انڈیا: وہ لڑکیاں جنھوں نے چائے کے باغ میں رگبی کھیلنا شروع کیا اور دنیا میں شہرت حاصل کی


’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دور دراز اور پسماندہ چائے کے باغات کے علاقے میں پیدا ہونے کے باوجود میں کسی کھیل کی مدد سے اپنے گاؤں، کنبے، ریاست اور ملک کا نام روشن کروں گی۔ یہ سب ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔ کھیل کھیل میں کھیلے جانے والے کھیل سے میری ہی نہیں بلکہ علاقے کی بہت سی لڑکیوں کی قسمت بدل رہی ہے۔ اس کھیل نے ہمارے خوابوں کو پر لگا دیے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے 20 سالہ سندھیا رائے کا جنھیں رگبی کے کھیل نے ایک نمایاں مقام دیا ہے۔

سندھیا نے 13 سال کی عمر سے ہی شوقیہ طور پر رگبی کھیلنا شروع کیا تھا۔

سندھیا کے والد مغربی بنگال کے شمالی شہر سلی گڑی کے قریب جنگلات اور چائے کے باغات سے گھرے ہوئے گاؤں سرسوتی پور کے ایک باغ میں مزدور ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی نابینا خواتین کرکٹ کے میدان کے لیے تیار

جمائمہ آفریدی: ’میرا مقصد روٹیاں پکانا نہیں ہے‘

’کھیل پر طعنے ملتے تو میرا حوصلہ مزید بڑھ جاتا‘

رگبی کے توسط سے ملک اور بیرون ملک ٹورنامنٹس میں اپنا مقام بنانے والی سندھیا کو گذشتہ ہفتے ’ورلڈ رگبی ان اسٹاپیبل کیمپین‘ کے تحت ایشیاء کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

اس مہم کا مقصد خواتین میں رگبی کو فروغ دینا ہے۔ اس میں منتخب ہونے کے بعد ایک کمپنی نے سندھیا کو مفت لیپ ٹاپ بھی دیا ہے۔

وسائل کی کمی باوجود بین الاقوامی سطح پر پہنچی

چائے کے باغات اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حالات زار اور ان باغات میں فاقے سے اموات کی خبریں اکثر سرخیوں میں رہتی ہیں۔ لیکن ان تمام رکاوٹوں اور قلتوں کے باوجود قریبی دیہات کی کم از کم چار لڑکیوں نے ملک کے لیے بہت سے تمغے جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور رگبی کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے۔

حالانکہ رگبی دوسرے ممالک کی طرح انڈیا میں اتنا مقبول نہیں ہے لیکن اس نے پسماندہ سمجھے جانے والے چائے کے باغ والے علاقوں کے قبائلی لڑکیوں کو نئے خواب دیے ہیں۔

ان میں سے متعدد لڑکیاں رگبی کھیلنے کے لیے فرانس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کر چکی ہیں۔

چائے کے باغات کی ان لڑکیوں کی صلاحیتوں کو سرسوتی پور چرچ میں عبادت کرنے آئے فادر جارج میتھیو نے پہچانا۔

انھوں نے جب کولکتہ میں اپنے دوست پال والش کو بتایا جو کہ وہاں ’جنگل کروز‘ کے نام سے ایک تنظیم چلاتے ہیں تو وہ اس علاقے میں رگبی کو فروغ دینے کے لیے آ گئے۔

والش کولکتہ میں برٹش ہائی کمشنر تھے۔ انھوں نے روشن کھاکا نامی ایک شخص کو کوچ مقرر کیا۔

2013 میں پہلی بار علاقے کی لڑکیوں نے چائے کے باغ میں ایک کھیت میں رگبی کھیلنا شروع کیا۔

اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ان میں سے سندھیا رائے، سمن اوراوں، سوپنا اورواں اور چندا اورواں اب سکالرشپ کی مدد سے کولکتہ میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

سندھیا کا کہنا ہے ’میں فی الحال سپورٹس مینیجمنٹ میں بیچلرز کر رہی ہوں۔ یہ میرا آخری سال ہے۔ اس کے بعد میں دو سال ماسٹرز کروں گی۔ اس کے بعد میں رگبی کھیلتے ہوئے ہی سپورٹس مینیجر یا کھیلوں کے میدان میں کوئی اچھی نوکری کرنا چاہتی ہوں تاکہ میں اپنی خام صلاحیتوں کو نکھار سکوں۔‘

