ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی


یہ سوال پوچھا جانا وقت کا لازمی تقاضا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں ایسی کون سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں جنہوں نے بالآخر تشویش ناک طور پر سماجی اضطراب، مایوسی، نا امیدی چڑ چڑ ا پن قانون شکنی برگشتگی اور لاتعلقی جسے خدشات کو مضبوط تر بنا دیا ہے۔ تعلیم یافتہ ہنر مند افرادی قوت اورسرمایہ ملک سے باہر جانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ ملکی سول افسر شاہی اور دفاع سے وابستہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے افسران بھی دوران ملازمت اپنے اہل وعیال کو مغربی دنیا یا کسی بھی دوسرے ترقی کرتے ملک میں سکونت کے مواقع دلاتے رہے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد مذکورہ اعلیٰ ترین عہدوں کے حامل افسران خود اور ان کے بچے اب بیرون ملک رہائش پذیر ہیں؟

زیر بحث سوال بہت تلخ ہے اور اس بابت مدلل طور پر سامنے آنے والے جوابات مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ تلخ تر بھی ہیں۔ پیچیدہ اور گمبھیر صورتحال میں پھنسے ہوئے سماج کا المیہ ہوتا ہے کہ حکمران تلخ سوالات پر بحث کی اجازت دینا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسی گفتگو کو کج بحثی کا نام دے کر شرکاء مباحثہ پر زندگی تنگ کردیتے ہیں ممکن ہے آمرانہ طرز انداز اپنانے سے بحث مباحثہ تو شاید کمزور پڑجاتا ہو لیکن حالات کی سنگینی بھی مزید گہری ہوجاتی ہے۔ ہمہ جہت بحران کے عرصہ میں فکر پر قدغن سنسر شپ کی صورتحال کو شدید تر بنادیتی ہے۔

پی ڈی ایم کے قیام کے فوری بعد اس پر شکوک وشبہات کے اظہار کا آغاز کر دیا گیا۔ مخالفین کی تنقید اپنی جگہ نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے بھی جمہوری تحریک میں نفاق پیدا کر نے والے اعتراضات اٹھائے جن سے تحریک مخالف فریق کو وقتی فوائد ملے مگر کسی جانب سے ایسے جائزہ کاروں کی غیرجانبداری پر حرف گیری نہ ہوئی۔ درحالانکہ وابستگی و لاتعلقی کا انحصار اختیار کردہ طرز عمل کے بطن سے پیدا ہونے والے نتائج ہی طے کرتے ہیں کہ کون غیر جانبدار تھا؟ اور یہ کہ کیا غیر جانبداری عملاً ممکن ہو سکتی ہے یا نہیں؟ میری رائے میں غیر جانبداری محض قیاس ٍخام ہے یا ذہنی دیوالیہ پن۔ کیونکہ کوئی باشعور جیتا جاگتا حساس انسان اپنے حالات اور اپنے آس پاس کی صورتحال سے لاتعلق ہو سکتا ہے نہ ہی غیر جانبدار۔

پی ڈی ایم نے 20 ستمبر 2020 ءکے اجلاس میں اپنے اہداف اغراض ومقاصد پرمبنی 26 نکاتی پالیسی دستاویز مرتب کی تھی بعد ازاں طے شدہ متفقہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے حکمت علمی کے مختلف مراحل اور طریقہ کار کا تعین کرتے ہوئے حکومت کے خلاف آئینی ذرائع کی حدود میں پرامن جمہوری سیاسی جدوجہد کے مربوط پروگرام کا اعلان کیا تھا۔

اہم نقطہ یہ ہے کہ ان حالات واسباب کو ملحوظ رکھا جائے جن کی بنیاد پر ملک بھر میں عوامی جدوجہد کی صف بندی ہوئی ہے اس کا پہلا اور بنیادی سبب۔

الف۔ سیاست میں فوج کی مداخلتی کردار کے منفی اثرات۔
ب۔ مذکورہ صورتحال میں جوہری تبدیلی کی ضرورت اور افادیت۔

ج۔ ملکی نظم ونسق کو آئین پاکستان میں طے کردہ طریقہ کار کے مطابق چلانے اور پارلیمان کو ملک کے لئے ہر قسم کی پالیسی مرتب کرنے۔ قانون سازی وآئینی تقاضوں کے مطابق ترامیم کے لئے مرکز محور و منبع تسلیم کرانا۔

چ۔ آئین میں دیے گئے محکمہ جاتی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کو آئین وقانون کی پاسداری کا پابند بنانا۔ حق حاکمیت عوام کو سونپنے کے لیے مستحکم ناقابل تنسیخ عمل رواں کرنے کی ضرورت۔

