نالہ ہائے شرر بار: غالب کی علامات آتش


27 دسمبر کو محبان غالب اور غالبیات مرزا نوشہ کا یوم پیدائش منایا۔ اس دن کی مناسبت سے غالب کے فکروفن پر بات کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ ماہرین غالبیات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ غالب کو ان کی اپنی سطح پر سمجھنا اور سمجھانا ایک کار گراں ہے، کیوں کہ ایک طرف غالب ایک مختلف الجہات فنکار ہیں تو دوسری طرف ان کی برتی گئی علامات میں غالب کے نام اور فن کی طرح اتنی بلاغت ہے کہ ان کے تخیل کی عام سطح تک تحلیل کرنا اسی طرح کارے دارد والا معاملہ ہے جس طرح ان کی ترکیب ”کاغذی پیرہن“ کو عملی دنیا میں کبھی کبھار ہی زیب تن کیا جاتا تھا، وہ بھی ازمنہ وسطٰیٰ میں اس وقت جب کسی بے بس فریادی کو جابر حکمراں کے سامنے دادرسی کرانا مقصود ہوتا تھا۔ البتہ علامت آتش کو غالب نے اپنے کلام (فارسی و اردو) میں کچھ اس طرح برتا ہے کہ انہیں اگر آتشیں شاعر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ویسے غالب کی ترک وجاہت، ان کے زمانے کی نیرنگیاں اور ان کے زور بیاں کے ساتھ ساتھ ان کے کلام کی گہرائی اور گیرائی، سبھی کو آگ اور شعلوں کے ساتھ ایک نرالی مناسبت ہے۔

دراصل زمانے کی ستم ظریفی غالب کے تصور عشق کے ساتھ کچھ اس طرح گھل مل گئی تھی کہ مرزا سراپا نالہ اور احتجاج بن گئے تھے۔ غالب کے اپنے تصور کے مطابق نالہ اور فریاد کسی قسم کے مصنوعی تصنع کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ”بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“ کے مصداق بے بسی کی فریاد میں بدرجہ اتم اتنی قوت تاثیر ہوتی ہے کہ وہ سنگ دلوں اور سخت دلوں کے سینوں کو چاک کر کے ان سے چشمے رواں کر سکتی ہے۔ بقول غالب:

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے

”بلا کیف ولا تشبیہ“ بے کس و مجبور مظلوم کو قرآن نے بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت دی ہے (قرآن، 4 : 148 ) ۔ تاہم غالب کی مظلومیت کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمیں یہاں پر سب سے پہلے ظلم کی تشخیص کرنا پڑے گی۔ ظاہر ہے غالب کے تناظر میں ظلم فقط ان کے ”محبوب“ کی طرف سے بے توجہی کے علاوہ اور کوئی چیز ہوہی نہیں سکتی۔ فارسی اور اردو شعراء بالعموم اور ان میں سے صوفی شعراء بالخصوص مولانا رومی کی مثنوی کی پہلی سطر سے ہی ”نے“ کی اپنی فریاد اور ”نالوں“ کے آہ و فغاں، جو اس نے اپنی ”اصل“ سے ”فراق“ پر نہ صرف خود بلکہ انسانیت کو مجموعی طور پر سکھائے ہیں، سے واقف رہے ہیں۔ مولانا رومی کے مطابق ”نے اگرچہ خالی ہے، لیکن اس میں سے فراق کی آہیں شعلوں کی صورت میں خارج ہوتی ہیں“ ایک محب کا سینہ جدائی کے شعلوں سے معمور رہتا ہے اور یہ آگ تبھی ٹھنڈی پڑ سکتی ہے جب اس کا اپنے محبوب سے وصل ہو جائے۔ مثنوی کے چند ابتدائی اشعار کچھ اس طرح سے ہیں :

