اسامہ ستی: اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت، مشکوک گاڑیوں کو روکنے کے کیا قواعد ہیں؟


جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں کی طرف سے ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک طالب علم اسامہ ندیم ستی کی ہلاکت کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے انکوائری کا حکم دیا ہے۔

پولیس کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب اسلام آباد میں جی 10 سگنل کے قریب پیش آیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد مشکوک معلوم ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی ہلاکت واقع ہوئی۔

پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے وقت مقتول گاڑی میں اکیلا تھا اور تھانہ رمنا کی جانب سے فائرنگ کے واقعے میں ملوث پانچ اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ادھر مقتول کے والد ندیم ستی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں ان پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسامہ نے گذشتہ روز ان سے ذکر کیا تھا کہ ان کی پولیس کے کچھ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس پر انھوں نے یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمھیں مزہ چکھائیں گے۔

ایف آئی آر کے مطابق ‘دو جنوری کی رات دو بجے کے قریب میرا بیٹا اپنے دوست کو ایچ الیون نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا۔ واپسی پر مذکورہ بالا پولیس اہلکاروں نے اس کی گاڑی کا پیچھا کیا اور گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد فائرنگ کی جس سے میرا بیٹا موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔’

پولیس کا مؤقف

چیف کمشنر کی جانب سے جاری انکوائری آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص انور قتل کی انکوئری کریں گے اور قتل کی رپورٹ پانچ دن میں جمع کروائی جائے گی جبکہ آئی جی اسلام آباد پہلے ہی واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور ڈی آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جبکہ

تاہم ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو رات کو کال ملی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، اے ٹی ایس پولیس کے اہلکاروں نے جو علاقہ میں گشت پر تھے، مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا۔

https://twitter.com/DigIslamabad/status/1345240289724792832?s=20

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی کوروکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی پولیس نے متعدد بار جی 10 تک گاڑی کا تعاقب کیا نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں میں فائر کیے، بدقسمتی سے دو فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔‘

انھوں نے کچھ دیر بعد ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ وقوعہ میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور قانون ہاتھ میں لینے والے کسی شخص کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’وقوعہ کی تحقیقات جاری ہیں، اصل حقائق سامنے آنے پر قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔‘

اسامہ ستی کون تھے؟

22 سالہ اسامہ ندیم ستی کی تعلق کوٹلی ستیاں سے تھا اور وہ ایف ایس سی کے طالبعلم تھے اور اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

اسامہ کے والد ندیم ستی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اسامہ بہت اچھا اور پیارا بچہ تھا، میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اگر ہمیں انصاف نہیں ملتا تو آج میرا بیٹا شہید کیا ہے کل کسی اور کا کریں گا، یہ کام رکے گا نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے دھمکی دی تھی، اب دیکھیں یہ دھمکی والا ہی سلسلہ لگتا ہے، جب آپ ونڈ سکرین سے چھ فائر کریں گے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سامنے سے مارنے کا مطلب تو ٹارگٹ کلنگ ہی ہوتی ہے۔‘

اسامہ کے والد ندیم ستی ایک تاجر ہیں اور اس واقعے کے بعد سے اسلام آباد میں مختلف جگہوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اسامہ کی گاڑی پر مختلف اطراف سے تقریباً 17 گولیاں چلائی گئیں جبکہ ملزمان پر دفعہ 302 اور دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

کار

مشکوک گاڑیوں کو روکنے کے لیے کیا قواعد ہیں؟

ندیم ستی کی ہلاکت کے بعد سے سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے بلکہ اس حوالے سے اکثر افراد سنہ 2019 کے اوائل میں ساہیوال میں پیش آنے والے ایسے ہی ایک واقعے کی جانب اشارہ بھی کر رہے ہیں جس میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے دو خواتین سمیت چار افراد ہلاک اور دو بچے معمولی زخمی ہوئے تھے۔

سوشل میڈیا پر اکثر افراد یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کسی کو صرف شک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جانا کہاں کا انصاف ہے اور آخر اس حوالے سے پولیس کے پروٹوکول کیا کہتے ہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق آئی جی سندھ افضل شگری کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملزم کا پیچھا کرتے وقت پولیس کو دیے گئے قواعد انتہائی سادہ ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر آپ کو شک ہے کہ یہ دہشتگرد ہے اور پہلے ان کی جانب سے مذاہمت سامنے آتی ہے تو آپ انھیں روکنے کے لیے فائر کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ پر فائر نہیں ہو رہا ہے اور آپ نے گاڑی کو روکنا ہے تو پروٹوکول یہی ہے کہ آپ گاڑی کے ٹائروں پر فائر کر کے اسے روکنے کی کوشش کریں۔’

