شہید قاسم سلیمانی: ایک ہمہ جہت شخصیت


حقیر چند ماہ ناسازی طبع کے باعث قلمی خدمات سے محروم رہا، لیکن تین جنوری قریب آتے ہی اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے چند بے ترتیب الفاظ اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں، چونکہ سانحہ بغداد میں شہید ہونے والے حاج قاسم سلیمانی، ابو مہدی المھندس اور ان کے رفقاء کا تعلق کسی خاص قوم، قبیلے یا مسلک سے نہیں تھا بلکہ وہ اس دھرتی پر بسنے والے ہر مظلوم دل کی آواز تھے، اس لئے انسانیت کے ان عظیم محسنوں کی یاد میں کچھ نہ لکھنے کو خیانت سمجھتا ہوں۔

میجر جنرل قاسم سلیمانی نے 11 مارچ 1957 ء کو ایرانی ضلع کرمان کے ایک دیہات رابر کے سلیمانی قبیلے میں آنکھ کھولی۔ 18 سال کی عمر میں ادارہ فراہمی آب میں ملازمت اختیار کی، کچھ عرصے بعد جب امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ضلع کرمان میں شاہ مخالف مظاہروں میں فرنٹ پہ رہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 1981 ء میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں بھرتی ہوئے۔ امریکہ کی جانب سے صدام کے ذریعے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں سردار قاسم سلیمانی نے ضلع کرمان کی دو بٹالینز کی قیادت کی۔

اس کے بعد ترقی اور بہادری کا ایسا سفر شروع ہوا، جس نے قاسم سلیمانی کو شہید قاسم سلیمانی بنایا۔ انہوں نے اٹھتے بیٹھتے ہر کام میں صرف اور صرف خداوند متعال کی ذات کو محور ٹھہرایا۔ اخلاص و مروت اور سادہ زیستی ان کا خاصہ رہا، کسی نمود و نمائش اور مقام و منزلت کی لالچ کیے بغیر ملکی و غیر ملکی محاذوں پر بیک وقت خدمات سرانجام دیتے رہے۔ چاہے ایران کے داخلی مسائل و مشکلات ہوں یا فلسطین و یمن و شام و عراق کے مظلوموں کی مدد، حاج قاسم نے کبھی کوتاہی نہیں برتی۔

بقول رہبر معظم انقلاب شہید کی سادہ زیستی کا عالم یہ تھا کہ جب کسی میٹنگ میں شریک ہوتے تو کسی کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتے اور جب تک ان سے کوئی رائے نہ مانگی جاتی، وہ بالکل خاموش رہتے یا امام جمعہ تہران کے مطابق جب شہید سلیمانی کے کسی دوست نے ان سے کہا کہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیں تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میں تو صرف اور صرف شہادت کا امیدوار ہوں۔

شہید کی شخصیت بیک وقت اتنی خصوصیات کا مجموعہ تھی کہ ان سب کا ذکر اس مختصر مقالے میں ممکن ہی نہیں۔ شہید سلیمانی کسی مقام و مرتبے کا لالچ دل میں لئے بغیر ایک انتہائی زیرک سیاستدان تھے، چند دن پہلے ایک پروگرام ”انتقامی کہ سخت شد“ میں ایک اعلیٰ ایرانی سیاسی شخصیت کا کہنا تھا کہ شہید نے ایک دفعہ ٹیلیفونک رابطے کے ذریعے مجھ سے کہا کہ یہ امریکی قابل اعتماد نہیں اور کسی بھی صورت میں ان پہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا، چونکہ ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف بدنام زمانہ داعش کو اسلحہ سے لیس کر رہے ہیں، جس کے مکمل ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔ شہید کی ماہرانہ سیاست کی کئی مثالیں موجود ہیں، مثلاً ایک سربراہ مملکت کے ساتھ صرف دو گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے کایا ہی پلٹ دی، سردار سلیمانی کے ساتھ ملاقات سے پہلے وہ شام مخالف دھڑوں کے ساتھ تھے تو صرف دو گھں ٹوں کی ملاقات نے انہیں شامی عوام کے ساتھ کھڑا کر دیا۔