بشنو از نی، چون شکایت میکند
و از جدائی ہا شکایت میکند
کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
من بہ ہر جمعیتی نالاں شدم
جفت بد حالاں و خوش حالاں شدم
آتش است این بانگ نای و، نیست باد
ہر کہ این آتش ندارد، نیست باد

یہی وجہ ہے کہ غالب ”نالے“ کو ”نے“ کا پابند نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم غالب کا سینہ کبھی بھی آتش عشق سے خالی نہیں رہا اور محبت کے ان شعلوں نے غالب کے جگر کو ہمیشہ کباب کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ”آنچ پر تنکوں کا رقص غالب کو اس قدر مخمور کرتا ہے کہ اسے یہ گمان گزرتا ہے کہ ساقی نے شراب میں جیسے زعفران کی آمیزش کی ہے۔“ بقول غالب:

رقص خس بر شعلہ ز انسان سر خوشم دارد کہ من
دانم اندر بادہ ساقی زعفران انداختہ

یہاں پر اگرچہ غالب نے زرد زعفرانی سفوف کا تقابل آنچ کے لال رنگ سے کیا ہے، تاہم ایک اور پیرایے میں انہوں نے ”چنگاری کے رقص“ کو حیات انسانی کی مدت مختصر کے ساتھ تشبیہ دی ہے :

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمئی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک

یعنی فرصت زندگی اتنی کم ہے کہ انسان بمشکل دنیا کو اتنی دیر دیکھ سکتا ہے جتنی دیر ایک چنگاری رقص کر کے بجھ جاتی ہے تاہم ”گرمئی بزم“ سے ”رقص شرر“ تک کی یہ مدت قلیل قرآن کی رو سے نہایت ہی اہم ہے۔ یہ صرف ”فنا“ نہیں ہے۔ اصل میں ”بقا“ بھی اسی ”گرمی“ پر منحصر ہے۔ یہ ”گرمی“ نہ صرف ”قدمت لغد“ (قرآن، 59 : 18 ) کے قرآنی اصول کے تحت ”کل“ یعنی آخرت کو کام آئے گی بلکہ اس سے ملتی جلتی دوسری قرآنی تعلیم ”قدمت و اخرت“ (قرآن، 82 : 5 ) کے مطابق اس ”گرمی“ کے آثار دنیا میں باقی رہیں گے۔ غالب کے ادبی شاگرد ’اقبال نے شاید اسی حقیقت کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا ہے:

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ’پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی

غالب تو بہرحال غالب ہیں! ان کا پیمانہ عشق اس قدر لبریز ہے کہ ان کے سامنے ”بقا“ اور ”فنا“ کی دوئی کوئی معنی نہیں رکھتی! یہی وجہ ہے کہ ولادت اور موت ان کے لئے عدم ہی کے دو رخ ہیں :

شرر آتش رخشندہ عشقم کہ یکی است
دم میلاد و وفاتم تنہ ناھا یا ہو

غالب کا غم عشق نہایت شدید ہے۔ اس کی شدت کا صحیح اندازہ غالب کے بغیر اور کسے ہو سکتا ہے؟ شدت غم سے دل و جگر کا پھٹ جانا بدیہی ہے۔ اگر غم کی جگہ ایک شعلہ ہوتا تو یہ بات یقینی تھی کہ چکماک پتھر کی رگوں سے اس طرح خون رواں ہوتا جو پھر کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتا:

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

ہجر و فراق کی اندوہناک تاریکی نے غالب کو غم مرکب بنا ڈالا ہے۔ ساتھ ساتھ غالب کو اپنے محبوب، جس کو وہ آتشیں گلاب کہتے ہیں، کا رقیب کے ساتھ ہونے کا تصور بھی شعلوں کی نذر کرتا ہے جو غالب کے لئے موسم بہار کی دلفریبی کو بھی اچاٹ کر دیتا ہے :

