سیپری رپورٹ 2020: کیا پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد انڈیا سے زیادہ ہے؟


پاکستان، جوہری ہتھیار
جوہری ہتھیاروں کی تعداد پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور انڈیا نے گذشتہ دس برسوں میں اپنے جوہری ہتھیاروں میں دوگنا اضافہ کیا ہے۔

سیپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس انڈیا سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار ہیں جبکہ انڈیا کے پاس 150 ہتھیار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد زیادہ ہے۔

تاہم سیپری کی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستان اور انڈیا اپنے چند میزائل تجربات کے خبریں جاری کرنے کے علاوہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد سے متعلق زیادہ معلومات عوامی سطح پر جاری نہیں کرتے ہیں۔

سیپری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے جس کی بڑی وجہ امریکہ اور روس کی جانب سے اپنے پرانے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہے جبکہ یہ دونوں ملک تیزی سے اپنے جوہری پروگرام کو توسیع دیتے ہوئے جدید جوہری ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جوہری ہتھیار کن کن ممالک کے پاس ہیں اور کتنے ہیں

انڈیا، پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو۔۔۔

پاکستان اور انڈیا کی عسکری قوت کا تقابلی جائزہ

دنیا کے جوہری ہتھیار کہاں کہاں ہیں؟

سیپری رپورٹ کے مطابق دیگر ممالک بھی اپنی جوہری ہتھیاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں یا انھوں نے ایسا کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور انڈیا نے بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جبکہ چین بہت تیزی سے اپنے ہتھیاروں کی تعداد بڑھاتے ہوئے انھیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر رہا ہے۔

کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں؟

سیپری کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی نو جوہری طاقتوں کے پاس اس وقت تقریباً 13400 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے ہتھیار ہیں یہ جانیے درج ذیل میں۔

ملک جوہری ہتھیاروں کی تعداد

روس

6375

امریکہ

5800

چین

320

فرانس

290

برطانیہ

215

پاکستان

160

انڈیا

150

اسرائیل

90

شمالی کوریا

30-40

کل تعداد

13400

انڈیا اور پاکستان میں جوہری تنصیبات کی فہرست کا تبادلہ

انڈیا اور پاکستان نے یکم جنوری کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جوہری تنصیبات اور اداروں کی فہرست کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہر سال دونوں ممالک کے مابین ایک معاہدے کے تحت ہوتا ہے۔

انڈین وزارت خارجہ کی یکم جنوری کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق: ’نئی دہلی اور اسلام آباد میں یکم جنوری کو انڈیا اور پاکستان کے سفارتکاروں کے درمیان جوہری تنصیبات اور سہولیات کی فہرست کا تبادلہ کیا گیا، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان جوہری تنصیبات اور سہولیات پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے کے تحت ہے۔‘

‘اس معاہدے پر 31 دسمبر سنہ 1988 کو دستخط کیے گئے تھے اور وہ 27 جنوری سنہ 1991 سے نافذ العمل ہے۔ اس کے تحت انڈیا اور پاکستان ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ معلومات پہلی بار یکم جنوری سنہ 1992 کو فراہم کی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے مسلسل 30 ویں بار ان معلومات کا اشتراک کیا گیا ہے۔‘

اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کرسکتے ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ فہرست یکم جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے انڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو سونپ دی گئی جبکہ دہلی میں انڈیا کی وزارت خارجہ نے صبح ساڑھے گیارہ بجے پاکستان ہائی کمیشن کے نمائندے کو اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست حوالے کر دی تھی۔

واضح رہے کہ گذشتہ دو برسوں سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی قائم ہے اور گذشتہ برس بھی متعدد بار دونوں جانب سے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرنے کے دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔

فروری سنہ 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے میں پے لوڈ گرایا تھا جبکہ اس کے جواب میں پاکستان کی ایئر فورس نے انڈیا کا ایک جہاز مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ کو پکڑ لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان صورتحال کشیدہ ہے۔

اس کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا تھا جب جب انڈیا نے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ جس کے ردعمل میں پاکستان نے اس وقت انڈین ہائی کمشنر کو ملک سے نکال دیا تھا۔ جبکہ انڈیا نے اس فیصلے کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے کشمیر میں عائد پابندیوں کو درست قرار دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp