ریلوے اسٹیشن اور ٹرین سے جڑی یادیں


اپنے قصبے کے سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو کالج کے لئے حافظ آباد براستہ ٹرین جاتے تھے۔ ”ست والی گڈی“ کا مطلب علی الصبح گزرنے والی پہلی ٹرین تھا۔ کالیکی ریلوے اسٹیشن کے ہر حصے پر مخصوص عمر اور شعبہ کے افراد کا اکٹھ ہوتا۔ طالبات بتی گودام کے پاس سمٹی، چادروں میں لپٹی اور کنکھیوں سے نوجوان طلباء کو چکر کاٹتے دیکھتی تھیں۔ طلباء محض ایک یا دو کتب تھامے اسٹیشن کے ایک کونے سے دوسرے تک چکر لگاتے۔ (عمومی تاثر تھا کہ پورا بیگ، بستہ صرف میٹرک تک ہے ) یہ طلباء قہقہے لگاتے اپنے آنے کی خبر دیتے۔

سلام کرتے اور پھر کسی ایک کونے میں کھڑے ہو کر آنے والی ٹرین کا انتظار کرتے۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن کا بابو بالعموم اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر ہوتا تھا۔ اس کے کمرے میں ہر چند سیکنڈ کے بعد کوئی مرد یا عورت داخل ہوتے اور پوچھتے کہ باؤ جی گڈی کنے وجے آنی اے؟ کبھی مسکراہٹ اور کبھی اکتاہٹ کے ساتھ مخصوص جواب ہوتا کہ ”سکھیکی سے چل پڑی ہے“ ۔ اسی طرح ٹکٹ گھر کے پاس لگی سیٹوں پر براجمان مسافر ہر چند منٹوں بعد کھڑکی میں جھانک کر دیکھتے اور بیزار سے ٹکٹ کلرک سے ٹرین کی بابت پوچھتے۔ جواب بالعموم مخصوص ہی ہوتا تھا۔

مجھے ہر چھوٹے بڑے مسافر کا پلیٹ فارم پر جسم کے اوپری حصے کو جھکا کر ٹرین آنے کی سمت دیکھنا ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ تا حد نگاہ دیکھا جاتا کہ پہنچی کہ نہیں پہنچی۔

ڈرائیور شہر سے باہر نصب ریلوے سگنل کے پاس پہنچ کر گاڑی کا ہارن بجاتا۔ مسافر مستعدی کے ساتھ پلیٹ فارم پر فارم اپ ہو جاتے اور ٹرین کے رکتے ہیں ٹوٹ پڑتے۔ بہت زیادہ رش میں کھڑکی سے کود کر اندر داخل ہوتے بھی دیکھا جاتا۔ لوگوں کو ٹرین کی چھت پر سفر کرتے بھی دیکھا، پائیدان پر کھڑے جان خطرے میں ڈالتے بھی دیکھا۔ خالی سیٹ پر اپنا رجسٹر، ٹائی ٹینک والی فائل اور چادر رومال پھینکتے بھی دیکھا تا کہ خالی سیٹ پر قبضہ ہو جائے۔

ہم کالج جانے والے گروپ کا رخ سمہ سٹہ ایکسپریس کے اے سی سلیپر کی طرف ہوتا تھا۔ بالعموم اے سی سلیپر خالی ہوتے تھے۔ کچھ کیبن میں پچھلے اسٹیشن کے چند نوجوان براجمان ہوتے اور ہم بھی فوراً داخل ہوتے اور قابض ہو جاتے تھے۔ ٹکٹ چیکر ہاتھ میں پکڑی فائل یا کتاب دیکھ کر سمجھ جاتا کہ سٹوڈنٹ ہے۔ وہ اس طرح کے مسافروں سے ٹکٹ نہیں پوچھتے تھے۔ ہمیں کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ آپ تمام طلباء بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں۔ آپ ماہانہ پاس بنوا لیں یا ٹکٹ لے کر سفر کریں۔ اپنے سینئرز اور ساتھیوں کو ٹرین میں اسی انداز میں ہی سفر کرتے دیکھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایک اسٹیشن سے دوسرے تک کا سفر ہمارے کالج داخلے کی صورت ہمیں مفت میں لکھ کر دے دیا گیا ہو۔ گویا یہ ہمارا حق ہو۔ یہی ایس ٹی ای دوسرے ڈبوں میں سوار ہوتے اور مسافروں سے اپنے انداز میں کرایہ وصول کرتے۔