ریزم از وصف رخت گل را شرر در پیرہن
آتش رشکم، بہ جان نو بہار افتادہ ایم

عشق کی یہی تلاطم خیز موجیں غالب کی اس حیثیت اور حالت کو بیان کرتی ہیں جہاں وہ یا تو طوفان کی نذر ہونا چاہتے ہیں یا پھر شعلوں کے رقص میں محو ہونا چاہتے ہیں :

بسان موج میبالم بہ طوفان
بہ رنگ شعلہ میرقصم درآتش

غالب کا یہ رقص ان کی ذات تک محدود رہتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ رقص میں جنون کی حد تک مصروف رہنے کے باوجود غالب کے دل کی تپش تھمنے کا نام بھی نہیں لیتی۔ جب راتوں کو یہ تپش بے قابو ہو جاتی ہے تو یہ برق بن کر بادلوں کو نچوڑ لاتی ہے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بارش اور ٹھنڈی ہواؤں کا سبب بن کر بھی سوزش دل ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتی۔ سوز دل بارش کے پانی میں کچھ اس طرح منتقل ہو جاتا ہے کہ نتیجتاً جو گرداب اٹھتے ہیں ان میں اب شعلے گردش یا بالفاظ دیگر رقص کرنے لگتے ہیں۔ غالب نے اس خیال کو اس شعر میں بیان کیا ہے :

شب کہ برق سوزدل سے زہرہ ابر آب تھا
شعلہ جوالہ ہر اک حلقہ گرداب تھا

تاہم غالب کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کے آنسوؤں میں یہ صلاحیت پوشیدہ ہے کہ وہ ان کے الفاظ کی تپش سے شعلہ زن کاغذ کو بجھا سکتے ہیں۔ شاید سوزش جگر  نے چشموں کی راہ لے کر خود کو اتنا بریدہ کیا ہے کہ وہ شعلوں کی نذر ہوئے کاغذ کو بجھانے پر قادر ہے :

خواستم شکوہ بیداد تو انشا کردن
قلم از جوش رقم شد خس طوفان زدہ

غالب کو شاید اپنے آتشیں نالوں کا خوب ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ”آتش پرستی“ کے طعنوں کو سہنے کے لیے بھی ہردم تیار نظر آتے ہیں۔ بقول غالب:

آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
سر گرم نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

تاہم ایک بات عیاں ہے کہ غالب کو مطعون کرنے والے ان کے خیالات، جو ”گرم حروف“ کی شکل میں نمایاں ہوتے ہیں، پر انگلی رکھ کر نشان دہی نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کی انگلی جل کر راکھ ہونے کا غالب کو پورا یقین ہے :

لکھتا ہوں اسد سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

غالب کا اپنے تخیل اور فن پر یہی یقین ہے جو ان کو اپنے نالوں کا رشتہ رومی کی مثنوی کے ابتدائی اشعار میں برتے گئے ”نے“ اور ”نالوں“ سے متعلق خیالات سے جوڑنے پر تیار کرتا ہے۔ اس ضمن میں غالب کا خیال ہے کہ ان کے قلم کی آواز  نے پوری دنیا کو جلا ڈالا ہے، کیونکہ انہوں نے ”نے“ کے نغمے کے ذریعے پورے ”نیستان“ میں آگ پھونکی ہے :

سوخت عالم را صریر کلک من غالب منم
کاتش از بانگ نی اندر نیستان انداختہ

شاید انہی آتشیں نالوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اقبال نے ”جاوید نامہ“ میں غالب کو منصور الحلاج اور قرۃ العین طاہرہ کے ساتھ مشتری کے مدار میں دکھایا ہے۔ واضح رہے کہ مشتری سرخ ’بھورے اور زرد (گھنے بادلوں ) گیسوں سے مرکب سیارہ ہے اور یہ سیارہ غالب کی جسمانی وجاہت کے ساتھ ساتھ ان کے ”غبار خاطر“ اور ”آتشیں تخیل“ کے ساتھ کافی مناسبت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).