مچھ میں کان کنوں کا قتل: دہشت گردی کا احیا


بالعموم یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ گزشتہ دور حکومت کی کاوش سے بلوچستان میں دہشتگردی کے عفریت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ یہ قیاس غلط بھی نہیں تھا۔ اس صدی کی پہلی دہائی میں بلوچستان کی سرزمین پر جس طرز کی پرتشدد وحشیانہ قتل و غارت گری دیکھی گئی تھی اس کے نتیجے میں پورے صوبے میں سماجی اور معاشی زندگی مفلوج ہو گئی تھی۔ شاہراہیں ویران ہو گئیں۔ بازار سنسان تھے اور زندگی سہم گئی تھی۔ 2013 کے بعد اس بھیانک صورتحال میں کمی آنی شروع ہوئی تھی اور پھر رفتہ رفتہ شہر دیہات بستیوں اور بازاروں میں روٹھی ہوئی زندگی کی حرارت لوٹ آئی۔ ٹوٹے سماجی رابطے رشتے بحال ہوئے۔ کوئٹہ جہاں 2011 تک سورج غروب ہوتے ہی سڑکوں پر سکوت جم جاتا تھا۔ 2014 میں رات گئے تک ہوٹل و دیگر تجارتی معاشرتی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔

تشدد و دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہوتے رہے۔ مذہبی فرقہ واریت، نسلی اور لسانی بنیاد پر انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی۔ ریاست سے برگشتہ سرمچاروں کی کارروائیاں اپنا الگ انداز رکھتی تھیں۔ عام شہریوں کے قتل کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تصادم، حملوں اور تادیبی جوابی کارروائیوں سے بھی صوبے کے ہر گاؤں، شہر اور پہاڑوں میں انسانی خون کی ارزانی کے اندوہناک مناظر بکھرے۔ صوبہ کے باشندے بلا امتیاز رنگ نسل زبان عقیدہ قومیت اس بارود زدہ ماحول میں سہم کر رہ گئے تھے۔ 2018 سے ماحول میں بہت بہتری آئی، اکا دکا واقعات البتہ پیش آتے رہے۔

ہزارہ قبیلہ کے افراد مسلکی تشدد کی بھینٹ چڑھے تو ان سانحات کے ردعمل میں جوابی وار بھی بے دریغ غارت گری کے ابواب قلمبند کرتے رہے۔

گزشتہ چند سال سے اس گھناونے عمل میں ٹھہراؤ آیا تھا۔ امن کے اس وقفے کو آج مچھ بولان کی کوئلہ کانوں پر کام کرنے والے گیارہ افراد کے بہیمانہ قتل نے قطع کر دیا ہے

دہشت گردی کے اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والے کانکن ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھتے ہیں گویا اس دلخراش واقعہ نے ایک بار پھر پوری شدت سے صوبے میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے خطرات و خدشات کا احیا کر دیا ہے حالانکہ ہم بڑے اطمینان سے اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے عوام اس اظہاریے پر یقین بھی کر رہے تھے مگر وائے ناکامی! بولان مچھ کی کوئلہ کانوں کے گیارہ افراد کو ان کے کچے گھروندوں سے نکال کو پہاڑ کی اوٹ میں لے جاکر گولیوں سے بھون کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔

کرک کا سانحہ اپنی جگہ گہری تشویش کا حامل تھا، مچھ کے سانحے نے پھر سے خوف دہشت اور ان دم تحفظ کی فضا پیدا کردی ہے۔ کیا یہ سب کچھ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ کرنے کا شاخسانہ ہے؟ سید عابد علی یاد آ گیے

راہوں میں جوئے خوں ہے رواں مثلِ موجِ مے

ساقی یقیں نہ ہو تو ذرا میرے ساتھ چل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).