اگر کوئی پروٹوکول توڑتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟

سنہ 2019 میں ساہیوال کے قریب ہونے والے واقعے کے بعد بھی پولیس اہلکاروں پر دہشتگردی اور قتل کی دفعات لگائی گئی تھیں تاہم انھیں انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے بری کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا تھا جب رینجرز کے اہلکاروں نے ایک شخص سرفراز شاہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جبکہ اس واقعے کی ویڈیو مقامی میڈیا پر چلی تھی جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس بارے میں از خود نوٹس بھی لیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی متعقلہ عدالت کو جلد از جلد اس مقدمے کو نمٹانے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت عدالت نے رینجرز کے اہلکار شاہد ظفر کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے اسے موت کی سزا سنائی تھی اور سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ تاہم سنہ 2018 میں صدر ممنون حسین نے رینجرز اہلکار کو صدارتی معافی دے دی تھی۔

سابق آئی جی سندھ کے مطابق اگر آپ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ’پولیس اہلکاروں نے ایسا کسی ذاتی وجہ کے باعث کیا تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دہشتگردی ہے یا قتل ہے، بلکہ یہ ’مین سلاٹر‘ یعنی غیر ارادی قتل کے ضمرے میں آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے لیکن ایسا آپ نے کسی ذاتی دشمنی کے باعث نہیں کیا تو وہ قتل کے زمرے میں نہیں بلکہ غیر ارادی قتل میں آتا ہے۔ تاہم پاکستان میں کیونکہ ایسے واقعات کے بعد عوامی دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے تو اس طرح کے کیسز کو دہشتگردی اور قتل کی دفعات کے طور پر سنا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملزمان رہا ہو جاتے ہیں۔‘

اسلام آباد میں چیک پوسٹس کا خاتمہ، اور پولیس کی ٹریننگ

خیال رہے کہ گذشتہ برس دسمبر کے مہینے میں نئے وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے چارج سنبھالتے ہی اسلام آباد میں تمام چیک پوسٹس کے خاتمے کا حکم دے دیا تھا۔

اس فیصلے پر جہاں اکثر صارفین نے انھیں سراہا تھا وہیں یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ کیا ایسا کرنے سے ملزمان کا پیچھا کرنے اور دارالحکومت میں جرائم کی روک تھام مزید مشکل نہیں ہو جائے گی۔

اس واقعے کے بعد بھی سوشل میڈیا پر اکثر صارفین حالیہ دنوں کے ایسے ہی کچھ واقعات کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور کچھ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیک پوسٹس کی موجودگی میں ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

افضل شگری نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے دو نظریات ہیں، ایک یہ ہے کہ جگہ جگہ چیک پوسٹس ہونے کے باعث لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے اور ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ چیک پوسٹس بالکل ہی نہیں ہونی چاہییں غلط ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی امن و امان کے مسائل ہوتے ہیں تو وہاں چیک پوسٹس لگائی جاتی ہیں اور اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ جب آپ کے پاس پہلے سے معلومات ہوتی ہیں تو آپ کے پاس ایک جگہ پر پہلے ہی نفری موجود ہوتی ہے اور کسی بھی مشکوک گاڑی کو روکنے کے لیے انتظامات بھی ہوتے ہیں، تو یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو چیک پوسٹس کی موجودگی کا جواز پیش کرتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تاہم ایسے واقعات چیک پوسٹس کی موجودگی کے باوجود ہو سکتے ہیں، اس لیے چیک پوسٹس نہ ہونے کو ہی اس واقعے کی وجہ قرار دینا درست نہیں ہو گا۔

ایسے واقعات کے بعد عام طور پر پولیس میں ٹریننگ اور ایسی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے سوال ضرور اٹھتے ہیں اور اس مرتبہ بھی اکثر صارفین یہ سوال پوچھتے اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے دکھائی دیے۔

افضل شگری کہتے ہیں کہ ’ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کی ٹریننگ اور پروٹوکول کو مزید نکھارا جائے اور یہ دیکھا جائے ان پر عمل درآمد کس حد تک کیا جا رہا ہے اور اس میں کیا سقم موجود ہیں۔ جب بھی اس طرح کا واقعہ ہو، تو ایک نظام ہونا چاہیے، کہ پولیس انکوائری کرنے کے بعد یہ بتائے کہ واقعے کے حقائق کیا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp