نکاح یا بغیر نکاح؟


کسی بھی انفرادی یا اجتماعی ادارے کی بنیادوں میں معیشت کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔ تاریخی شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی شادی کا ادارہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال سے رائج ہے۔ اس سے پہلے ہزاروں سالوں سے انسانی بستیاں تقریباً تیس افراد پر مشتمل ہوتی تھیں جن میں مرد، عورتیں اور بچے سب شامل ہوتے تھے۔ زمین اور ماحول سے جڑے ان قبائلی معاشروں میں صنفیں محض دو نہیں ہوتی تھیں جن کا پہننا اوڑھنا یا ان کے روزمرہ کے کام ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔

بچے سب مل کر پالتے تھے۔ جب شکار اور پھل جمع کرنے والے سماج کاشت کاری کرنے لگے اور معاشرے کو استقامت فراہم کرنے کے اہم سوالات کھڑے ہوئے تو مرد اور عورتوں کے درمیان شادی کا رواج قائم ہوا۔ حالیہ زمانے کی طرح کی پہلی شادی کا ریکارڈ میزوپوٹامیا میں ملتا ہے جہاں 2350 قبل مسیح میں ایک مرد اور ایک عورت کی شادی قرار پائی۔ اس کے بعد یہ رواج تمام دنیا میں پھیل گیا۔ پچھلی کچھ صدیوں تک محبت کی شادی کا تصور موجود نہیں تھا۔

ہم جنس پسند جوڑوں کے درمیان قانونی شادی ایک نئی قانونی فتح ہے جو کہ آج بھی کئی ممالک میں موجود نہیں ہے۔ دو برابر کے انسانوں کے درمیان شادی کا تصور یہ روایتی سوچ سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک ایسا تعلق جس کو دو برابر کے افراد اپنی رضا اور خوشی سے طے کریں، جس میں دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق برابر ہوں اور کوئی کسی کا استحصال نہ کرے آج بھی ایسا تصور ہے جو قدامت پسند سوچ کی پہنچ سے باہر ہے۔

قدیم یونان میں باپ اپنی بیٹی کا ہاتھ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ میں اپنی بیٹی جائز اولاد پیدا کرنے کے مقصد سے دے رہا ہوں۔ اس قدیم زمانے میں مرد طوائفوں، کنیزوں اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھنے کے لیے آزاد تھے لیکن ان بیویوں کی زندگی کا مقصد اپنے شوہروں کی خدمت کرنا اور گھر کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ اگر وہ اولاد پیدا نہ کرسکیں تو ان کو اپنے والدین کے گھر واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ مرد اور عورت کی شادی کا بنیادی مقصد ایک عورت کو ایک مرد کے پلو سے باندھنا ہے تاکہ اس کے بچوں کو باپ کا نام مل سکے۔ شادی کے ذریئے ایک عورت اپنے باپ کی ملکیت سے شوہر کی ملکیت میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی پسند سے شادی کے جرم میں ہر روز کئی خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ تمام دنیا میں عزت کے نام پر قتل ہونے والی ہر پانچویں خاتون کا تعلق پاکستان سے ہے۔

جب رومن کیتھولک چرچ یورپ میں ایک طاقتور ادارہ بن گیا تو شادی کے جائز ہونے کے لیے یہ لازم قرار دے دیا گیا کہ پادری اس کی اجازت دیں۔ اس کے بعد روایتی شادی کے ادارے میں خدا کو شامل کر کے اس کو مزید مضبوط کیا گیا جس سے تمام معاشرے کے افراد کو ایک نظام کے تحت چلایا جاسکے۔ 1563 میں شادی کے مقدس ہونے کو قانون میں شامل کیا گیا۔ عیسایت میں ایک مرد اور ایک عورت کی شادی جس میں طلاق کی اجازت نہیں تھی، اس سے خواتین کی زندگی کچھ بہتر تو ہوئی لیکن پھر بھی اس میں یہ بات صاف ظاہر تھی کہ خواتین کا درجہ نیچے رہے گا۔ ابراہیمی مذاہب سطحی فرق رکھتے ہیں لیکن وہ ایک ہی مذہب ہیں اور ان کا فلسفہ بھی ایک ہی ہے۔

وقت کے ساتھ دنیا بدلتی گئی۔ لکھے ہوئے لفظ نے خاص طور پر معاشروں کو بدلنا شروع کیا۔ خواتین میں تعلیم اور شعور بڑھنے کے ساتھ ان کی معاشی حالت کے بہتر ہونے سے روایتی شادی کے اصول بدل چکے ہیں۔ نسوانیات کی تحریک نے یہ خیال آگے بڑھایا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ان کو تعلیم، ملازمت، ملکیت اور سیاست میں شرکت کا برابر حق حاصل ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں ہم جنس پسند افراد اور ان کے درمیان شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہوا ہے۔

