محمود الحسن: اک پرکمال لکھاری


محمود الحسن ان چار لاہوریوں میں سے ہے جسے ملنے کو میرا دل ہمیشہ مچلتارہتا ہے۔ میں دوستوں کے چناو کے لحاظ سے ویسا ہی محتاط ہوں جتنا اچھی کتاب کے معاملے میں ہوں۔ دوست برا لکھیں گے تو ممکن ہی نہیں کہ ان کے لکھے کا دفاع کروں اور ان سے اپنے معاملے میں بھی، میں یہی توقع رکھتا ہوں۔ محمود الحسن کی نثر مجھے بہت مرغوب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موضوع، شخصیت اور قلم کے درمیان میں نہیں آتا۔ اس کے انٹرویوز کالم یا چھوٹے چھوٹے تبصرے پڑھ کے دیکھ لیں مجال ہے جو کبھی معروضیت کا دامن، لمحہ بھر کو بھی ہاتھ سے چھوٹا ہو۔ کہنے کو تو وہ دو مختصر کتابوں کا مصنف ہے لیکن یہ دو کتابیں ایک محب کی بے لوث محبت کا اظہاریہ ہے۔

انتظار حسین والی کتاب انتظار صاحب سے کی گئی ملاقاتوں کا بیان ہے۔ ایسا شفاف انداز بیان ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ تعریف انتظار صاحب کی کرنی یا محمود الحسن کی۔ یہی احوال اس کتاب کاہے۔ کتاب کے اندر تین مختلف کردار ہیں جو لاہور کے عاشق ہیں۔ دو کردار باہر ہیں ایک محمود اور دوسرا لاہور۔ محمود الحسن روز لاہور میں آوارہ خرامی کرتا ہے کسی جگہ پہ رکتا ہے اور چپ چاپ ایک تصویر بنا کر فیس بک پہ لگا دیتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کوئی اپنے محبوب کی تصویر اس کی بے دھیانی میں بناتا ہے اور اسے دکھا کر اسے حیران کر دیتا ہے۔ جیتا جاگتا لاہور جیسے اس کے دل میں بستا ہے ویسے ہی کرشن چندر، بیدی اور کنہیا لال کپوری کے دل میں بستا تھا۔

اگر محمود کو لاہور سے اتنی محبت نہ ہوتی تو کبھی بھی وہ یہ کتاب نہ لکھ پاتا۔ کتاب تحقیقی حوالوں سے بھی بہت دلچسپ ہے۔ لاہور سے محبت تو ان مصنفین کا اشتراک ہے ہی لاہور میں ان کی گزران کا ان کی تخلیقی و غیر تخلیقی زندگی سے جو تعلق ہے اس کتاب میں اس کی کھوج بھی لگائی گئی ہے۔ تینوں مصنفین کا لاہور کے متعلق انفرادی نقطہ نظر اپنی جگہ اور لاہور میں ہم عصر ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی دریافت، نہایت اہتمام سے اس کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے میرا دھیان کئی بار آفتاب احمد کی کتاب “بیاد صحبت نازک خیالاں”کی طرف گیا۔ خاکوں کی اس بے مثال کتاب میں بھی مصنف نے ہر خاکے میں کئی ایسے بامعنی خلا چھوڑے ہیں جو کوئی دوسرا خاکہ پر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

کرشن چندر کے لاہور میں ضمنی کردار کے طور پہ ہمارا سامنا بیدی سے ہوجاتا ہے۔ بیدی کی نگاہ سے ہمیں کرشن چندر کسی اور ہی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ کنہیا کے ہاں بیدی اور کرشن چندر کا اور ہی روپ ہے۔ یہ محمود الحسن کے قلم کا اعجاز ہے جو کیمرے کی آنکھ کی طرح زاویہ بدلتا ہے تو ایک ہی منظر کسی دوسری اور تحیر آمیز صورت میں زیادہ شدت سے ہمارے سامنے آجاتا ہے۔

 لاہور سے ان کے وصل کی صورتیں جدائیوں کے موسموں میں زیادہ شدت سے نظر آتی ہیں۔ اس کتاب میں لاہور ایک زندہ نامیہ بن کے ہمارے سامنے آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لاہور بھی ان کی قربتوں میں سرشار اور ہجر کی زمانے میں اداس اور نڈھال رہا ہے۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ ہندوستان جا کر انہیں لاہور کا دیدار دوبارہ نصیب نہ ہوا، لاہور نے ان کے ہجر میں گھل گھل کر جو رنگ روپ بدلا ہے اسے دیکھ کر ان کے سینے چھلنی ہو جاتے۔

فی الحال اتنا ہی محمود الحسن کے ترکش میں کئی تیر ہیں۔ دیکھئے آنے والے وقتوں میں ہمارے لیے وہ پردہ غائب سے کیا لاتے ہیں۔

یہ کتاب “کتاب سرائے اردو بازار لاہور اور ریڈنگز پہ پڑی ہے، سستی بھی ہے اور پڑھنے لائق ہے۔ آپ میری تعریف پہ بھی بھروسہ مت کریں۔ پڑھیں اور خود فیصلہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).