۔ سب دکانیں کھلیں گی“ مچھر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں ابھی تک اس کی باتیں سن کر حیرانی میں مبتلا تھا کہ اس نے پیار سے میرے گال پر کاٹا اور میرے کان میں بھوں بھوں کرتا ہوا بغیر الوداع کہے غائب ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).