آج کا مضمون ان خواتین کے لیے ہے جن کو ادراک ہے کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں ہیں۔ ان کو کوئی لے یا دے نہیں سکتا۔ اگر کوئی ان کو دینے یا لینے کی کوشش کرے تو یہ ان کے حقوق اور ان کے گرد موجود دائرے کی پامالی ہے۔ یہ شعور وقت اور عمر کے ساتھ خود بخود بڑھتا ہے جس کا علاج پدرانہ سماج بچوں کی شادی کی صورت میں کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ان بچوں کا دماغ یا ان کی شخصیت نشو و نما پائے، ان کو ایک ایسی جگہ پھنسا دیا جائے جس سے وہ چاہتے ہوئے بھی آزادی حاصل نہ کرسکیں اور اپنی زندگی کو نظام اور تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کر لیں۔

ایک خاتون جو ایک ایسے ملک میں ہوں جہاں ان پر کسی قسم کا بیرونی جبر نہ وہ، جن کے پاس تعلیم ہو، ایک نوکری ہو جس سے ان کو اتنی تنخواہ ملتی ہو جس سے وہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکیں اور اپنے بچوں کو بھی پال سکیں تو کیا ان کو کسی سے نکاح کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا اس سے وہ اپنی زندگی میں خوش رہیں گی یا ان کی زندگی اجیرن ہوگی؟ اس سوال کا جواب ہر خاتون کے لیے مختلف ہوگا اور یہ ان کی انفرادی صورتحال پر مبنی ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے فائدے اور نقصانات سمجھنا ضروری ہوگا۔

شادی کے فوائد

احساس تحفظ، سماجی قبولیت، ملکی قوانین کے مطابق ٹیکس میں بچت اور ٹیم ورک سے ساتھ میں دولت جمع کرنا، مشکل وقت میں ایک دوسرے کے لیے موجود ہونا شادی کے کچھ فوائد میں شامل ہے۔ کچھ تہازیب میں یہ لازمی بھی ہے جیسا کہ جنوب ایشائی معاشرے میں ہر شخص کی مرد اور عورت کے جوڑے کی شادی ہونا لازمی ہے۔ شادی کے ساتھ رشتہ طویل عرصے کے لیے برقرار رکھا جاسکتا ہے، خاندانی تعلقات سے آپ کے کیریر میں مدد مل سکتی ہے۔ زندگی میں ٹھہراؤ ممکن ہے۔

اگر کسی قدامت پسند علاقے میں رہیں تو آپ کے بچوں کو اسکول یا محلے میں ستایا نہیں جائے گا۔ کئی مذاہب بھی شادی کے بغیر ایک عورت اور مرد کے ساتھ میں رہنے کو درست قرار نہیں دیتے بلکہ کئی ممالک میں اس کی سزا بھی مقرر ہے۔ جیسا کہ ہم نے 2020 سے سبق سیکھا، عالمی وبا کے درمیان جب سماجی دوری ایک بچاؤ کا طریقہ ہے، تما م دنیا کے انسان دوسرے انسانوں کے قریب آنے کے لیے مرنے کا چانس لینے تک کے لیے تیار ہیں۔ انسانوں کو دوسرے انسانوں کی ضرورت ہے۔ اسی لیے قید تنہائی بدترین سزاؤں میں شامل ہے۔ شادی سے تنہائی سے نجات ممکن ہے۔

شادی کے نقصانات

شادی کے بارے میں سوچتے ہوئے افراد زیادہ تر ایک بڑی پارٹی کا ہی تصور کرتے ہیں یا پھر وہ پھولوں سے بھری سیج پر سہاگ رات کے بارے میں سوچتے ہیں حالانکہ وہ صرف عارضی رسومات ہیں۔ اصل زندگی اس پارٹی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ شادی کرنے کے نقصانات میں آزادی کا خاتمہ، ایک ناخوش رشتے میں پھنس جانا، اپنی بیوی یا شوہر پر انحصار پیدا ہوجانا، طلاق کی صورت میں آدھی ملکیت سے ہاتھ دھونا شامل ہیں۔ طلاق کی شرح دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ شادی کے نقصانات سے بچنے کے لیے قانونی معاہدے بھی موجود ہیں جن کو پر ی نپچؤل اگریمنٹ کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہمارے معاشرے میں خواتین اتنی کمزور پوزیشن میں ہیں کہ بھائی جائیداد معاف کروالیتے ہیں اور شوہر حق مہر تو اس صورت حال میں شاید یہ معاہدہ بھی زیادہ کارآمد ثابت نہ ہو سکے۔