ح۔ عوامی رائے کے اظہار میں سرکاری مشینری کے استعمال۔ اثر اندازی کا خاتمہ اور لوگوں کو احساس تحفظ کے ساتھ بلا جبر و کراہ اپنے نمائندے منتخب کرنے کے مواقع یقینی بنانا ہے۔ جن کے ذریعے منتخب شدہ پارلیمانی ادارے اپنی اپنی سطح پر آئین پاکستان کے عطا کردہ اختیارات کے اندر عوامی جمہوری حکمران کے تصور کو عملی صورت دے سکیں۔

متذکرہ صدر اغراض ومقاصد پی ڈی ایم کی اساسی دستاویز میں سموئے ہوئے ہیں خوش فہمی سے ان میں سے کسی بھی نکتے سے کسی بھی حلقے کو اختلاف نہیں اور اگر عدم اتفاق کی کہیں کوئی صورت موجود ہے تو بھی اس کے بر ملا اظہار کی اخلاقی، سیاسی جرات موجود نہیں۔

پی ڈی ایم کی جدوجہد کا ایک اہم سیاسی نقطہ جس پر ملک بھر کی اہم اور چیدہ چیدہ۔ بالخصوص ملک کے رائج سیاسی نظم سے ناآسودہ اور برگشتہ جماعتیں شامل ہیں نے ایک بار پھر ملکی سیاسی دھارے میں شامل کر کے انہیں اپنے حقوق کے لیے مشترکہ جدوجہد پر آمادہ کمر بستہ کیا ہے ایک ملک گیر سیاسی پلیٹ فارم مہیا ہوا ہے جو وفاق ٍ پاکستان کی توثیق و اعادہ کے مماثل ہے۔ اس مقصد کی خاطر وہ پاکستان کو عملاً و حرفاً صحیح مضمون میں قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق وفاقی پارلیمانی قومی جمہوری ریاست بنانے پرس وسیع الجیت اتفاق رائے قائم ہوا ہے اور یہی وہ نقطہ نظرہے جس پر عمل پیرائی سے اس وقت درپیش ملکی سیاسی بحران اضطراب اور افتراق کی اتھاہ تاریکی میں امید پرستی کا دور ہی سہی ایک ستارہ روشن ہوا ہے

متذکرہ صدر اہداف دراصل وہ منظرنامہ ہے جس نے عوام کے وسیع حلقے کو ریاست سے بیگانگی کی طرف دھکیلا رکھا ہے۔ سیاسی مداخلت کے دیگر منفی نتائج بھی ہیں جن کے اظہار سے بوجوہ گریز کر رہا ہوں۔ بنیادی اور گہرائی تک اثر دکھانے والانتیجہ ریاست اور شہری کے رشتے میں در آنے والی تشویشناک اور گہری دراڑ ہے۔ جو مسلسل مگر بے لاگ سیاسی عمل سے ہی دن ست کی جا سکتی ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہاتے ہوئے سیاست اور سیاستدانوں کو اتنا بدنام کیا گیا کہ اللہ مان اللہ حفیظ۔

حقیقی سیاست کو گالی بنانے والوں نے اپنے اقتدار و بالادستی کی گرفت کے لئے ذہنی طور پر پست و کمزور کردار۔ جرائم پیشہ ڈرگ مافیا کے افراد کی سرپرستی کی جبکہ وسیو النظر سیاسی ایجنڈت کے منافی عوامی اتحاد کو کمزور کرنے کے واسطے برادری ازم کو توانائی بخشی پیشہ اور دیگر غیر سیاسی عوامل کو سہارا دے کر ایسی من پسند سیاسی شخصیات کو ایوان اقتدار میں پہنچایا جو اطاعت گزاری میں یکتا، اور، سوال اٹھانے کی ذہنی استعداد سے قطعی محروم تھے۔

چنانچہ تمام سیاسی ادارے۔ ریاستی و غیر ریاستی بدسے زیادہ بدنام ہوئے۔ عوام سیاست سے متنفر اور ریاست سے لاتعلق ہوئی چلی گئی۔ سیاسی جدوجہد کے راستے مسدود ہوتے گئے تو بالائی سرپرستی کے ذریعے انتہائی نچلے درجے کی سیاسی قیادت تخلیق کی گئی۔ یہ سب کچھ انتخابی عمل میں غیر آئینی۔ منظم مداخلت سے ہوا۔ مسلسل جاری رہنے والے اس عمل کی انتہا 2018 کے عام انتخابات اور اس سے قبل بلوچستان حکومت میں بغاوت کراکے سیاسی منظرنامہ بدلاگیا پھر اطاعت گزاروں کو سینیٹ میں نشستیں عطاءہوئیں اور کسی محفوظ پناہ گاہ میں ”باپ“ نامی پارٹی نے جنم لیا۔