بہت سے لوگ ایسے تھے جن سے ایس ٹی ای ٹکٹ نہیں پوچھتا تھا جن میں طلباء، کچھ ملازمت پیشہ لوگ یا وہ احباب جن کی ایس ٹی ای سے شناسائی ہوتی تھی۔ ٹرین فیصل آباد سے روانہ ہوتی اور وزیر آباد تک جاتی تھی۔ ٹرین میں مختلف کردار مختلف انداز میں ہر روز سفر کے ساتھی ہوتے تھے۔ ڈرائیور اور اس کا ساتھی۔ مسافر، ایس ٹی ای، گارڈ، پولیس کے ملازمین اور ان کی طرف سے بائیس سیٹوں والی ایک بوگی یا ٹرین کی آخری بوگی اپنی مالکیت میں رکھی ہوتی تھی۔

یہاں بیٹھے مسافروں کے پاس ٹکٹ نہیں ہوتا تھا۔ یہ مسافر پولیس ملازمین کو پیسے دیتے اور سفر کرتے۔ کرائے اور منزل کے مطابق بھاؤ تاؤ ہوتا۔ ٹکٹ کے لحاظ سے آدھے پیسے پولیس ملازم کو دے دیے جاتے۔ وہ اپنی خاکی پینٹ کی جیب میں فوراً سنبھال لیتا۔ اس کی خاکی پینٹ کی جیب بھی پیسوں کی ریل پیل کی وجہ سے مٹیالے داغوں سے اٹ جاتی تھی۔ ایس ٹی ای اس آخری بوگی میں نہیں آتے تھے۔

ریلوے اسٹیشن میرے گھر سے چند منٹوں کی مسافت پر تھا۔ ریل گاڑی اسٹیشن سے تھوڑا پیچھے ہوتی تو گھر سے بھاگ کر ریلوے اسٹیشن پہنچتے اور سوار ہو جاتے۔ ٹرین فراٹے بھرتی روانہ ہوتی۔ سامنے سے بھاگتی طالبات، ملازمت پیشہ خواتین جن میں استانیاں ہوتی تھیں اور کچھ خاندان جو دوسرے شہروں کسی غرض سے جا رہے ہوتے تھے ڈرائیور کو نظر آتے اور ٹرین آہستہ ہو جاتی یا روک دی جاتی۔ کبھی کبھار یہ فرض طلباء نبھاتے اور لیور کھینچ دیتے۔

اس صورتحال میں ریلوے کا ایس ٹی، ٹکٹ چیکر بھی اتر کر اسی کمرے میں پہنچ جاتا۔ خاکی یا سفید وردی کی جیب پیسوں کے نکالنے یا جیب میں ڈالنے کے سبب مٹیالے داغ واضح نظر آتے تھے۔ ایس ٹی اس بات سے لاپروا نظر آتے کہ کوئی ان کو دیکھ رہا ہے یا یہ ٹکٹ نہ لینے والوں سے پانچ، دس بیس روپے اکٹھے کر رہے ہیں۔ بھاگ کر ٹرین پر سوار ہونے والی خواتین سے بھی ایس ٹی پیسے وصول کرتا تھا۔