2020 میں عالمی وبا کے شروع ہونے کے بعد کئی جوڑے ساتھ میں رہنے لگے تھے کیونکہ ریستوران اور ملنے جلنے کی جگہیں اور سفر بند ہو گیا تھا۔ ان جوڑوں کو بی بی سی کے ایک آرٹیکل کے مطابق کورونیل کا خطاب ملا۔ 2020 سال کے اختتام تک یہ ظاہر ہو گیا کہ دنیا میں طلاق اور علیحدگی میں شدید اضافہ ہوا۔ آپس میں الفت زیادہ بڑھانے سے نفرتیں بھی زیادہ ہو گئیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے گرد کچھ جگہ کی ضرورت ہے جس میں وہ سکون محسوس کرسکیں۔ اگر قید تنہائی تکلیف دہ ہے تو کسی اور شخص کے ساتھ مستقل ہر روز، دن اور رات ساتھ میں رہنا بھی آسان نہیں۔

چونکہ شادی کا ادارہ ہزاروں سال پرانا ہے جس میں خواتین گھر کا زیادہ تر بوجھ اٹھاتی ہیں، اس لیے وہ انسانی نفسیات کا گہرا حصہ بن چکا ہے۔ کہاوت ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ جب ایک جوڑا شادی شدہ ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے بارے میں، ایک دوسرے کی دولت اور آمدنی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ ہر انسان اپنے فائدے کے لیے ہی سوچتا ہے۔ پہلے سے جو بھی وعدے کیے ہوں، جب ایک مرتبہ شادی ہو جائے تو اس میں مرد کم سے کم کام میں ہاتھ بٹا کر زیادہ سے زیادہ فائدہ نکالنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

اس میں کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری ہے۔ مثال کے طور پر اگر شادی سے پہلے یہ طے ہو کہ وہ بقایا خاندان سے الگ رہیں گے تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد شوہر آہستہ آہستہ اپنے والدین اور باقی رشتہ داروں کو بھی گھر میں شامل کرلیتا ہے۔ اب بچے ہو گئے، وقت گزر گیا۔ اور یہ تو ہماری مشرقی تہذیب کا حصہ ہے۔ یہ تو ایک بیوی کی نارمل ڈیوٹی میں شامل بات ہے۔ جو خواتین یہ سب ایک مرتبہ کرچکی ہوں، کیا وہ دوبارہ یہ سب کچھ کرنا چاہیں گی؟

تحقیق بتاتی ہے کہ خواتین اپنی تنخواہ کا 90 فیصد اپنے گھر اور بچوں پر خرچ کرتی ہیں۔ اگر خاتون ذمہ دار ہیں اور شوہر کے ایمازون کے باکس ہر روز دروازے کے باہر موجود ہوتے ہوں تو یہ معاشی بوجھ دن کے اختتام پر کس کے کندھوں پر منتقل ہوگا؟ کئی جگہوں پر ملکی قوانین کے مطابق شادی شدہ زندگی میں حاصل کی ہوئی تمام دولت اور تمام قرض آدھا آدھا دونوں کا ہوتا ہے۔ کیا آپ خود کو کسی اور شخص کے غیر ذمہ دار رویے کی وجہ سے قرض میں پھنسانا پسند کریں گی؟

جس کے پاس نوکری اور پیسے ہوں، بینک اسی کا پیچھا کرتے ہیں۔ آپ نے جو بھی ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ میں جمع کیا، وہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کو مل جاتا ہے۔ کیا آپ اپنی ساری زندگی کی محنت سے کمائی دولت کو اپنے بچوں کے لیے چھوڑ کر جانا چاہیں گی یا شوہر کے لیے؟ دوسری شادی کی صورت میں اگر آپ کے بھی پہلے سے بچے ہیں اور نئے شوہر کے بھی تو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت آپ کے اوپر ڈال دیں؟ اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے کہ تمام ذمہ داریاں برابر بانٹی ہوئی ہیں۔

میں ایک مریضہ کا انٹرویو کر رہی تھی۔ ان سے ایک سادہ سا سوال پوچھا کہ زندگی میں آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میری سب سے پہلی ترجیح میرے بچے ہیں۔ دوسری ترجیح میرے ماں باپ اور بہن بھائی ہیں۔ تیسری ترجیح ہمارے بزنس کے گاہک ہیں۔

اور آپ خود؟
میں؟ وہ ہڑبڑا گئیں۔

جب کوئی انسان خود اپنے لیے ہی نہ سوچتا ہو تو کیا وہ بقایا دنیا کو الزام دینے کا حق رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے نہیں سوچ رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).