ابھی یہ پارٹی پالکی میں تھی کہ جولائی 2018 میں اسے بلوچستان کی بھاگ تھما دی گئی البتہ احتیاطاً ڈور۔ پناہ گاہ میں محفوظ رکھی گئی۔ ملک بھر مں جولائی 2018 کے عام انتخابات کو سایسی صنم گری کی مہارت کا شاخسانہ کہا گیا۔ میں اسے سیاسی آذریت کے نام سے پکارتا ہوں۔ اس عمل سے جو ہائیبرڈسیاسی حکومت قائم ہوئی اس کے دامن میں ناکامیوں کی طویل فہرست ہے جن پر وزیراعظم نے حال ہی میں مہرتصدیق کی ہے۔ کہ ”ہمیں تودو سال تک حکومتی امور معیشت کے رموز اور سفارتکاری کے اسرار سمجھ نہیں آئے“

تو بندہ گان عالی مقام، متذکرہ صدر سیاسی مداخلت اور اس کے بھیانک نتائج کے بطن سے ہی پی ڈی ایم نے جنم لیا ہے اور اس کی حکمت عملی کا پہلاہدف سیاست میں جاری غیر آئینی مداخلت کا موثر تدارک و سدباب کرنا ہے جس کے لیے ملک بھر میں سیاسی اجتماعات جلسے منعقد کیے گئے ہیں یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم کچھ دیگر اسباب نے تحریک کی ہموار پیش قدمی کو متاثر کیا ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے

نیز قومی تحریک کے نتیجہ خیز ہونے یا ناکام قرار دینے کے فیصلے میں عجلت آمیزی سے بھی گریز ضروری ہے۔

پی ڈی ایم کی حکمت عملی کے متعلق عموماً یوں قیاس کیا جاتا ہے گویا کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن سے گاڑی نے مقررہ تاریخ ووقت پر روانہ ہونا تھا اور یہ طے تھا کہ اسے پانچ گھنٹے کی مسافت طے کر کے سبی پہنچا تھا علی ہذہ القیاس اگلے روز اسے دو پیر 2 بجے وقت مقرر پر راولپنڈی پہنچ جانا تھا۔ دوستو سیاسی جدوجہد کے اغراض ومقاصد اہم اور طے شدہ ہوتے ہیں ان کے حصول کے متعلق حکمت عملی میں معروضی حالات و ضروریات کے تحت رد وبدل کیا جاتا ہے جیسے کوئی عسکری کمانڈر دیے گئے ہدف پر حملہ آور ہونے کے لئے محاذ کی صورتحال کے مطابق پیشقدمی کرتا ہے تو۔

ہدف پر کامیاب یلغار اور فتحمندی اسے ماہر جنگجوثابت کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کی تشکیل میں جووقت صرف ہوا ہے اسے بھی تجزبات میں مد نظر رکھنا ہوگا۔ انتخابات کے فوری بعد ایک رائے جس کی نمائندگی جناب مولانا فضل الرحمن کرتے رہے کہ فی الفور انتخابی نتائج مسترد کردیے جائیں دیگر سیاسی جماعتوں نے اصولاً مولانا کے موقف کو درست قرار دیا۔ لیکن عجلت سے گریز کی راہ اپنائی۔ انہوں نے جس تدبر کا مظاہرہ کیا اس کے حق میں اور اختلاف دونوں کے لئے دلائل موجود ہیں۔ فوری احتجاج شروع نہ کرنے پر دلیل دی گئی کہ حکومت کو وقت دیا جائے۔ تا کہ اس کی کارکردگی کا امتحان ہو جائے اور یہ الزام بھی سیاسی قیادت پر عائد نہ ہو کہ سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتیں بالخصوص اگر نتائج ان کے حق میں نہ ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ مہلت دینے کی تجویز سیاسی اعتبار سے درست ثابت ہوئی لیکن اس تاخیر کے نتیجے میں ملکی معیشت کے انحطاط مہنگائی اور بے روز گاری اور معاشی ابتری کی قیمت ملک اور عوام کو چکانی پڑی ہے اور اس سے اپوزیشن بری الذمہ قرار نہیں پاسکتی۔ پی ٹی آئی کے نعروں کا کھوکھلا پن جناب عمران خان کا غیر مرتب سیاسی کردار، غصیلہ پن اور اقتدار کی ہوس ایسے عناصر تھے جو علی الاعلان بتا رہے تھے کہ ”یہ کمپنی نہیں چلے گی“ مگر بہتوں کے ساتھ جناب سہیل وڑائچ کو بھی یہ نکتہ سمجھنے میں دو سال لگ گئے۔

2020 کے اوائل میں چلنے والی تحریک میں سیاسی یکسوئی نہیں تھی پھر کرونا وبا نے حکومت کو مہلت نما سہارا دیا۔ ستمبر 2020 میں تحریک کے لیے سیاسی بنیاد پختہ ہو چکی تھی۔ ٹائم فریم ورک میں سینیٹ کے انتخابات کو مرکزی اہمت حاصل تھی اس لئے نہیں کہ پی ڈی ایم جمہوری عمل سے گریزاں تھی۔ وجہ یہ تھی کہ حکومت متعدد بار آئین میں ایسی ترامیم کی خواہش ظاہر کر چکی تھی جو اختیارات کی مرکزیت ممکن بنائیں خاص طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے متعلق اس کا نقطہ نظر خاصا منفی اور وفاقیت کے منافی رہا ہے لیکن سینیٹ میں اپوزیشن کی مستحکم عددی حیثیت من پسند آئینی ترامیم کی راہ میں ناقابل عبور مزاحمت تھی جبکہ 2021 مارچ میں نصف ارکان کی مدت ختم ہونے کے بعد موجودہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے جن کی جمہوری ساکھ مشکوک ہے ہونے والے سینٹ الیکش سے یہ خدشہ ہے کہ حکومتی اتحاد سینیٹ میں عددی پوزیشن مضبوط بنالے تو پھر وہ تمام آئینی ترامیم ممکن ہو سکتی ہیں جو صوبائی خود مختاری اور پارلیمانی جمہوریت کے لئے ضرر رساں ثابت ہوں لہذا پی ڈی ایم نے اپنی پالیسی پر عمل کے لئے جو ایکشن پلان بنایا اس کا ابتدائی مرحلہ ملک بھر میں جلسوں کے ذریعے عوامی رابطہ مہم منظم کر کے رائے عامہ کے ذریعے سیاست میں رچی بسی غیر آئینی مداخلت ختم کرانے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا تا کہ اپوزیشن کو وہ سپیس، گنجائش پارلیمانی اداروں میں قابل عمل طور پر میسر آ سکے۔ جس کی عدم موجودگی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے سامنے آئی تھی کہ 64 کو خلائی ذرائع سے 48 بنا دیا گیا۔ حکومتی اتحاد بھی اس گٹھ جوڑ کا یہ کہتے ہوئے برملا اعتراف کرتا رہا ہے کہ ”حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں“

احتجاج اور عوامی دباؤ وہ جمہوری حربہ اور موثر و پرامن طریقہ ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور اقتدار پر اختیا کی گرفت ختم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اگر آئین کے مطابق پارلیمان کو آزادی عمل میسر آ جائے اور وہ مداخلت جو 2014 سے شروع ہوئی تھی اور بعد ازاں مکمل سرپرستی بن گئی ختم ہو جائے تو پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحاریک کے ذریعے آئینی اور جمہوری انداز سے حکومتیں تبدیل کر کے ملک میں عوام دوست تبدیلی لاسکتی ہے۔

عوامی دباؤ (جلسے ) اگر نتیجہ خیز نتائج نہ دیں تو پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر نے کی حکمت عملی بالا اتفاق موجود ہے اور آخری حربے کے طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر وفاقیت اور پارلیمان جمہوریت صوبائی خود مختاری کو درپیش امکانی خدشات کا تدارک کرنا طے شدہ بات ہے۔

تاہم لازم نہیں کہ ہدف کے حصول کے لئے معروضی حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے چنانچہ سیاسی بصیرت اور تد بیر کا تقاضا ہے کہ ہر پتہ سوچ سمجھ کر پھینکا جائے۔ اس خدشے کو بھی ملحوظ رکھنا ہے کہ اگر سیاست میں مداخلت کا تدارک ممکن نہ ہوا تو پھر کیا سینیٹ کے انتخابات کے لئے حکومتی گروہ کو کھل کھیلنے کے لئے خالی میدان مہیا کر دینا مناسب ہوگا؟

احتجاجی جلسوں کی راہ میں کرونا ایک بار پھر مزاحم ہوا ہے جبکہ مارچ ابھی دور ہے۔ مگرحکومت عوامی دباؤ کی زد میں ہے اس لئے وہ سینیٹ کے انتخابات جلد از جلد کرانے پر مصر ہے۔ یہ سوال بھی بحث کا موضوع ہے کہ اگر پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن کے بعد اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عندیہ دے تو کیا حکومت پھر بھی فروری 2021 میں ہی سینیٹ کے انتخاب کرانے کے عزم پر قائم رہے گی۔ ؟

سیاست کے لیے سیاسی میدان میں مداخلت سے پاک گنجائش میسر ہو جائے تو بعید از قیاس نہیں کہ موجودہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہو سکے مگر اس کا انحصار طاقت کے ادارے اور حکومت کی بصیرت پر ہے۔ مگر سرد دست دونوں میں انانیت اور تجاہل پسندی ک بنا پر بہتر سیاسی ماحول اور استحکام پیدا ہونے کی امید روشن کرنے کی استعدار و ارادہ دکھائی نہیں دے رہا۔ تو تناو دباو اور کشیدگی کے خدشات نمایاں تر ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).