کبھی کبھار ایسا ایس ٹی ای بھی آیا کہ جس نے طلباء سے ٹکٹ کا تقاضا کیا۔ اس نے فرض نبھانا چاہا تو ان سٹوڈنٹس کی طرف سے بدتمیزی کا مظاہرہ کرنے پر انہوں نے خاموشی مناسب سمجھی۔ کبھی کبھار گروپ کا شور سنائی دیتا۔ یہ گروپ چند ریلوے اہلکاروں پر مشتمل ہوتا جو ایس ٹی ای (سپیشل ٹکٹ ایگزامنر) ہی ہوتے تھے۔ یہ کسی ویرانے میں گاڑی روکتے اور ٹکٹ چیک کرتے اور وہاں کسی بغیر ٹکٹ مسافر کے فرار کی گنجائش باقی نہ بچتی تھی۔

طلباء پھر بھی دائیں بائیں بھاگنے کا موقع تلاش کر ہی لیتے تھے۔ تین چار ریلوے اسٹیشن کے ان طلباء اور ملازمت پیشہ افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی تھی۔ کچھ لوگ ماہانہ کارڈ بنوا لیتے جسے ایم ایس ٹی (منتھلی سیزنل ٹکٹ) کہا جاتا تھا تاہم میرے ساتھی کلاس فیلوز میں یہ کارڈ کسی نے بھی نہیں بنوایا تھا۔ چلتی ٹرین میں ایک سے دوسری بوگی میں کراس کرتے ہاکر بازو پر بوتلوں کی بالٹی لٹکا کر ایسا سٹننٹ کرتے تو کبھی عجب بات محسوس نہ ہوئی۔ وہ کبھی دوسری بوگی میں جانے کے لیے ٹرین رکنے کا انتظار نہ کرتے تھے۔ آج کل تو بوگیوں میں رابطہ کے لئے راستے ہیں ماضی میں پسنجر ٹرین اس کے بغیر ہوتی تھیں۔

رفتہ رفتہ ٹرین کم ہونا شروع ہو گئیں۔ پھر ہمارے ریلوے اسٹیشن پر ماہانہ مطلوبہ ریونیو نہ ہونے کے سبب ٹرین کا سٹاپ ختم کر دیا گیا۔ چنگ چی رکشوں اور بسوں نے ریلوے ٹرین کی جگہ لے لی۔ لوگ حکومت کو کوستے کہ گورنمنٹ چور ہے۔

ریلوے کے اہلکار اور ان کے بچے بہت باتمیز، خوش لباس اور مہذب نظر آتے تھے۔ وہ بے شک مزاج میں خشک ہوں مگر یہ بھی ان کی متانت اور تربیت کا حصہ تھی۔ ریلوے کوارٹر خستہ حال ہو گئے۔ ریل کی پٹری کے لوہے کے کیل، لکڑی، گول پتھر سب غائب ہو گئے۔ نہ درختوں کے تنوں کو چونا کیا جاتا اور نہ گول پتھر ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتی تار کے ساتھ ایک قطار میں جوڑے جاتے۔ پلیٹ فارم کے وہ بنچ جن پر ہم خوش گپیاں کرتے تھے اکھاڑ لئے گئے۔ روشنیاں بجھ گئیں اور شام کو چرس، ہیروئن پینے والوں کا ٹھکانہ بن گیا۔ ایک آدھ موجود سٹال بھی ختم ہو گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے عقب میں چاچا غوری کی چائے کی دکان اپنی رونق کھو بیٹھی اور ختم ہو گئی۔

کئی سالوں بعد چند روز کی چھٹی گزارنے اپنے قصبے میں گیا تو یاد آیا کہ ایک بانکا ہوتا تھا۔ وہ گرمی سردی اور دھوپ بارش میں کانٹا بدلنے جاتا تھا۔ اس کے بارے معلوم کروں۔ میں اس کا اصل نام پکارتا تھا میں اسے صغیر کہتا تھا۔ باقی پورے قصبے کا وہ بانکا تھا۔ میرا اصل نام سے پکارنا اسے اچھا لگتا تھا۔ چند دوستوں سے بانکا کے بارے پوچھا تو معلوم نہ ہوا۔ ایک بچپن کادوست منصور علی ہیرا تو کوئی بری خبر سنا رہا تھا۔

