غیرت آباد کا موضع عزت پورہ


شاید چاندکی ابتدائی تاریخیں چل رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی چاند کی روشنی میں بھی ملک مصور اشفاق المعروف ملک ساجی کا وجیہہ چہرہ واضح نظر آ رہا تھا۔ کیکر، شیشم، پوپلر اور نیم کے درختوں کے جھنڈ میں اپنے ڈیرے پہ چارپائی پر لیٹے اور حقے کے کش لیتے ہوئے بھی اس کی نگاہ گاؤں سے آنے والی پگڈنڈی پر ہی مرکوز تھی۔ پشت کی جانب سے نذیرا ماچھی ننگے پاؤں کسی اٹھائے ڈیرہ پہ پہنچا تو ساجی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔

’ہاں بھئی نذیرے! سنا۔ پانی لگ گیا سارا؟‘

’جی ملک صاحب۔ وہ پورب کی طرف جو چھ کلے باغ ہے وہاں تو پانی لگ گیا ہے۔ اب تو مونجی (دھان) والے جو تین کلے ہیں وہاں پانی چھوڑ آیا ہوں۔‘

نذیرے ماچھی نے جواب دیا تو چند لحظے کی خاموشی کے بعد ساجی چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ سجائے دوبارہ گویا ہوا۔

’نذیرے! میرا  خیال ہے کہ جس رفتار سے نہری پانی آتا ہے کم از کم دو گھنٹے تو کیاریاں بھرتے بھرتے لگ ہی جائیں گے۔ اس لیے تو جا کہ ذرا آرام کر لے۔ اور دو ایک گھنٹے تک آ جانا۔ اتنی دیر میں یہاں ڈیرے پہ ہی ہوں۔‘

’کیوں ملک جی؟ خیر تو ہے نا آج؟‘ اب کی بار معنی خیز مسکراہٹ نذیرے کے چہرے پہ تھی۔

’ہاں بس۔ ایک مہمان آ رہا ہے۔ تو بس میرے والے کمرے کو ذرا دیکھ  لے۔ کوئی صفائی ستھرائی کرنے والی ہے تو کر کے تو چلتا بن۔‘ ساجی کی آواز میں گھبراہٹ کا ہلکا سا شائبہ موجود تھا کہ جسے نذیرا بھانپ گیا۔

’صفائی تو میں کیے دیتا ہوں ملک صاحب۔ پر جی یہ آج کوئی انوکھا ہی مہمان آ رہا ہے یا؟‘ بات کرتے کرتے ہاتھ جوڑے نذیرا رکا تو چارپائی پر لیٹا ساجی یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا اور حقے کو ایک طرف کرتے ہوئے گویا ہوا۔

’میں سمجھا نہیں تیری بات۔‘

’گستاخی معاف ملک صاحب! لیکن کیا ہے نا جی کہ وہ اپنے خیر دین کی گھر والی میراں کو پہلے بھی ایک دو راتیں آپ کے پاس دیکھا تو سوچا شاید آج بھی وہی مہمان ہے۔‘ نذیرے کا جواب سن کر ساجی چونک کر رہ گیا۔ مگر جلد ہی ایک لمبا سا سانس کھینچ کر نذیرے ماچھی سے مخاطب ہوا۔

’دیکھ نذیرے تجھے ابھی ہمارے ڈیرے پہ آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ تجھ جیسے محنتی بندے کو خواہ مخواہ ہی چلتا کروں۔ اس لیے تو بس اتنا ہی دیکھا، سنا اور بولا کر جتنا تجھے کہا جائے۔‘

اب کی بار نذیرا ماچھی ملک ساجی کے گھٹنوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور لجاجت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔’ملک صاحب! اب کی بار معاف کر دیں، آئندہ ایسی غلطی نہ ہوگی۔ میں تو کمی کمین بندہ ہوں جی۔ آپ کے احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا۔ شاید اپنی اوقات بھول بیٹھا تھا۔‘ گھٹنے دباتے ہوئے چند لحظے بعد بات کو وہیں سے جاری کیا۔ ’ملک جی۔ آپ نہ ہوتے تو ویر مظہر کی پڑھائی والے خرچے اور نمبردارے کا قرض کیسے چکاتا؟ وہ تو بھلا ہو کہ آپ نے وقت پہ نہ صرف ضرورت پوری کر دی بلکہ اپنے پاس کام پہ بھی رکھ لیا۔ ہم غریبوں کا اس رب سوہنے کے بعد آپ ہی آسرا ہو جی۔‘

’اچھا اچھا۔ باقی سب چھوڑ تو بس یہ بات ذہن میں رکھنا کہ یہاں کی کوئی بات خاص طور پر جو میرے متعلقہ ہو، وہ ابا جی یا حویلی کی چاردیواری تک نہ پہنچنے پائے۔‘ اب کی بار ساجی کا لہجہ قدرے نرم تھا۔

’جو حکم ملک جی۔‘ مختصر سا جواب آیا۔

’ایک اور بات۔ یہ تیرا ویر مظہر وہاں شہر میں آخر ایسی کون سی تعلیم حاصل کر رہا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ ابھی چند دن پہلے تو کہہ رہا تھا کہ اس کی سولہ جماعتیں مکمل ہو چکی ہیں۔ اب یہ سولہ سے آگے کی نئی جماعت کہاں سے آ نکلی؟‘ ایک توقف کے بعد ساجی نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا تو نذیرے نے جواب دیا۔

’پتا نہیں ملک صاحب۔ یہ بات جب میں نے ویرے سے پوچھی تھی تو کہنے لگا کہ بھائی تجھے کیا پتا۔ دنیا چاند سے بھی آگے تک پہنچ گئی ہے اب وہ سولہ جماعتوں والا زمانہ نہیں رہا۔ اور پتا نہیں کوئی ایم فل کا نام  لے رہا تھا کہ وہ ڈگری کرنی ہے۔ خیر ملک صاحب! جو بھی پڑھنا چاہتا ہے پڑھے۔ وہ خوش رہے۔ اباجی دنیا سے جاتے ہوئے میرے حوالے کر گئے تھے۔ ڈرتا ہوں کہ اگر کہیں کوئی کمی رہ گئی تو روز محشر ابا جی کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘

’چل جو بھی بات ہے، ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس پر تھوڑی نظر رکھا کر۔ جب سے چھٹیوں پر گاؤں آیا ہوا ہے مجھے اس کا چال چلن ٹھیک نہیں معلوم ہو رہا۔ اور پھر اب ماشاءا اللہ سے خود تیرے ہاں دوسرا بچہ ہو گیا ہے، کچھ ان کے کل کا بھی سوچ۔ خیر یہ سب چھوڑ۔ تو جا کہ ذرا کمرہ صاف کر دے، میراں آتی ہی ہو گی۔‘

ملک ساجی نے گھٹنوں پر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے حکم صادر کیا تو فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نذیرے نے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی۔ کمرہ کھولتے ہی سامنے کی دیوار پر ایک معمولی سا وال کلاک آویزاں تھا کہ جس کے نیچے فرش پر نظر دوڑاؤ تو ایک اوسط قیمت قالین کے اوپر ہی دو عدد عمدہ جڑواں بستر بچھے پڑے تھے۔ دروازے کے دائیں ہاتھ چار عدد پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک عدد میز پڑی تھی جب کہ بائیں جانب ایک عدد اسٹیل الماری پڑی تھی اور اس کے اوپر ایک پرانا سا گلدان پڑا تھا۔ کرسیوں کی طرف والی دیوار کے اوپر ایک عدد اے سی بھی نصب تھا۔ کمرے میں موجود اس مختصر سے سامان کی صفائی میں کتنی ہی دیر لگنا تھی۔ جھاڑ پونچھ سے فراغت کے بعد نذیرا باہر ہی نکلا تھا کہ اسے سامنے پگڈنڈی کی جانب جھاڑیوں سے سرسراہٹ محسوس ہوئی۔

’اچھا ملک جی۔ چلتا ہوں۔ لگتا ہے آپ کا مہمان آ گیا ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے نذیرا تھوڑا سا آگے بڑھ کر ساجی کے قریب رازدارانہ انداز میں گویا ہوا۔ ’باقی ملک صاحب۔ آپ مجھ پر اعتماد رکھیں۔ نذیرے کا پیٹ اتنا کچا نہیں۔‘

مزید کوئی لفظ ادا کیے بغیر ہی ساجی نے ہاتھ کی ہتھیلی پھیلا کر دائیں ہاتھ بلند کیا۔ گویا اشارتاً کہا ہو ’ٹھیک ہے۔‘

جوں ہی نذیرا منظر سے غائب ہوا تو ساجی نے اپنی نظروں کا رخ پگڈنڈی سے آنے والے اپنے مہمان کی طرف کر لیا۔ اگرچہ میراں نے نقاب اوڑھ رکھا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے واضح چھلک رہے تھے۔ ساجی نے آگے بڑھ کر مہمان کا ہاتھ تھاما اور اسے ساتھ لیے کمرے کی جانب چل پڑا۔ میراں نے ایک بے چین نگاہ اپنے پیچھے ڈالی۔ کسی بھی ذی روح کو نہ پا کر ایک اطمینان بھری سانس کھینچی اور ساجی کی مضبوط بانہوں کے سہارے کمرے کو چل دی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی ساجی نے ٹیوب لائٹ جلا کر روشنی کا بندوبست کیا اور ریموٹ سے اے سی بھی چلا دیا۔ ساتھ ہی دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی۔ اب جو نگاہ مدمقابل پڑی تو میراں کے چہرے پر پڑا حجاب بھی ہٹ گیا۔ نظروں کا ٹکراؤ ہوا تو بے اختیار میراں ساجی کے سینے سے لپٹ گئی۔ جواباً ساجی نے بازوؤں کا گھیرا بنا کر ملن کے اس لمحے کو اپنی قید میں کر لیا۔

’خیر ہے نا! آج اتنی دیر کر دی آنے میں؟‘ پتا نہیں ساجی کا لہجہ سوالیہ تھا،  شکوہ کناں یا حیرانی پر مبنی۔ لیکن میراں  نے سینے سے سر اٹھایا اور پیچھے ہٹتے ہوئے ساجی کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ نظریں ساجی کے چہرے پر مرکوز کیں اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’ساجی! میں تو اپنے وقت پر ہی پہنچی ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ آج انتظار کی گھڑیاں تیرے لیے کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھیں؟‘

ساجی نے چہرے پر مصنوعی ناراضگی سجاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو چھڑایا اور دائیں جانب مڑ کر شکوہ کرنے لگا۔

’پتا نہیں میراں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے تیری محبت کم ہو گئی ہے۔ جب دکان کے پاس تجھے بولا تھا کہ دس بجے تک پہنچ جانا تو پھر اتنی دیر کیوں لگا دی تو نے؟‘

’دیکھ ساجی! تو نے جو نیند کی گولیاں دی تھیں وہ تو میں نے 9 بجے ہی چائے میں ملا کر خیرو اور ماسی برکتے دونوں کو دے دی تھیں۔ لیکن پتا نہیں پھر بھی ماں پتر کی آنکھ لگتے لگتے بھی دو گھنٹے لگ گئے۔ اگلی بار کوئی دیکھ بھال کے گولیاں لانا جو جلدی اثر کر جائیں۔‘ یہاں تک بول کر میراں  نے ساجی کو بائیں بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے سامنے کیا اور بات کو وہیں سے جاری کیا۔ ’اور یہ کیا تو میرے سامنے منہ بسورے کھڑا ہے؟ ناراض تو مجھے ہونا چاہیے کہ پورا ایک مہینہ ہو گیا ہے تیرے ویاہ کو۔ اور تجھے آج وقت ملا ہے مجھ سے ملاقات کے لیے۔ ہاں جی ظاہر ہے جب وڈے ملک صاحب شہر سے اپنی حوروں جیسی بھانجی کو جناب کے نکاح میں لائیں گے تو ہمارا شمار کس کھوہ کھاتے میں ہوتا ہے۔‘

ساجی کو تیور بدلے محسوس ہوئے تو اس نے بھی گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلا۔

’اری تو بھی پگلی ہے۔ تجھ سے بڑھ کر اور مجھے کون عزیز ہو سکتا ہے؟ تو تو آج بھی میرے دل کی ملکانی ہے۔‘ سینے پر ہاتھ رکھ کر اقرار سامنے آیا تو میراں کے چہرے پر ہلکی سی مسکان ابھر آئی۔ ساجی نے کانچ کی چوڑیوں سے بھری میراں کی کلائی کو تھاما اور قالین پر بچھے بستر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ’اب کیا ساری باتیں یہیں کھڑے کھڑے کرے گی؟ آ بیٹھ جا۔ آرام سے باتیں کرتے ہیں۔ تو سنا تیرا یہ ایک مہینہ کیسا گزرا؟‘

مزید پڑھنے کے لیے یہاں جائیں 

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3