آخر رگبی کھیلنے کا خیال کیسے آیا؟

سندھیا نے بتایا ’وہ بچپن سے ہی برجو رائے کو رگبی کھیلتا ہوا دیکھ کر بڑی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کے گاؤں میں کھیل کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں تھی اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتا بھی نہیں تھا۔ لیکن کولکتہ سے مقامی چرچ میں آنے والے فادر میتھیو نے ہمارے خوابوں کو راستہ دکھایا۔ انھوں نے مقامی لڑکیوں میں کھیل کو فروغ دینے کے لیے کولکتہ کی ایک تنظیم جنگل کروز کے ذریعے سرسوتی پور میں رگبی کا ایک تربیتی پروگرام شروع کیا۔‘

’ابتدائی دنوں میں مقامی لوگ لڑکیوں کے چھوٹے کپڑے پہن کر کھیلنے پر اعتراض کرتے تھے۔ پھر گھر والے پوچھتے تھے کہ اگر ٹانگیں ٹوٹ گئیں تو تم سے شادی کون کرے گا؟ لیکن آہستہ آہستہ ان کی تشویش ختم ہوگئیں۔‘

تاہم دوسری لڑکیوں کے برعکس سندھیا کو کنبے کی طرف سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں ’جب میں نے والدین سے پوچھا تو ان کا جواب تھا، جاؤ کھیلو۔‘

قابلیت کی کمی نہیں

سندھیا کا کہنا ہے کہ ’مزدوروں کی دنیا صرف چائے کی شجرکاری اور اپنے آس پاس کے ہفتہ وار بازاروں تک محدود ہے۔ لوگ اپنے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ لوگوں کے پاس باہر جانے کے لیے پیسہ بھی نہیں ہے۔ اب ہماری کامیابی کے بعد سرسوتی پور کی تمام لڑکیاں رگبی کھیلنا چاہتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ پھر بھی مخالفت کرتے ہیں کہ یہ لڑکیوں کا کھیل نہیں ہے۔ گاؤں کے لڑکے بھی رگبی کھیلتے ہیں۔‘

سندھیا کا کہنا ہے کہ چائے کے باغ والے علاقوں میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ ان کو صحیح موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی طرف سے ہر ایک کی مدد کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ ابھی تو میں خود اس کھیل کی تدبیریں سیکھ رہی ہوں۔ رگبی نے مجھے اس گاؤں سے نکال کر تعلیم کے لیے کولکتہ پہنچایا ہے۔

لیکن سندھیا کا ابھی تک کا سفر آسان نہیں رہا ہے۔

معاشرے کے سوالات

وہ بتاتی ہیں ’ایک بار کلب کے میچ کے لیے اوڈیشا جانے سے پہلے گاؤں والے نے کہا کہ یہ لوگ تمہیں وہاں لے جا کر فروخت کر دیں گے۔ لیکن ضلعی اور ریاستی سطح کے مقابلوں میں کھیلنے کے بعد لوگوں کی زبانیں قابو میں آئیں۔ ویسے بہت سے لوگ اب بھی اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔‘

سندھیا کے مطابق جب وہ ٹرافی جیتنے کے بعد اپنی ٹیم کے ساتھ ناگپور سے لوٹیں تو گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے اسے کہاں سے خریدا ہے؟ لیکن اب ان لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے اور کل تک ہم پر تنقید کرنے والے ہی ہماری کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں۔

مستقبل کے لیے کیا منصوبہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں، ’رگبی کے کھلاڑی کی حیثیت سے پوری دنیا میں نام کمانا، ملک کے لیے تمام ٹورنامنٹ جیتنا اور دیہی علاقوں میں رگبی کھیلنے والی لڑکیوں کو فروغ دینا۔ اگر میں بھی دو چار لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرسکوں تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس علاقے کی لڑکیاں کھیلوں کے ساتھ ساتھ پڑھائی پر بھی توجہ دیں۔ ان اسٹاپیبل میں شامل ہو کر اب میں آسانی سے یہ کام کر سکتی ہوں۔‘

سندھیا کے مطابق رگبی کو فروغ دینے کے لیے اس کھیل کی جانب معاشرے کے رویے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp