دوسروں سے اسلحہ خریدنے والا انڈیا اپنا آکاش میزائل دنیا کو کیسے بیچےگا؟


انڈیا کی مرکزی حکومت نے گذشتہ بدھ کو انڈیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے والے ممالک کو زمین سے فضا تک مار کرنے والے آکاش میزائل برآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

انڈیا کے آکاش میزائل کی دوست ممالک کو فروخت کے لیے انڈین وزیر دفاع کی زیرصدارت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ دفاع سے متعلق برآمدات کو فوری منظوری مل سکے۔

انڈین وزارت دفاع کے مطابق، گذشتہ چند برسوں میں ہونے والی بین الاقوامی نمائشوں، ڈیفنس ایکسپو اور ایرو انڈیا کے موقعے پر کچھ دوست ممالک نے آکاش میزائل میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ اس کے ساتھ ساحلی نگرانی کے نظام، ریڈار اور ایئر پلیٹ فارمز میں بھی دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رفال طیاروں کے بعد انڈیا کا فرانس سے ہیمر میزائلوں کا بھی معاہدہ

’مشن شکتی سے خلائی سٹیشن کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا‘

سینیٹ کی سعودی عرب کو اسلحہ بیچنے کی مخالفت

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا اس میزائل کو برآمد کرنے کا خواہاں کیوں ہے؟

یہ میزائل خاص کیوں ہے؟

آکاش ‘زمین سے فضا تک مار کرنے والا ایک میزائل ہے جو 25 کلومیٹر کے فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ 95 فیصد انڈیا میں تیار کیا جانے والا میزائل ہے۔

یہ میزائل سنہ 2014 میں انڈین فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک سال بعد، سنہ 2015 میں اس میزائل کو انڈین آرمی کو بھی دیا کیا گیا تھا۔ اس کی تیاری میں تقریبا 25 سال کا وقت لگا ہے۔

بہرحال انڈین حکومت کی طرف سے جاری کردہ معلومات میں یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ حکومت یہ میزائل کن ملک کو فروخت کرنے جا رہی ہے۔ لیکن حکومت نے یقینی طور پر کہا ہے کہ آکاش میزائل ‘اتحادی ممالک’ کو فروخت کیا جائے گا اور یہ اس میزائل سے مختلف ہوگا جو انڈین فضائیہ اور فوج کے پاس ہے۔

دفاعی امور کے ماہر راہل بیدی کا خیال ہے کہ یہ میزائل ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘مودی حکومت آکاش اور برہموس دونوں میزائلوں کو مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک کو سنہ 2016 سے برآمد کرنے کی بات کر رہی ہے اور حکومت ان میزائلوں کو ان ممالک کو فروخت کرے گی جن کے انڈیا سے تعلقات بہتر ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ میزائل ویتنام کو سنہ 2016 اور 2017 میں بھی فروخت کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس میزائل کی حد 25 کلومیٹر ہے اور اس سے حملہ آور ہونے والے ہیلی کاپٹر، لڑاکا طیارے اور کچھ میزائل سسٹم تباہ ہوسکتے ہیں۔’

میزائل

کیا انڈیا دفاعی اسلحہ برآمد کرنے والا بننے کے لیے تیار ہے؟

انڈیا کی مرکزی حکومت نے سنہ 2024 تک دفاعی برآمدی صنعت میں پانچ ارب ڈالر حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ لیکن یہ ملک دنیا بھر میں خود ہتھیاروں کے درآمد کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ، آٹھ مہینوں میں چین کے ساتھ جو تناؤ پیدا ہوا ہے اس میں ہماری دفاعی پیداوار اپنی ہی ضروریات کو پورا نہیں کر پارہی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘ہم اسلحہ، گولہ بارود اور میزائل سسٹم کی درآمد کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں برآمدات کی بات کرنے میں مجھے قدرے پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ جب ہماری داخلی ضروریات ہی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں تو ایسے میں برآمد کے بارے میں کیسے سوچا جا سکتا ہے؟

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایک تھنک ٹینک ہے جو دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 سے 2019 کے درمیان انڈیا دنیا میں دوسرا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک تھا۔

اس کے ساتھ ہی دفاعی سازو سامان کی درآمد و برآمد کا جغرافیائی سیاسی حالات، طاقت کے توازن، برآمد کنندہ اور درآمد کرنے والے ملک کی داخلی سیاست اور عالمی قوتوں پر زیادہ انحصار ہوتا ہے۔

دنیا کے بڑے اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں ایک خاص قسم کی فضا ہے جو اسلحہ کی برآمد کے لیے موزوں ثابت ہوتی ہے۔

ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا ایک ایسا نظام بنا سکتا ہے جو ملک کو اسلحے کے بڑے برآمد کنندگان میں شامل کرسکتا ہے۔

بڑے مقصد کی طرف پہلا قدم

دفاعی امور کے ماہر اور سوسائٹی برائے پالیسی سٹڈیز کے ڈائریکٹر سی اودے بھاسکر کا خیال ہے کہ آکاش میزائل برآمد کرنے پر رضامندی کسی بڑے مقصد کی سمت ابتدائی اقدام ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میزائل کی دیگر ممالک کو فروخت ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ہم نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ انڈیا کے آکاش میزائل کو خریدنے کے لیے کتنے ممالک تیار ہوں گے کیونکہ دفاعی برآمدات کے لیے ایک خاص مہارت درکار ہوتی ہے اور انڈیا نے ابھی تک اپنے میزائلوں، توپوں، طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور بندوقوں سے اس مہارت کو ثابت نہیں کیا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں بہت سی کمی اور خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا نے ایکواڈور کو کچھ ہیلی کاپٹرز بیچے لیکن ہم اس کے بعد آفٹر سیلز سروس مناسب طریقے سے انجام نہیں دے سکے تو یہ معاہدہ آگے نہیں بڑھ سکا۔’

وہ کہتے ہیں: ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ کی مصنوعات اچھی نہیں ہے، یا اس کی قیمت اچھی نہیں ہے۔ یا آپ نے سیلز سروس کے 30 سال بعد تک ضروری سامان یا ایکو سسٹم نہیں بنایا ہے۔’

لیکن انڈین حکومت نے سنہ 2024 تک جنگی سازوسامان کی برآمدات پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

انڈیا یورپ سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

انڈیا اس وقت اسلحہ برآمد کرنے کے شعبے میں داخل ہو رہا ہے جب اسلحہ کی روایتی مارکیٹ پر امریکہ، روس، چین اور اسرائیل کی اجارہ داری ہے۔ اور اس مارکیٹ میں انڈیا کو جگہ بنانے کے لیے ان ممالک کی حیثیت، اسٹریٹجک قابلیت اور تجربے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

لیکن یہ وہ وقت بھی ہے جب پوری دنیا میں جنگ لڑنے کا طریقہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ روایتی جنگوں میں ڈرون اور مصنوعی ذہانت کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور بہت سے چھوٹے یورپی ممالک اس سمت میں کام کر رہے ہیں اور خود کو عالمی برآمد کنندگان کی حیثیت سے سامنے لا رہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا اپنی دفاعی برآمدات بڑھانے کے لیے روایتی جنگی ہتھیاروں کی طرف بڑھتا ہے یا ان کی روک تھام کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور سافٹ ویئر پر مبنی نظام بنانے کے لیے اپنے سوفٹ ویئر کی صلاحیت کو استعمال کرتا ہے؟

دفاعی تجزیہ کار اودے بھاسکر کا کہنا ہے کہ ‘چاہے آپ میزائل بنائیں یا ہیلی کاپٹر، دنیا کو آپ کی مصنوعات پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی پروڈکٹ نہیں ہے جسے عالمی معیار کا کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ابھی بہت سی مصنوعات پائپ لائن میں ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمارے ملک نے ابھی تک ایک ایسا نظام نہیں بنایا ہے جس میں ہتھیاروں کے ڈیزائن، فروخت اور سروسز شامل ہوں۔ البتہ اس بارے میں کوششیں جاری ہیں لیکن ہم سے چھوٹے ممالک نے خود کو ٹیکنالوجی میں منوا لیا ہے۔ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک بشمول چیک سلوواک جو ایک پروڈکٹ تیار کر کے دنیا میں پہلے نمبر پر آگئے ہیں۔ انڈیا کو بھی اس سمت کام کرنا چاہیے۔’

انتہائی چالاکی کی ضرورت

انڈین دفاعی تجزیہ کار مسٹر بھاسکر کا خیال ہے کہ اس وقت انڈیا کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مخصوص صورتحال میں ان کے لیے سب سے بہتر صورت کیا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں: ‘ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پبلک سیکٹر یونٹوں کے سسٹم میں ایکسپورٹ کے قابل پروڈکٹ بنانا تھوڑا مشکل ہے۔ ایک وقت میں ایئر انڈیا کو دنیا کی بہترین ایئرلائن کمپنی سمجھا جاتا تھا لیکن آج اس کی نجکاری کی بات ہو رہی ہے۔

جنگی سازوسامان

'اور جب آپ دفاعی برآمدات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو آپ کے پاس امریکہ اور دیگر ممالک میں بوئنگ جیسے لڑاکا طیارے بنانے والی کمپنیوں کے پاس مضبوط مارکیٹنگ، سیلز پچ اور سیلنگ فورس ہونی چاہیے۔ ان کمپنیوں کو اس جگہ کو حاصل کرنے کے لیے بہت پیسے اور کئی دہائیاں لگی ہیں۔'

‘ایسی صورتحال میں انڈیا کو بہت چالاکی اور پختگی کے ساتھ دیکھنا ہوگا کہ کون سی مصنوعات انڈیا کو سبقت دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کنٹرول سسٹم بنانے کی صلاحیت انڈیا میں کہیں زیادہ ہے۔ مصنوعی ذہانت اور فائیو جی جیسے شعبوں میں جانے کی ضرورت ہے ۔ہمارے انجینئرز جو باہر جا کر دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ڈیزائن کرتے ہیں لیکن انڈیا کو اس کا فائدہ نہیں ملتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بڑی کمپنیوں کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبز ملک میں بھی ہیں کچھ بنگلور میں اور کچھ حیدرآباد میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں ایسا ماحولیاتی نظام تیار کرنا چاہیے۔

‘مصنوعی ذہانت جیسی فیلڈ میں ہم ایک ایسے ملک کی حیثیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو پہل کرے۔ چاہے وہ ڈرون ہو جو ایک نئی ٹیکنالوجی ہے۔ یا اس سے آگے بڑھ کر ڈرون کی بگاڑ پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن آپ کو ان شعبوں میں اپنے آپ کو قائم کرنے کے لیے انسانی وسائل کی ضرورت ہوگی لہذا اگر آپ آج سے شروع کریں گے تو پھر آٹھ سے دس برسوں میں ہم برآمد کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔

لیکن ایک سوال ہے جس کا جواب صرف حکومت ہی دے سکتی ہے کہ وہ دفاعی برآمدات میں داخل ہونے کے لیے اسٹریٹجک تحمل کا مظاہرہ کرسکے گی یا داخلی سیاسی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp