مفتی صدر الدین آزردہ سے مفتی طارق مسعود تک


اردو کی دنیا میں اقبال تو بس ایک ہی گزرا ہے۔ جو بات ہمارے دل میں ہوتی ہے، یہ ظالم ہم سے بہت پہلے کہہ گیا اور کس رسان سے کذب و ریا کے لبادے چاک کر گیا۔ فرمایا؛

فقیہ شہر کی تحقیر کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

اقبال کے بعد ایک صدی گزر گئی۔ ہم آج بھی سوچتے ہیں کہ کچھ دل کی کشاد کا پہلو نکلے، کہیں سے اس کرن کی نمود ہو جو جہل کی چادر چاک کرے مگر ایسا سبھاؤ ہمارے نصیب میں کہاں؟ ہمارے حصے میں تو ایسے کوتاہ قامت، کم سواد اور تنک ظرف بندگان دنیا ہی لکھے گئے جنہیں ربع صدی تک سرکار کی دہلیز پر جبہ سائی کے بعد ایک روز کار دربار سے فارغ خطی ملتی ہے تو اگلی ہی سانس میں ”تحریک تحفظ مسجد و مدارس“ کا پرچم اٹھا لیتے ہیں۔ اس مخلوق کا درجہ ”دو رکعت کے امام“ کی ترکیب سے متعین کرنا کچھ اقبال ہی کا کام تھا۔ ہمیں بھی ایک بار پھر ایسے ہی ایک کم نظر مفتی سے واسطہ پڑ گیا ہے مگر اس کار لاحاصل کی تلخی کو ایک واقعی بلند پایہ مفتی کے ذکر سعید سے توازن دے لیں۔

کوئی دو صدیاں گزریں، غالب کی دلی میں ایک صاحب علم اور حق پرست پیر دانا گزرے ہیں۔ مفتی صدر الدین خان آزردہ نام تھا، غالب سے کوئی آٹھ برس پہلے 1789 میں پیدا ہوئے اور غالب کے انتقال سے کوئی آٹھ ماہ قبل جولائی 1868 ء میں وفات پائی۔ مفتی صدرالدین نے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور مولانا فضل امام فاروقی خیرآبادی سے تعلیم حاصل کی۔ برسوں صدر الصدور دہلی کے عہدے پر فائز رہے۔ دہلی میں مفتی اعظم صدر الدین خان آزردہ کا فتویٰ معاملات شریعت میں حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ یہ ان علمائے اسلام میں سے ایک تھے جنہوں نے جنگ آزادی ہند 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا۔ اسی کی پاداش میں آدھی سے زیادہ جائیداد سے محروم کیے گئے۔ مفتی صدرالدین آزردہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے قریبی دوست تھے اور خود بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے غالب کا اردو دیوان مرتب کرنے میں ہاتھ بٹایا تھا۔ اب سنیے صدر الدین آزردہ مفتی اعظم دہلی نے اپنے زمانے کے زاہدوں اور پارساؤں کے بارے میں کیا فرمایا۔

کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

اگر صدر الدین آزردہ کی طبقہ زہد و وریٰ کے بارے مین یہ رائے تھی تو ہمارے اضطراب کا عالم کیا ہو گا کہ عورت ذات کو ایک بار پھر ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش میں فحاشی کا چولا اوڑھاتے ہوئے ایک مرد کا بیان ہم تک آن پہنچا ہے۔

صاحب، احتجاج کا علم اٹھانے کے لئے کربلا کے آگ اگلتے صحرا کا انتظار کرنا عبث ہے۔ سچ کے لئے اپنی کربلا خود سجانا پڑتی ہے بھلے زمانہ کوئی بھی ہو۔ ظلم و نا انصافی کو کو للکارنے کا حوالہ حسین ہی رہے گا چاہے وقت صدیوں کا سفر ہی طے کرتا ہوا اکیسویں صدی تک آن پہنچے۔

دل پہ ہاتھ رکھ کے سنیے گا، محترم مفتی طارق مسعود منبر پہ تشریف فرما ہو کے کیا فرماتے ہیں؟
” مرد کے پاس منہ کالا کرنے کے لئے اس کے دفتر میں لڑکیاں بہت ہیں“

یہ ہے مسجد میں بیٹھے ہوئے ایک عالم دین کا ایک پروفیشنل عورت کے بارے میں رائے کا اظہار! اور اس رائے پہ سامنے دو زانو بیٹھے مقلدین کی تیزی سے ہلتی گردنیں اور تائید میں اٹھے ہاتھ ان کے خطاب کو چار چاند لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

گویا محترم کا خیال یہ ہے کہ ہر وہ عورت جو اپنی ذات کی پہچان، اپنی معاشی خود مختاری اور معاشرے کا فعال رکن بننے کی غرض سے گھر سے باہر کام کے لئے نکلتی ہے، وہ دفتر میں ساتھی مرد کی ہوس سے گرتی رال اپنے دامن میں سمیٹنے کو ہمہ وقت تیار ہے۔ یعنی عورت انسان نہ ہوئی مرد کی بے لگام خواہشات کا ایسا کوڑادان ہوئی جو اپنے وقار، عزت نفس اور انا کی پروا کیے بغیر مرد کی خلوت میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف گھر سے باہر نکلی ہے بلکہ اپنا جسم اپنی ہتھیلی پہ لئے گھوم رہی ہے جو بھی چاہے جیسا سلوک کرے، وہ راضی برضا۔