سوچا چلیں ریلوے اسٹیشن کے عقب میں واقع ایک آدھ باقی رہ جانے والے کوارٹر سے اس کی خبر لیتے ہیں۔ اس کے اہل خانہ کی کچھ مدد بھی ہو جائے گی۔ بانکا ہمارا محسن تھا۔ بہت ملنسار اور ہمدرد تھا۔ دل بہت پریشان تھا کہ ہم بانکا کی فیملی سے ملیں گے۔ معلوم نہیں کیا کہنا پڑے، نہ ہم اس کے دوست تھے، نہ ہی اس کے اہل خانہ ہم سب کو جانتے تھے۔ چلیں خاموشی سے ان کی کچھ مدد کریں گے اور واپس لوٹ آئیں گے۔ دستک دی۔ دروازہ بانکا (صغیر) نے ہی کھولا۔ خوشی اور احسان مندی کے ملے جلے جذبات تھے۔ اس نے ہمیں پہچان لیا۔ آخر زندگی کی کئی دہائیاں اسی قصبے میں گزری تھیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ بتایا کہ ریٹائر ہو گیا ہوں اور بس چند روز میں کہیں شفٹ ہونے والا ہوں۔ بانکا سے ملاقات بہت اچھی رہی۔ ہم پھر اپنی زندگی میں مصروف اور معلوم نہیں وہ کہاں پر ہے۔

ریلوے کی بربادی میں بہت سے اپنوں کا کردار بھی ہے۔ بہت سے کھانے والوں نے اس بہترین ادارے کو کھا لیا۔ غیر محسوس انداز میں یہ ادارہ اپنوں کی ستم ظریفی کا شکار ہوا۔ اس کو نوچا اور بھنبھوڑا گیا۔ اس کی پٹریاں چبائی گئیں۔ اس کے بنچ، لکڑی اور عمارتیں نگلی گئیں۔ ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا۔ کانٹا بدلنے اور سگنل کا نظام برقی آلوں پر شفٹ ہوا۔ گولہ پکڑنے کا مینول نظام ختم ہوا یہ ترقی تھی۔ مگر ٹکٹوں کو ایشو کرنے والے اسٹیشن پر واپس بھیج دیا جانا یہ کرپشن تھی۔

ریلوے کے پرانے ملازمین بہت باوقار اور وضعداری کا نمونہ ہوتے تھے۔ مجھے ہمیشہ اچھے لگتے تھے۔ با اخلاق ہوتے۔ مختلف شہروں اور صوبوں میں وقت گزرنے کے سبب تعلقات عامہ کے ماہر ہوتے تھے۔ افسوس کہ اس محکمے نے ترقی کے سفر کی اڑان کے بعد تنزلی دیکھی۔ گزشتہ سال میں نے، ماسٹر لطیف صاحب، طارق سکندر، جنید بھائی، منصور علی، مصطفیٰ احسن، راؤ غلام مصطفیٰ، دانش منظور، شاہد حفیظ اور چند دوستوں کے ہمراہ ”کالیکی ادبی پلیٹ فارم“ کی بنیاد رکھی۔

اس کا پہلا اجلاس اسی پلیٹ فارم پر منعقد کیا گیا۔ چند دوستوں نے علم و ادب کے موضوعات پر بات چیت کی، اپنی تخلیقات پیش کیں۔ اس پلیٹ فارم پر بہت سے گزرے لمحات یاد آئے۔ بہت سے چہرے آنکھوں میں پانی کی تصویر بن کر چھلکے۔ سینکڑوں سال پرانے اس ریلوے اسٹیشن جیسے بہت سے اور ریلوے اسٹیشن اور ان کے اردگرد آباد لوگوں کی یادیں ایسی ہی ہیں۔ امید ہے یہ اسٹیشن پھر آباد ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).