شہید قاسم سلیمانی کی ہمہ جھت شخصیت کا ایک اور روشن پہلو دنیا بھر کے محروم اور مظلوم طبقے کی حمایت تھی۔ شہید دہشتگردی کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہے اور ظلم کے ستائے ہوئے مظلوم عوام خصوصاً فلسطینیوں اور یمنیوں کی حمایت اور ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہے۔ سردار سلیمانی نے قبلہ اول کے دفاع اور اسرائیل کو شکست پذیر ثابت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جہاد اسلامی فلسطین کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ کہتے ہیں کہ حاج قاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے مختلف فلسطینی گروہوں کو ایک مضبوط اور مسلح فوج میں تبدیل کیا اور ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ ان مزاحمتی تحریکوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے، چونکہ امریکہ و اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں ہمیشہ سے یہ پلاننگ رہی کہ وہاں کے عوام کو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رکھا جائے، تاکہ وہ مزاحمت کا خیال دل سے نکال کر گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جائیں، لیکن یہ شہید سلیمانی ہی تھے، جنہوں نے اس حوالے سے فلسطینی مزاحمت کو اتنا مضبوط کیا کہ وہ آج بھی منحوس صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔

حزب اللہ کی 33 روزہ جنگ میں شاندار کامیابی ہو یا غزہ کے 22 روزہ معرکے میں دشمن کی شکست، یہ سب شہید قاسم کے کارناموں کی عکاس ہیں۔ سردار سلیمانی کی اسی شجاعت اور حکمت کی بدولت ہی اسمعیل ہنیہ نے شہید قدس کے خطاب سے نوازا جبکہ ایرانی سپریم لیڈر و قائد انقلاب اسلامی نے شہید کو بین الاقوامی مزاحمت کا علمبرار قرار دیا۔ شہید سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک ان کی معنویت اور خدا کی ذات سے عشق تھا۔ اسی عشق کا نتیجہ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بغداد سے ان کے آبائی شہر کرمان تک کتنے شہروں میں عوام الناس کے سمندر نے انہیں اشکبار آنکھوں سے الوداع کیا۔ اتنی مصروفیت سے بھرپور زندگی گزارنے والے حاج قاسم نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، ان کا شمار انتہائی اہل مطالعہ افراد میں سے ہوتا تھا۔

میدان کارزار میں ان کی شجاعت، اپنے دوستوں اور ماتحت افراد کے ساتھ محبت اور خلوص کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی سے نہ کہتے کہ میدان میں جاو بلکہ خود فرنٹ لائن پہ رہتے اور دوسروں سے کہتے میرے پیچھے رہیں۔ داعش کے ساتھ نبرد آزمائی کے دوران سردار سلیمانی کبھی بھی اپنے وطن اور عوام سے غافل نہیں رہے، جب داعش کے ساتھ جنگ عروج پر تھی، اسی دوران ایرانی صوبے خوزستان میں بدترین سیلاب آیا تو شہید وہاں پر بھی اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ عوام الناس کے اموال اور بیت المال کے بارے میں شہید انتہائی حساس تھے۔ دوران جنگ ہمیشہ اپنے ہم رزم افراد کو یہ نصیحت کرتے کہ کسی کی املاک کو نقصان پہنچانے سے حتی الامکان گریز کریں۔

زندہ شہید کی شہرت رکھنے والا یہ بہترین انسان بالآخر 3 جنوری 2020 ء کو رات ایک بجکر بیس منٹ پہ اس دنیا کے بدترین افراد  کے ہاتھوں اپنے معبود حقیقی سے جا ملا۔ دنیا بھر کے مظلوموں کے دل خون ہوئے، لیکن شہید کے مقدس خون سے نمو پا کر عالمی مزاحمت مزید مضبوطی کی جانب گامزن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).