حکومت بے نیاز کیوں ہے؟


حکومت قومی خزانہ بھرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی ترکیب نکال رہی ہے اس کے باوجود وہ بھرنے میں نہیں آ رہا اور لوگ تنگ آ چکے ہیں مہنگائی انہیں بدحالی کی آخری سٹیج پر لے جا چکی ہے۔ اب جب سال نو کے آغاز پر اس نے پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی جس سے غریبوں کی چیخوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

بات بڑی عجیب ہے کہ حکومت کو یہ علم ہے کہ عوام کو بدترین صورت حال کا سامنا ہے اور وہ آنکھیں بند کیے اپنے اقدامات کیے جا رہی ہے اس سے لگتا ہے اسے کوئی فکر نہیں کہ برسوں سے پریشان عوام نے اسے اس لیے ووٹ دیے کہ ان کے دن پھر جائیں مگر وہ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

کوئی کہاں تک صبر کرے اور نہ گھبرائے۔ ہر ہفتے بعد کوئی نہ کوئی اذیت سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ کوئی نہ کوئی مشکل سر اٹھا لیتی ہے۔ حکومتیں اس طرح تو نہیں کیا کرتیں اور نہ ہی ایسے چلتی ہیں مگر نہیں یہاں عوام کو ووٹ دینے کی حد تک خندہ پیشانی سے دیکھا جاتا ہے اس کے بعد تو کون میں کون والی صورت حال ہو جاتی ہے لہٰذا عوام کو مہنگائی کی چکی میں خوب پیسا جاتا ہے اور ان پر نت نئے ٹیکس بھی لگا دیے جاتے ہیں وہ لاکھ شور مچائیں حکمرانوں کو یاد دلائیں کہ وہ جب ان سے ووٹ لینے آئے تھے تو ان سے کہتے کہ بس وہ جیت کر ان کے سارے مسائل حل کر دیں گے انہیں خوشحالی کے راستے پر گامزن کر دیں گے وغیرہ وغیرہ مگر اس کا اثر ان پر ذرا بھر نہیں ہوتا اور وہ مسلسل کہتے جاتے ہیں کہ اب وہ عوام کی خدمت کریں گے۔ ؟

چند روز پہلے وزیراعظم نے کہا کہ اگلے دو اڑھائی برس میں وہ اپنے وعدے پورے کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے اشارتاً اپنے وزیروں سے کہا کہ جولوگوں کی خدمت نہیں کرے گا وہ فارغ ہو جائے گا مگر یہ سب دکھاوا ہے ادھر کوئی وزیر وزارت سے محروم ہوتا ہے تو کچھ دنوں کے بعد اسے کوئی اور وزارت دے دی جاتی ہے یا اسے مشیر بنا دیا جاتا ہے۔

کوئی تبدیلی کے آثار نہیں نظر آتے۔ وزیراعظم کے گرد بیٹھے کچھ لوگ چپکے چپکے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دولت کے ڈھیر لگاتے چلے جا رہے ہیں انہیں نہ کبھی پہلے عوام کا خیال تھا نہ ہی اب ہے انتظامی معاملات بہتر طور سے نہیں دیکھے جا رہے۔ جو کوئی با اختیار ہے وہ من مرضی کرتا ہے۔ اسے کسی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں کہ کوئی اسے پوچھ لے گا؟

بہرحال عوام اب مایوس ہو چکے ہیں انہیں کسی آنے والی حکومت سے بھی توقع نہیں کیونکہ اگر پچھلی حکومتوں میں سے کوئی آتی ہے تو وہ بھی ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے گی کیونکہ اسے بھی کئی طرح کی سیاسی الجھنوں کا سامنا ہو گا اسے بھی ساتھیوں کے ناز نخرے اٹھانا ہوں گے ان کی خواہشات کا احترام کرنا ہو گا اور انہیں راضی رکھنے کے لیے جھک جھک جانا ہو گا لہٰذا ایک عوامی حکومت ہی تمام مسائل کا حل ہے یہ وڈیرے، سردار، جاگیردار اور سرمایہ دار غریب عوام کو خوشحالی کی منزل سے ہمکنار نہیں کر سکتے انہیں صرف اور صرف خود کو مستحکم کرنا ہے اس کے لیے وہ مختلف النوع طریقے اختیار کرتے ہیں جس سے عوام کے لیے بہت کم بچتا ہے۔

پھر غربت میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔ علاوہ ازیں عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط خواہ کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں تسلیم کرنا پڑتی ہیں جو مجموعی طور سے ملکی معاشی ڈھانچے کو کمزور کر دیتی ہیں لہٰذا مکرر عرض ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا، اب ایک ایسی حکومت وجود میں آنی چاہیے جو انصاف سستا اور آسان فراہم کر سکے لوگوں کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی سکت رکھتی ہو۔ پالیسیاں اور منصوبے بنانے کے لیے دوسروں کی محتاج نہ ہو اس کے بغیر بائیس کروڑ عوام کے اندر پانی جانے والی بے چینی ختم نہیں ہو سکتی اور اگر کسی کا خیال ہے کہ انہیں طفل تسلیوں سے مطمئن کیا جا سکے گا تو ایسا سوچنا غلط ہو گا۔

ہم ایک کالم میں یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ حزب اختلاف حکومت کو گھر بھجوانے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر در پیش خراب صورت حال کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے مگر نقار خانے میں طوطے کی آواز نہیں سنی جاتی کیونکہ حکمران طبقہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اسے کسی بھی طرح کی تجویز اچھی نہیں لگتی لہٰذا وہ اپنی مرضی کرتا ہے اور اس کی مرضی نے اب تک جو دکھ پہنچائے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں کہ غربت بڑھ گئی مافیاز نے جنم لے لیا، نا انصافی عام ہو گئی کمزوروں پر طاقتوروں نے یلغار کر دی، ادارے انہیں نظر انداز کرنے لگے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم نہیں ہو سکا اور احساس بیگانگی میں اضافہ ہوتا گیا۔

بہرکیف حزب اختلاف کے نزدیک یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ حکومت کو اقتدار سے محروم کرے کیونکر وہ سمجھتی ہے کہ وہ انتقام کی سیاست کر رہی ہے اس میں بیٹھے بعض لوگ احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کا نعرہ لگانے کے باوجود خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں مگر انہیں چھوا تک نہیں جا رہا۔ ایسا بھی نہیں ہے نیب نے انہیں بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے کیونکہ عمران خان اب قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں ان سے جو کوتاہیاں ہونا تھیں وہ ہو گئیں اب وہ گاہے گاہے کہہ رہے ہیں کہ اگلے برسوں میں انہوں نے عوامی فلاحی کاموں پر بھرپور توجہ دینی ہے وہ جانتے ہیں کہ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں بالخصوص سرکاری ملازمیں، انہیں ریلیف ملنا چاہیے فی الحال ایسا کچھ نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی حکومت سے نالاں دکھائی دیتا ہے بے شک کچھ منصوبے ایسے متعارف کرائے گئے ہیں جن میں ایک مکانات کی تعمیر میں رعایات ہیں مگر ان سے عوام کی اکثریت مستفید نہیں ہو سکتی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ روز مرہ اشیاء، دوائیں، بجلی، گیس اور پٹرول کو سستا کیا جائے تب جا کر اس کو تھوڑی مقبولیت حاصل ہو گی بصورت دیگر اسے عوامی غم و غصے کا سامنا رہے گا اور حزب اختلاف آخر کار لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

حرف آخر یہ کہ حکومت کو یہ انتطار نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی حریف سیاسی جماعتیں آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں جس سے وہ ”سکڑنے سمٹنے“ پر مجبور ہو جائے اور بیتے دنوں کی یادوں کو یاد کرنے لگے اسے چاہیے کہ جنگی بنیادوں پر گڈ گورننس کا آغاز کر دے۔ جو کوئی عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اسے قانون کے شکنجے میں کس دیا جائے تا کہ جو لاوا لوگوں کے دماغوں میں پک رہا ہے اسے ٹھنڈا کیا جا سکے اور انہیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ یہ سال ان کے لیے خوشحالی لا رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).