محترم مولانا کی سوچ ایک طرف تو اس بات کی مظہر ہے کہ وہ عورت ذات کو ایک جنسی استعمال کی شے کے علاوہ کچھ نہیں گردانتے، بلکہ شاید وہ اسے انسان ہی نہیں سمجھتے۔ مگر دوسری طرف ان کے کلام کی روشنی میں مرد کے کردار کے لئے بھی ایک سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا مرد کی نظر میں ساتھی پروفیشنل عورت چوراہے میں پڑی سانجھ کی ہنڈیا ہے جسے جو چاہے جیسے چاہے، استعمال میں لے آئے۔ کیا مرد کی آنکھ صرف سات پردوں میں نظر بند عورت کے لئے ہی احترام سے جھک سکتی ہے؟

اور تو سب باتیں چھوڑیے ہمیں تو یہ خیال آتا ہے کہ کیسا محسوس ہوا ہو گا، حاضرین میں بیٹھے ان تمام باپ بھائیوں کو جنہوں نے پدرسری معاشرے سے ٹکر لے کے اپنی لخت جگر کو سر اٹھا کے چلنے کے قابل بنایا ہوگا، اسے معاشی طور پہ خود کفیل ہونے کا موقع دیا ہو گا۔ وہ کیا کہتے ہیں، بیک جنبش قلم کے مصداق مولانا نے ایک سیکنڈ میں ان سب عورتوں کو منہ کالا کرنے کی مشینری قرار دے دیا۔

اپنی بیٹی کی کامیابیوں پہ نازاں باپ نے یہ فقرہ سن کے کیا سوچا ہو گا؟ پاس بیٹھے احباب کی استہزائیہ نظروں کا بھرے مجمعے میں سامنا کس دل سے کیا ہو گا؟ پل بھر میں بیٹی کے کردار کی دھجیاں اس بنیاد پہ اڑا دی گئیں کہ اس نے معاشی خود کفیل ہونے کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے میں ان حدود و قیود کو خاطر میں نہیں لائی جو معاشرے نے اچھی عورت کا تمغہ عطا کرنے کے لئے ترتیب دے رکھی ہیں۔

پدرسری معاشرے کے مرد کے حواس پہ عورت سوار ہے اور عورت بھی وہ جس کے پاؤں کے نیچے اپنی زمین اور سر پہ اپنا آسمان ہو۔ جو اپنا حق مانگنے کی قائل ہو اور نہ ملنے پہ آواز اٹھانے کے قابل۔ جو مرد کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑ سکے اور جو اس کی زبان کو لگام دے سکے۔

ایسی باغی عورت سے نبٹنے کا ایک ہی حل ہے۔ معاشرے کے نام نہاد سرکردہ مولویوں کو منصف کی مسند پہ بٹھا کے ان کے ہاتھ میں ایک کوڑا پکڑا دیا جائے جسے وہ لہرا لہرا کے یاد دلاتے رہیں کہ عورت کو مقید رکھنے والے دائرے کی حدود کیا ہیں؟ اور جو کوئی اسے اس دائرے سے باہر نکلنے میں مدد کرے گا، اس کو منبر و محراب سے لعن طعن اس طور کی جائے گی کہ عام آدمی اپنی بیٹی کو پر عطا کرنے سے پہلے اس عذاب و ثواب کا حساب لگا لے جو اس پر روز حساب نازل ہونے کی توقع ہے۔ ان قیاس آرائیوں کا منبع منبر بھی ہے اور سوشل میڈیا بھی۔

لیجیے ہمیں ایک جملہ یاد آ گیا جو بہت پہلے کسی خیر خواہ نے ہمارے ایسے ہی کسی واویلے کے جواب میں کہا تھا،

” ہم میں سے زیادہ تر اس لئے بہن، بیوی اور بیٹی کو اعلی تعلیم حاصل کر کے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ دوست احباب کی پھبتیاں سہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، رشتے داروں کے طعنے سننے کی ہمت نہیں ہوتی اور لوگوں کی استہزائیہ نظریں برداشت نہیں ہوتیں“

سچ پوچھیے تو لگتا ایسا ہی ہے کہ طارق جمیل کے فتوے، طارق مسعود کی فتنہ انگیز گفتگو، خلیل الرحمن قمر کے شرم ناک بیان سن سمجھ کر، سنی ان سنی کر کے عورت کو پرواز کا حق دینا وہ جہاد ہے جو ہمارے معاشرے کے کچھ جری مرد ہی کیا کرتے ہیں۔ شاید یہ مردان کوہ قامت ہی مفتی صدر الدین آزردہ کی روایت کا تسلسل ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ایک ایسے ہی مرد کے گھر جنم لیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).